
بھارت کی تاریخ میں دھرم کے نام پر سماج کے کمزور طبقات اور بالخصوص خواتین کا استحصال کوئی نئی روایت نہیں ہے۔ مذہبی اداروں، آشرموں اور مندروں کی تاریک راہداریوں میں ہونے والے خوفناک جرائم کی داستانیں مسلسل منظر عام پر آتی رہی ہیں، مگر سماج کی توہم پرستی، پروہت واد اور گروؤں کو خدا کا درجہ دینے کے تصور نے ان جرائم کو نہ صرف چھپایا بلکہ مجرموں کو تحفظ بھی فراہم کیا ہے۔
حال ہی میں ریاست کرناٹک کے مشہور مذہبی مرکز جدھرمستھلا میں جو المناک اور دل دہلا دینے والے حقائق سامنے آئے ہیں وہ اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ دریائے نیتراوتی کے کنارے پانچ سو سے زائد انسانی لاشوں کی اجتماعی تدفین کے انکشاف نے پورے ملک کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔ یہاں بہنے والا پانی خاموشی سے ان عورتوں کی خوفناک کہانیوں کو بیان کر رہا ہے جنہیں یا تو غائب کر دیا گیا یا جن کی لاشیں عریاں حالت میں ملیں، جن کے ساتھ جنسی زیادتیاں ہوئیں یا جنہیں زندہ جلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
یہ واقعہ سماج کے اجتماعی ضمیر پر سوالیہ نشان ہے کہ کس طرح دھرم اور آستھا کی آڑ میں سماج کے طاقتور عناصر کمزوروں اور مظلوموں کو مسلسل شکار بناتے آ رہے ہیں۔ اس واقعے پر خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کا قیام عمل میں آیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا محض تحقیقاتی ٹیموں کے قیام سے ہی ایسے بھیانک جرائم کا خاتمہ ممکن ہے؟ بھارت کے سماج اور سیاست میں مذہبی اداروں کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ ان پر انگلی اٹھانا بھی آسان نہیں ہے۔ طاقتور پروہتوں اور گروؤں کے نیٹ ورک کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قانون کی عمل آوری کو یقینی بنایا جائے، انصاف کے اداروں کو غیر جانبدارانہ طور پر کام کرنے دیا جائے اور مجرموں کے خلاف سخت ترین کارروائی ہو۔
ایسے واقعات کے پس منظر میں غور کرنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ مذہب کے نام پر استحصال کرنے والے عناصر کس طرح آستھا اور توہم پرستی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سماج کی بنیادوں میں موجود توہم پرستی، جہالت اور عقیدت کے نام پر بے جا احترام اور خوف کے عنصر کو ختم کرنا ہوگا۔ جب تک عوام کو ان فرسودہ روایات اور خود ساختہ مقدس شخصیات کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا جائے گا، استحصال کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ خاص طور پر خواتین جو اس قسم کے واقعات میں ہمیشہ آسان شکار ثابت ہوئی ہیں، انہیں با شعور بنانا اور ان کے حقوق کی پاسداری یقینی بنانا ہر ذی شعور فرد کی ذمہ داری ہے۔ جب تک عوام ان نام نہاد مذہبی پیشواؤں کی حقیقت کو نہیں سمجھیں گے اور قانون کی بالادستی کو یقینی نہیں بنایا جائے گا، ایسے المناک واقعات کو روکنا ناممکن ہوگا۔
اس ضمن میں مسلمانوں کی منصبی ذمہ داری انتہائی اہم ہے۔ اسلام نے ہر قسم کے استحصال اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور حق و انصاف کا پرچم بلند کرنے کی واضح تعلیمات دی ہیں۔ اہل اسلام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سماج میں استحصال اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور دعوت کے ذریعے انسانوں کو حقیقی اور عادلانہ نظام سے متعارف کرائیں۔ کمزوروں، مظلوموں اور بالخصوص خواتین کے حقوق کی پاسداری اور انہیں تحفظ فراہم کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سماجی و دینی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اس میدان میں آگے آئیں اور سماج میں جاری ظلم اور استحصال کے خاتمے کے لیے اپنا عملی کردار ادا کریں۔
کوویڈ مقدمہ: میڈیا ٹرائل کی شکار تبلیغی جماعت بری قرار
کئی برسوں بعد عدالت نے کورونا وائرس پھیلانے کے معاملے میں تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کو تمام الزامات سے باعزت بری کر دیا ہے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس سلسلے میں کوئی ٹھوس شواہد نہیں پائے گئے اور یہ الزام تراشی میڈیا کی سنسنی خیزی سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ کورونا وبا کے آغاز میں تبلیغی جماعت پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اس کے مرکز نظام الدین میں منعقدہ اجتماع سے وائرس پھیلا ہے۔ میڈیا نے اس معاملے کو مذہبی منافرت کے ساتھ پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو بطور خاص نشانہ بنایا تھا۔ اگرچہ یہ فیصلہ انتہائی تاخیر سے ہوا ہے لیکن اس کے باوجود یہ نہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز پروپیگنڈے کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ ہندوستانی میڈیا کے گرتے ہوئے صحافتی معیار کو بھی عیاں کرتا ہے۔
ہندوستان میں عام طور پر قانون کے غلط استعمال، میڈیا ٹرائل اور انصاف کے اداروں کی ناانصافیوں کا شکار اکثر وہ افراد اور طبقات ہوتے ہیں جن کی سماجی، سیاسی یا مذہبی شناخت انہیں آسان ہدف بنا دیتی ہے۔ کورونا وبا کے دوران تبلیغی جماعت پر جس طرح کے الزامات عائد کیے گئے اور انہیں میڈیا ٹرائل کا نشانہ بنایا گیا، وہ نہ صرف ہندوستانی سماج میں انصاف کے بحران کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ میڈیا کے کردار پر بھی سنجیدہ سوالات کھڑے کرتا ہے۔