اداریہ

ایران-اسرائیل ٹکراؤ: تہذیبوں کی جنگ، عالمی ضمیر کا امتحان

مشرق وسطیٰ ایک مرتبہ پھر سنگین بحران کی زد میں ہے۔ حالیہ ایران اسرائیل تنازعے نے عالمی سطح پر نہ صرف تشویش میں اضافہ کیا ہے بلکہ بڑی طاقتوں کے رویوں کو بھی واضح طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ اس بحران کے دوران جہاں ایران کا موقف انتہائی مہذب، پیشہ ورانہ اور عالمی قوانین کی پابندی پر مبنی ہے، وہیں امریکہ اور اسرائیل کا رویہ عالمی قوانین، انسانی حقوق اور خود مختاری کی کھلی پامالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس تنازعے میں اسرائیل اور امریکہ کی جارحیت قابلِ مذمت ہے۔ اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین اور عالمی جوہری معاہدات کی ضمانتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ حالیہ اسرائیلی و امریکی حملے بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے منشور اور اس کی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ یہ حملے نہ صرف ایران کی خود مختاری پر ضرب ہیں بلکہ عالمی جوہری معاہدہ (NPT) کے تحت ایٹمی تنصیبات کے تحفظ کی بین الاقوامی ضمانت کو بھی پامال کرتے ہیں۔ اسرائیل نے نہ صرف ان عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ اس نے اپنے خفیہ ایٹمی پروگرام کو بھی عالمی معائنہ سے دور رکھا ہوا ہے۔ اسرائیل کا یہ طرز عمل عالمی سطح پر امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے اور خطے میں ایک نئی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
اس موقع پر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ گزشتہ دنوں ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے استنبول کی پریس کانفرنس میں جو لب و لہجہ اختیار کیا وہ بلاشبہ تحمل، متانت اور سنجیدہ سفارت کاری کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ تیکھے اور مشکل سوالات کے دوران بھی انہوں نے نہ تو جذباتیت کا مظاہرہ کیا اور نہ ہی تہذیب و شائستگی کا دامن ہاتھ سے جانے دیا۔ اس کے برعکس خود کو تہذیب و تمدن کا علم بردار کہنے والی عالمی طاقتوں اور بالخصوص اسرائیلی قیادت کی زبان گلی محلوں کے غنڈوں کی دھمکیوں سے زیادہ مختلف نہ تھی۔ عالمی دھونس و دھاندلی کے آشکار ہو جانے کے بعد آنے والے دنوں میں چین اور روس وغیرہ ممالک موجودہ غالب طاقتوں کو حاشیے پر کرنے اور عالمی توازن کو بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسرائیلی قیادت اور امریکی نمائندوں نے اپنے بیانات میں مسلسل دھمکی آمیز اور جارحانہ زبان استعمال کی جو کسی بھی طرح عالمی سفارتی روایات کے مطابق نہیں ہے۔
یہ صورت حال عالمی طاقتوں کے دُہرے معیار کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ ایک جانب ایران عالمی قوانین کی پاسداری کا عزم ظاہر کر رہا ہے تو دوسری جانب اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والی طاقتیں ہر قانونی اور اخلاقی حد سے تجاوز کر رہی ہیں۔ عالمی برادری کو یہ غور کرنا ہوگا کہ حقیقی معنوں میں مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ کون سا ہے؟ کیا محض معاشی طاقت اور فوجی قوت سے کسی قوم کو تہذیب یافتہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ یا اس کے لیے قانون پسندی، اخلاقیات، انسانی حقوق اور تحمل و بردباری جیسے اقدار کو اہمیت دینا ضروری ہے؟ عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف فوری اقدامات کرے اور آزادانہ و غیر جانب دارانہ تحقیقاتی کمیشن قائم کرے جو حالیہ واقعات کی مکمل تفتیش کرے اور اسرائیل کو قرار واقعی سزادے۔
اس تناظر میں بھارت کی خارجہ پالیسی کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ ایران کے ساتھ بھارت کے تمدنی، تاریخی اور تجارتی روابط انتہائی قدیم ہیں۔ بھارتی تہذیب کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اخلاقی اقدار اور عالمی قوانین کی ہمیشہ حمایت کرتا رہا ہے۔ لیکن حالیہ ایران-اسرائیل بحران کے موقع پر بھارت سرکار کی خاموشی ایک تشویش ناک امر ہے۔ بھارت کی تاریخی غیر جانب دارانہ خارجہ پالیسی ہمیشہ مظلوم اقوام کی حمایت، امن اور انصاف پر مبنی رہی ہے۔ سابق کانگریس صدر سونیا گاندھی نے اپنے حالیہ مضمون میں بجا طور پر اس خاموشی کو بھارت کی دیرینہ تہذیبی و سفارتی اقدار سے رو گردانی قرار دیتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران بھارت کا پرانا دوست ہے اور ہمیں اپنے سفارتی و اخلاقی روایات پر قائم رہنا چاہیے، یہ نہ صرف قابلِ قدر بلکہ جرأت مندانہ موقف بھی ہے۔ بھارت کو عالمی سطح پر اپنی تاریخی غیر جانب داری اور انصاف پسندانہ مؤقف کو برقرار رکھتے ہوئے اس بحران میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت کو ایران کے مہذب رویے اور سفارت کاری سے سبق لینے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں عالمی برادری میں ایک ذمہ دار اور اصول پسند قوم کے طور پر اپنی روایتی شناخت کو برقرار رکھنا ہوگا۔ ایران کی طرح تحمل اور بردباری سے سفارتی تعلقات کو فروغ دینا اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں کی واضح مذمت کرنا، نہ صرف اخلاقی طور پر ضروری ہے بلکہ عالمی سیاست میں بھارت کے وقار اور اثر و رسوخ کے لیے بھی مفید ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اسرائیلی جارحیت اور ایران کی ایٹمی و شہری تنصیبات پر حملوں کی آزادانہ اور شفاف بین الاقوامی تحقیقات کرے اور ایٹمی تنصیبات پر حملے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مضبوط سفارتی اور سیاسی موقف اختیار کرے۔
آج کا بحران تہذیب و تمدن کے حقیقی معیار کی آزمائش بھی ہے اور عالمی ضمیر کا امتحان بھی۔ اس امتحان میں کامیابی کا معیار طاقت نہیں بلکہ قانون پسندی، انسانیت، اخلاقیات اور عالمی قوانین کی پاسداری ہے۔