
ملک میں برسر اقتدار جماعت بی جے پی نے اپنے اقتدار کے گیارہ سال مکمل ہونے پر ایک بھرپور جشن کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر حکومت نے اپنی بعض قابلِ ذکر کامیابیوں کو پیش کیا، جن میں انفراسٹرکچر کی ترقی، ڈیجیٹل انڈیا کا فروغ، بجلی و سڑکوں کی فراہمی میں بہتری، دفاعی خود کفالت کے اقدامات، اور بین الاقوامی سفارتی سطح پر بھارت کی موجودگی کو تقویت دینا شامل ہیں۔ خاص طور پر UPI نظام، ڈیجیٹل پیمنٹس، آتم نربھر بھارت اور سولر انرجی میں سرمایہ کاری کے علاوہ چند ریاستوں میں بلدیاتی سطح پر انتظامی اصلاحات کو سراہا جا سکتا ہے۔ تاہم ان تمام کامیابیوں کے باوجود اگر وقتی نعرے بازی اور سرکاری اشتہارات کے ہجوم سے ہٹ کر بحیثیت مجموعی ملک کی داخلی اور خارجی صورت حال کا حقیقی تجزیہ کیا جائے تو کئی بنیادی سوالات ابھرتے ہیں جو عوامی فلاح، جمہوری قدروں اور عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ سے جڑے ہوئے ہیں۔ گیارہ برسوں کا یہ دور محض ترقی کے دعوؤں کا نہیں بلکہ گہرے تضادات، سیاسی یک طرفی اور سماجی و سفارتی انحطاط کا بھی مظہر ہے۔ ایسے میں یہ سوال ناگزیر ہو جاتا ہے کہ آیا یہ جشن واقعی ترقی کا ہے یا خود فریبی کا؟
گزشتہ گیارہ برسوں میں مہنگائی کا گراف مسلسل بلند ہوا ہے۔ دودھ، سبزیاں، دالیں، گیس سلنڈر اور دیگر ضروری اشیائے صرف کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ حکومت کے دعوے کے برعکس بے روزگاری کی شرح کئی بار گزشتہ 45 برسوں کی بلند ترین سطح تک پہنچی ہے۔ کروڑوں نوجوان نوکریوں کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ "ہر سال دو کروڑ نوکریوں” کا وعدہ، حقیقت میں سرکاری نوکریوں میں کمی، نجی شعبے میں غیر یقینی اور کنٹریکٹ کلچر میں اضافے کے سائے میں دفن ہو چکا ہے۔ غربت کی صورت حال بھی تشویش ناک ہے۔ نیتی آیوگ کی کچھ رپورٹس میں غربت میں کمی دکھائی گئی ہے لیکن زمینی سطح پر کروڑوں عوام، خاص طور پر دیہی، قبائلی اور اقلیتی طبقات بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ مزدور طبقہ، کسان اور شہری غریب کورونا بحران کے بعد اب تک مکمل بحالی کے منتظر ہیں۔
بی جے پی حکومت کے گیارہ سالہ دور میں جمہوری ادارے بتدریج کم زور ہوئے ہیں۔ طلبہ، صحافیوں، سماجی کارکنوں اور اقلیتوں کی آواز کو یا تو دبا دیا گیا یا انہیں غدار اور تخریب کار قرار دے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ یو اے پی اے اور این ایس اے جیسے قوانین کا بے دریغ استعمال عام ہو گیا ہے۔ میڈیا پر سنسرشپ اور دباو کا ماحول غالب ہے۔ صحافیوں پر مقدمات، گرفتاریاں اور چھاپے معمول بن چکے ہیں۔ بھارت پریس کی آزادی کے عالمی انڈیکس میں نچلے نمبروں پر آ چکا ہے جو ایک ایسے ملک کے لیے باعث شرم ہے جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے۔
اس گیارہ سالہ دور حکومت میں مذہبی بنیادوں پر سیاست کو غیر معمولی فروغ ملا ہے۔ حکم راں جماعت کے نمائندے اور اس کے حامی گروہ کھلے عام اقلیتوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں ہوتی۔ ہجومی تشدد، مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر، مذہبی شعائر کی توہین اور مساجد و مدارس کو نشانہ بنانا اب ایک منظم پالیسی معلوم ہوتا ہے۔نتیجتاً، ملک کی فضا میں خوف اور عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔ معاشرتی ہم آہنگی جو بھارت کی پہچان تھی، بتدریج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ دلتوں، قبائلیوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کی خبریں معمول بن گئی ہیں جو کہ آئین و انسانیت کی روح کے منافی ہے۔
حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کو ایک "اسٹرانگ لیڈر” بیانیے کے تحت آگے بڑھایا ہے۔ اگرچہ کچھ شعبوں، جیسے دفاعی معاہدوں یا بھارت-امریکہ تعلقات میں وقتی بہتری آئی ہے لیکن مجموعی طور پر بھارت کی سفارتی حکمت عملی تضاد اور تناؤ کا شکار رہی۔ چین کے ساتھ سرحدی جھڑپیں، نیپال و بنگلہ دیش کے ساتھ رنجشیں، خلیجی ممالک میں مذہبی منافرت پر تنقید اور پڑوسیوں کے ساتھ بگڑتے رشتے خارجہ محاذ پر بھارت کی کم زور گرفت کی علامت ہیں۔بین الاقوامی انسانی حقوق تنظیمیں، اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے اور مغربی دنیا کی دانش ورانہ برادری ملک کے اندر اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور پریس پر پابندیوں کے باعث تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ بھارت کا سافٹ پاور جو کبھی رواداری اور گاندھیائی فلسفے سے وابستہ تھا، اب ہندوتوا کی تنگ نظر سیاست سے جڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
اس دور حکومت کا ایک اور پہلو اعداد و شمار کے ذریعے عوام کو گم راہ کرنا ہے۔ حکومتی دعوے اکثر ناقابل تصدیق یا تضاد کا شکار ہوتے ہیں۔ جی ڈی پی، روزگار، مہنگائی اور غربت جیسے شعبوں میں کئی بار سرکاری و غیر سرکاری رپورٹیں آپس میں متصادم پائی گئیں۔ اصل زمینی صورت حال کو چھپانے کے لیے خوب صورت نعرے، جذباتی تقریریں، اور قومی سلامتی کے نام پر توجہ بھٹکانے کی حکمت عملی اپنائی گئی۔زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ عوام کے سیاسی شعور کو بلند کرنے کے بجائے ان کو مذہبی اور جذباتی بیانیے میں الجھا کر ‘اندھ بھکت’ بنایا جا رہا ہے، جہاں سوال کرنا جرم اور اختلاف کرنا دشمنی تصور کیا جاتا ہے۔ نعرے بازی کی یہ سیاست جمہوریت کو ایک پرجوش تماشا تو بناتی ہے لیکن اس کے اندر سے خالی خَول میں نہ سماجی انصاف ہوتا ہے نہ عوامی بہبود کا تصور!
بی جے پی حکومت کے گیارہ سالہ دور کا تجزیہ محض اس کی چند کامیابیوں کا تذکرہ کر کے مکمل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ سوال بھی اٹھانا ہوگا کہ کیا ان کامیابیوں کے ثمرات ملک کے ہر شہری تک پہنچے بھی ہیں؟ کیا یہ ترقی سب کے لیے ہے یا محض چند افراد یا مخصوص طبقات کے لیے؟ کیا ملک اندر سے متحد، منصف اور خوش حال ہوا ہے یا اندر ہی اندر تقسیم، خوف اور استحصال کا شکار ہوا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ وقت جشن منانے کا نہیں بلکہ احتساب اور محاسبہ کرنے کا ہے— اور یہ محاسبہ اپنے ضمیر، اپنی سیاست اور اپنی قیادت کا کرنا ہوگا کیونکہ جمہوریت کی طاقت صرف بیالٹ باکس سے نہیں بلکہ با شعور عوام، آزاد میڈیا، طاقتور اداروں اور ایک تکثیری معاشرے کے تحفظ سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی ہمارے ملک کا اصل چہرہ ہے اور اس چہرے کو دھندلانے کے بجائے اسے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔