اداریہ

ایمرجنسی کی سالگرہ اور آج کا جمہوری منظر نامہ

25 جون 1975 کو ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ بنیادی ثقافتی، انسانی اور آئینی اقدار کے خلاف شدید ترین کریک ڈاؤن کی علامت بنا۔ اس دور میں بنیادی آزادیاں معطل ہوگئی تھیں، پارلیمنٹ کا اختیار محدود کر دیا گیا تھا اور لوگوں کے دلوں میں خوف کی فضا پیدا ہوگئی تھی۔ ایمرجنسی کے دو برسوں کے دوران صحافت پر مکمل کریک ڈاؤن ہوا۔ اخبارات نے اس دوران صرف حکومتی بیانات ہی شائع کیے، دیگر آوازیں خاموش ہو گئیں اور صحافیوں کے خلاف قانونی اور انتظامی کارروائی ہوتی رہی۔ عدالتوں سے اختیارات چھین لیے گئے، حکومت کے مخالفین کو گرفتار کیا گیا اور انہیں سیاسی حراست میں رکھا گیا۔ اس دور میں ریاست کی طاقت کے بے تحاشا استحصال نے انسانی حقوق کی عمارت کو زمین بوس کیا۔
آج جب بی جے پی ان دنوں کی سالانہ یاد مناتی ہے تو یہ محض تاریخی یاد دہانی نہیں بلکہ ایک جمہوری چیلنج بھی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج مودی دور حکومت میں آئینی قدروں کا احترام ہو رہا ہے، یا انہیں کمزور کرنے کا خطرناک انداز اختیار کیا جارہا ہے؟
بی جے پی نے ایمرجنسی کے دن کو "سمویدھان ہتھیا دیوس” (آئین کے قتل کا یوم) کے نام سے منانے کا آغاز کیا ہے۔ پارٹی کے بقول اس کا مقصد صرف ماضی کی تلخ یادوں کو تازہ کرنا نہیں بلکہ نوجوانوں میں جمہوری شعور بیدار کرنا، اس دور کے ظلم کو بے نقاب اور سابقہ حکم رانوں کی غلطیوں کی وضاحت کرنا ہے۔ اس مہم کے ذریعے وہ آئینی اختیارات کی اہمیت، آزادی صحافت کی قدر اور ریاستی طاقت کے غلط استعمال کی وجوہات کو عوام تک پہنچانا چاہتی ہے۔ لیکن ایمرجنسی کے یاد منانے کے اس پورے واقعے کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات اس قدر سادہ بھی نہیں ہے۔ ایمرجنسی کی سالانہ یاد منانے کا یہ اقدام اپنے اندر دو جہتی خدشات رکھتا ہے: اولاً یہ کہ کیا یہ محض ماضی کی یاد دلانے کے لیے ہے یا تاریخ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ایک کوشش ہے؟ ثانیاً کیا یہ اقدام آئینی وقار اور انسانی حقوق کے تحفظ کے حقیقی تصور پر روشنی ڈال رہا ہے یا اس واقعے کو سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنایا جا رہا ہے؟
صورت واقعہ یہ ہے کہ جہاں ماضی میں ایمرجنسی کا دَور آئین اور عدالتوں کو محدود کرنے کا دَور تھا، وہیں آج کا دَور بھی خاموشی سے — بلکہ ادارہ جاتی طاقت کے ذریعے کسی موقف یا آواز کو دبانے کا دَور ہے۔ اگر آج بھی میڈیا ہاؤسز پر مختلف طریقوں سے دباو ڈالنے، قانونی نوٹسیں جاری کرنے یا حقیقی رپورٹنگس کو نشانہ بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو آخر انہیں کیا نام دیا جائے؟ بی جے پی کی حکومت تو دعویٰ کرتی ہے کہ آج جمہوریت مضبوط ہے، صحافت آزاد اور ادارے خود مختار ہیں لیکن شواہد کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں، مثال کے طور پر رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی سال 2023 کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی صحافتی آزادی کا درجہ 150 سے اوپر ہے، جو عدم استحکام اور دباو کا واضح ثبوت ہے۔ ملک میں معروف "گودی میڈیا” کے ذریعے حکومت پر کی جانے والی تنقیدوں کو کمزور کرنے کی کوششیں بالکل اسی طرح ہو رہی ہیں جس طرح ایمرجنسی کے زمانے میں ہوا کرتی تھیں۔ آج بھی ملک کے مختلف حصوں میں صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائیاں، میڈیا بائیکاٹ، اخبارات کو اشتہارات کا کم ملنا وغیرہ جیسی صورت حال صحافت پر بڑھتے جبر کی ہی علامات ہیں۔ اگر اندرونی آمرانہ رجحانات لوگوں کو نظر ہی نہ آئیں تو آج کے حالات کو کس نگاہ سے سمجھا جائے؟ آج بھی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں برسر اقتدار گروہ سیاسی مخالفین کو سی بی آئی یا ای ڈی جیسے اداروں کے ذریعے قانونی دباؤ میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔
گزشتہ دنوں ممبی میں سابق آئی پی ایس آفیسر سنجیو بھٹ کی اہلیہ شویتا بھٹ نے ایک جلسے میں جو خطاب کیا وہ آج کی صورت حال کی بہترین عکاسی کرنے والا تھا۔ ان کا خطاب صرف ایک شوہر کی رہائی کی اپیل نہیں تھی بلکہ ہندوستان کے آئینی و انسانی حقوق کے زوال کا نوحہ بھی ہے۔ ان کی مختصر تقریر میں صرف ذاتی تکلیف کی بازگشت سنائی نہیں دی بلکہ وہ ایک اجتماعی پکار تھی جو ملک کے ہر باشعور شہری کے حلق سے نکلنے کے لیے بے چین تھی– ایک ایسے سماج کے بارے میں شکوہ تھا جو مخالف آوازوں کو کچل کر خود اپنے آئین کی قبر کھودنے لگا ہے۔ یہ خطاب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر طاقت کا استعمال حکومت کے مفاد میں کیا جاتا ہے، تو یہ ایمرجنسی سے زیادہ خطرناک حالت پیدا کرتا ہے۔ اگر ہم آج کے حالات کا بنظر غائر جائزہ لے کر دیکھیں تو درج ذیل باتیں واضح ہو کر ہمارے سامنے آتی ہیں:
• آج صحافت کی آواز حکومتی جبر کے دباو میں ہے۔ کوئی بھی میڈیا ہاؤس خود خفیہ رپورٹوں یا قانونی نوٹس سے آزاد نہیں ہے۔
• عدالتی نظام ایک طرح کی پابندی میں محسوس ہوتا ہے، قانونی سماعتیں سست، مقدمات طویل اور عدالتی فیصلے غیر واضح اور حکومت کی پسند کے مطابق صادر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
• سیاسی مخالفین پر سی بی آئی، انکم ٹیکس یا ای ڈی جیسے اداروں کے ذریعے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
• سول سوسائٹیوں، وکیلوں اور انسانی حقوق کے اداروں کا کردار تو مضبوط ہے مگر ان کا اثر محدود ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
اور یہ تمام باتیں کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے مفید نہیں ہیں۔ اگر بی جے پی واقعی ملک کو ایمرجنسی جیسی صورت حال سے بچانا چاہتی ہے تو اسے انسداد طاقت، قومی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کو ریاستی منشور کا حصہ بنانا ہوگا۔
25 جون کو ایمرجنسی کے ایام ہمیں صرف ماضی یاد نہیں دلاتے، بلکہ ہمارے سامنے مستقبل کے لیے تین بڑے اور اہم اصول بھی پیش کرتے ہیں جن کے بغیر کوئی بھی سماج مکمل طور پر جمہوری اور آزاد نہیں کہلا سکتا۔ اولاً: قانون کا احترام، اداروں کی آزادی اور پارلیمانی کردار کو مضبوط کرنا۔ ثانیاً: صحافتی آزادی کو یقینی بنانا، نہ کہ میڈیا کو خاموش کر دینا، آزادانہ رپورٹنگ پر قدغن لگانا یا معاشی طور پر اس کو دبا دینا وغیرہ جیسے اقدامات، جو کہ آئین کے سراسر خلاف ہیں۔ ثالثاً ریاستی اداروں، جیسے عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کو اپنے اپنے دائروں میں آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملنا۔ سیاسی مفادات کے لیے ان اداروں کا استعمال ملک کو کمزور کر دیتا ہے۔
ایمرجنسی کی سالگرہ کی ياد صرف ایک تاریخی لمحہ نہیں بلکہ آئندہ حکومتوں کے لیے ایک انتباہ بھی ہے کہ اگر طاقت کا بے محابا استعمال، میڈیا پر پابندیاں، عدالتی عمل کی کمزوری اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے جیسی چالیں، چاہے وہ کھلے عام ہوں یا خاموشی سے، چلی جاتی رہیں گی تو یہ بھی عوام کے لیے گویا ایمرجنسی کی حالت ہی ہے۔ 1975 کی ایمرجنسی آنے والی نسلوں کے لیے آئینی شعور، بنیادی حقوق، آئینی تحفظ اور جمہوری آزادی کی سوچ کا درس دیتی ہے۔ اب یہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے یا اسے اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنانے کے بجائے اس سے سبق لے کر آئینی قدروں کو مضبوط بنانے اور عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے کا کام کرے۔