اداریہ

بھارت کا بدلتا معاشرتی منظرنامہ شناخت کا بحران

آج کا ہندوستانی معاشرہ بے حد تضادات کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ اتھل پتھل سیاسی سطح پر تو جاری ہے ہی، سماجی اور معاشرتی سطح بھی اس سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوچکی ہے۔ خاندانی رشتوں کی پیچیدگیاں، لڑکیوں کی تعلیم، کیریئر اور خاندان کی نام نہاد ‘عزت’ کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان اور سماجی و مادی ترقی کے بدلتے معیارات موجودہ ہندوستانی معاشرے کی وہ المناک حقیقتیں ہیں جو ترقی کی ظاہری چمک دمک کے پیچھے پوشیدہ ہیں۔ آج ایک طرف ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور معاشی ترقی کے بلند بانگ دعوے ہیں تو دوسری طرف خاندانی روایات، لڑکیوں کی انفرادی حیثیت اور خاندانی عزت کے تصورات کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی سنگین صورت حال ہے۔ چنانچہ حال ہی میں دہلی سے متصل ریاست ہریانہ کے ترقی یافتہ شہر گروگرام کی ایک پاش کالونی میں عزت کے نام پر کیے جانے والے قتل کے واقعے نے اس مسئلے کی شدت کے ساتھ واضح کر دیا ہے، جہاں ایک 51 سالہ شخص نے اپنی بیٹی کے اسپورٹس کیرئر اور اس کی آزادی کے بارے میں خاندان اور برادری والوں کی طعنہ زنی اور معاشرے کے دباؤ دباؤ میں آ کر اپنی ہی لخت جگر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس واقعے نے واضح کر دیا ہے کہ لڑکیوں کی آزادی، ان کی تعلیم اور کیریئر سے وابستہ معاشرتی تصورات نہ صرف ان کی شخصی آزادی کے لیے خطرہ ہیں بلکہ بعض اوقات ان کے لیے جان لیوا بھی بن جاتے ہیں۔
یہ مسئلہ محض سطحی نہیں بلکہ گہری سماجی اور ثقافتی سوچ سے وابستہ ہے، جہاں ایک لڑکی کی تعلیم اور کیریئر کو اکثر خاندان کی ‘عزت’ کے خلاف ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں جب آزادانہ طور پر فیصلہ سازی کی طرف بڑھتی ہیں تو ان کے قدم روکنے کے لیے عزت، روایت اور اقدار جیسے الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ذہنی طور پر آزاد نہیں ہو پاتیں اور معاشرے کے طے کردہ معیارات کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
موجودہ معاشرے میں کامیابی کے پیمانے بھی گمراہ کن حد تک بدل چکے ہیں جہاں مادیت ترقی اور ظاہری شان و شوکت کو ہی کامیابی تصور کیا جاتا ہے، جس سے اخلاقی اقدار، جو کہ مشرقی تہذیب کا خاصہ ہیں تیزی سے زوال پذیر ہو رہے ہیں۔ نوجوان نسل ان معیارات تک پہنچنے کی کوشش میں اپنی اصل پہچان، روایتی اقدار اور اخلاقیات سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ مشہور سماجی تجزیہ نگار سندیپ منو دھانے نے درست نشاندہی کی ہے کہ مستقبل میں یہ تحقیق کا ایک اہم اور سنجیدہ موضوع ہوگا کہ ہندوستانی معاشرہ محض چند برسوں میں ہی اس قدر زوال پذیر کیوں ہوا؟ یہ سوال محض بیانیے کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ گہرے سماجی و ثقافتی رجحانات کی نشاندہی بھی کرتا ہے، جو موجودہ معاشرے کے تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔ لڑکیوں اور خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم، عدم برداشت اور ان کی شخصی آزادی پر قدغن لگانے کے بڑھتے ہوئے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سماجی ترقی کے معیارات بدل چکے ہیں اور اب ترقی محض اقتصادی یا مادی ہی نہیں ہے بلکہ یہ سماجی اور ذہنی اصلاح کی بھی محتاج ہے۔
اس پیچیدہ صورتحال میں جدیدیت اور روایت پسندی کے درمیان اعتدال کی راہ اپنانا نہایت ضروری ہے۔ اسلام نے اس معاملے میں واضح رہنمائی کی ہے اور تعلیم، کیریئر اور خاندان کے درمیان توازن قائم رکھنے کا بہترین حل پیش کیا ہے۔ اسلام لڑکیوں کی تعلیم اور خود مختاری کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہے، مگر ساتھ ہی خاندان اور سماجی اقدار کے تحفظ پر بھی زور دیتا ہے۔ اسلام میں عورت کو معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں شرکت کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ خاندان کے استحکام اور اخلاقی حدود کی پاسداری کو بھی لازم قرار دیا گیا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات واضح طور پر خواتین کو معاشرتی ترقی میں کردار ادا کرنے اور اپنی ذات کی ترقی وتکمیل کے لیے مساوی مواقع فراہم کرتی ہیں۔
زمانے میں آگے بڑھنے اور کامیابی کے بدلتے ہوئے پیمانوں کے ساتھ ضروری ہے کہ خاندانی اور سماجی سطح پر تعلیم، شعور کی بیداری اور نئی نسل کی مناسب تربیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ انفرادی آزادی اور فیصلہ سازی میں لڑکیوں کی خود مختاری اور خاندان کی نام نہاد عزت کے تصور کو از سرِ نو صحیح بنیادوں پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ معاشرہ اور ریاست مل کر ایسے اقدامات کریں جن سے لڑکیوں کی تعلیم، کیریئر اور خاندان کی روایات کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہو۔ خواتین کے حقوق، انسانی حقوق، اور معاشرتی انصاف کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم اس پیچیدہ سماجی و خاندانی مسئلے کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں اہلِ اسلام پر بھی بڑی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خاندان اور معاشرت سے متعلق اسلام کی معتدل اور انسانیت نواز تعلیمات کو اہل ملک کے سامنے مؤثر طریقے سے پیش کریں اور عملی طور پر ان کا نمونہ بن کر بھی دکھائیں تاکہ ہمارا ملک صحیح معنوں میں اخلاقی، سماجی اور تہذیبی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔