
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس کی روح کثرت میں وحدت سے عبارت ہے۔ یہاں صرف زبانیں اور مذاہب ہی الگ نہیں، بلکہ موسم، رہن سہن، لباس اور کھانوں تک میں تنوع پایا جاتا ہے — اور یہی تنوع اس ملک کی اصل خوبصورتی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے یہ خوبصورتی ایک تلخ حقیقت کا سامنا کر رہی ہے: یہ ایک گہرا اور تشویشناک علاقائی فاصلہ ہے جو شمالی اور جنوبی ہندوستان کے درمیان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہ صرف ایک سیاسی یا معاشی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی احساس کی کمزوری کا آئینہ دار ہے جسے سمجھنا اور وقت پر اس کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔
24 مئی 2025 کو نیتی آیوگ کے 10ویں اجلاس میں ایک علامتی واقعہ پیش آیا جب جنوبی ہند کی تین ریاستوں — کرناٹک، کیرالا اور پانڈیچیری کے وزرائے اعلیٰ نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدا رامیا نے کوئی نمائندہ تک نہیں بھیجا۔ کیرالا کے وزیر خزانہ شرکت کے لیے تیار تھے مگر انہیں مدعو نہیں کیا گیا کیونکہ دعوت صرف وزرائے اعلیٰ تک محدود تھی۔ بظاہر یہ ایک انتظامی معاملہ تھا مگر اس کی گونج بڑی دور تک سنائی دی۔ یہ عدم شرکت در حقیقت ایک خاموش احتجاج تھا — ایک ایسا پیغام جو وفاقی ڈھانچے میں پیدا ہونے والی خلیج کو نمایاں کر رہا تھا۔ شمال اور جنوب کے درمیان خلیج کی یہ جڑیں پارلیمانی حد بندی، معاشی تقسیم اور لسانی و ثقافتی تشخص میں پیوست ہیں۔
1976 میں طے کیا گیا تھا کہ آبادی کی بنیاد پر پارلیمانی نشستوں کی تقسیم پر روک لگا دی جائے تاکہ ریاستیں خاندانی منصوبہ بندی پر توجہ دیں۔ کیرالا، تمل ناڈو اور کرناٹک جیسی جنوبی ریاستوں نے اس پالیسی کو سنجیدگی سے لیا اور سختی سے اس پر عمل کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج ان ریاستوں کی آبادی میں اضافہ قابو میں ہے، شرح خواندگی بلند ہے اور صحت کے اشاریے بہتر ہیں۔ لیکن اب جب کہ حد بندی پر نظر ثانی کی جا رہی ہے تو انہیں احساس ہو رہا ہے کہ جن ریاستوں نے آبادی کو کنٹرول کیا وہ نشستوں میں کمی کے خطرے سے دوچار ہیں جبکہ شمالی ریاستیں — جنہوں نے اس پالیسی پر عمل نہیں کیا — زیادہ نشستیں حاصل کریں گی۔ وہ سوال کر رہی ہیں کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ ہماری کامیابی کو سزا میں بدلا جا رہا ہے؟
جنوبی ریاستیں ملک کی معاشی معاون ہیں۔ مثال کے طور پر کرناٹک ہے جو ہر ایک روپے کے بدلے میں مرکز کو 2.12 روپے دیتا ہے، جبکہ اتر پردیش 2.73 روپے لیتا ہے۔ کیرالا اور تمل ناڈو کی بھی یہی کیفیت ہے: وہ کماتے زیادہ ہیں، ادائیگی زیادہ کرتے ہیں مگر مرکز سے کم پاتے ہیں۔ ایسا نظام جہاں زیادہ محنت کرنے والوں کو کم صلہ ملے، دلوں میں شکوہ شکایت پیدا کرتا ہے۔ یہ سوال اب صرف اقتصادی نہیں رہا بلکہ عزت نفس اور مساوی سلوک کا معاملہ بن چکا ہے۔
جنوبی ریاستیں اپنی زبانوں اور ثقافت کو لے کر ہمیشہ حساس رہی ہیں۔ ہندی کو مسلط کرنے کی بارہا کوششوں نے اس حساسیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہندی پر زور، مقابلہ جاتی امتحانات میں ہندی کو ترجیح — یہ سب چیزیں اس احساس کو جنم دے رہی ہیں جیسے جنوبی عوام کو قومی دھارے میں "کم تر ہندوستانی” سمجھا جا رہا ہے۔
مسئلے کا حل — صرف پالیسی نہیں بلکہ پورے طرزِ فکر کی تبدیلی میں پنہاں ہے۔
ملک کے مالیاتی وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ریاستوں کی کارکردگی، ضروریات اور پائیدار ترقی کے اہداف کو سامنے رکھ کر ہونی چاہیے۔ اگر کرناٹک، کیرالا یا تمل ناڈو اچھی پالیسیوں سے آگے بڑھے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، نہ کہ الٹا انہیں اس کی سزا دی جائے؟ اسی طرح پارلیمانی نشستوں کی تقسیم ایک حساس عمل ہے۔ اسے محض آبادی کے اعداد و شمار پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس میں ریاستوں کی سماجی ترقی، عوامی خدمات اور آبادی کنٹرول کے اقدامات کو بھی اہمیت دینا ہوگا تاکہ ترقی یافتہ ریاستیں حاشیے پر نہ چلی جائیں۔ ہندوستان کی روح صرف ہندی میں نہیں بستی۔ تمل، ملیالم، کنڑ، تلگو — یہ سب زبانیں ہندوستان کی سانسیں ہیں۔ قومی سطح پر زبانوں کی برابری کا احساس پیدا کرنا اور تعلیمی و انتظامی پالیسیوں میں تمام زبانوں کو مناسب جگہ دینا — یہی اصل یکجہتی اور ملک کا اتحاد ہے۔
یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ یہ خلیج صرف پالیسیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ دلوں میں پیدا ہونے والے فاصلوں کا عکس ہے۔ جب کیرالا کا ایک نوجوان یہ محسوس کرے کہ اس کی ریاست کی ترقی کی کوئی قیمت نہیں، یا کرناٹک کا کوئی محنت کش یہ دیکھے کہ اس کے ٹیکس کا فائدہ کہیں اور جا رہا ہے تو یہ احساسات صرف غصہ نہیں پیدا کرتے — یہ اعتماد کو توڑتے ہیں اور ملک کی بنیادیں بھی ہلا سکتے ہیں۔
ہندوستان صرف ایک ریاستوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک خاندان ہے اور خاندان تبھی چلتا ہے جب سب کو سنا جائے، سب کو برابر سمجھا جائے اور سب کو آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھیں اور اپنی وحدت کو محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت بنائیں۔ اگر ہم نے اس خلیج کو نظر انداز کیا تو ممکن ہے کہ ہمارے دل توڑنے والوں کی فہرست میں ہم خود شامل ہوں۔ اور اگر ہم نے اسے سمجھا تو ہم ایک نیا ہندوستان تخلیق کریں گے — زیادہ منصف، زیادہ متوازن اور زیادہ متحد۔
عالمی مقابلہ حسن یا فحاشی کا کاروبار؟
گزشتہ دنوں ایک چونکا دینے والے واقعے میں برطانیہ کی ملکہ حسن نے مس ورلڈ 2025 کے مقابلے میں شرکت سے انکار کر دیا۔ مقابلے سے دست برداری کے اس اعلان نے ان مقابلوں کی حقیقت کو دنیا کے سامنے ایک بار پھر واشگاف کر دیا ہے۔
عالمی مقابلہ حسن کا نام سنتے ہی عام طور پر ذہن میں چمک دمک، گلیمر اور رنگا رنگ تفریحی دنیا کی تصویر ابھرتی ہے۔ منتظمین کے مطابق اس مقابلے کا مقصد دنیا بھر کی حسین ترین خواتین کو سامنے لانا ہوتا ہے، لیکن کیا واقعی یہ مقابلے محض حسن کی پذیرائی کے لیے ہوتے ہیں؟ شاید نہیں! کیوں کہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ اور تکلیف دہ ہے۔ ایسے مقابلے بنیادی طور پر تجارتی سرگرمیاں ہیں جن میں خوبصورتی کو ایک کموڈیٹی بنا دیا جاتا ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں اشتہارات اور اسپانسرشپ کے ذریعے ان مقابلوں کو سرمائے اور منافع کمانے کا ذریعہ بناتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت کی شخصیت، ذہانت، صلاحیت اور کردار کے بجائے محض اس کے ظاہری جسمانی خد و خال کو اہمیت دی جاتی ہے، جس سے خواتین کی حقیقی قدر اور ان کا وقار متاثر ہوتا ہے۔
برطانیہ کی ملکہ حسن نے مس ورلڈ 2025 کے مقابلے میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے واضح طور پر یہ کہہ دیا کہ اس مقابلے میں حصہ لیتے ہوئے انہیں ایسا محسوس ہوا گویا وہ جسم فروشی کے دھندے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک عورت کے طور پر انہیں یہ بات انتہائی توہین آمیز معلوم ہوئی کہ ان کی قدر صرف ان کے جسم کی بنا پر کی جائے۔ اس خاتون کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان مقابلوں کی حقیقت کیا ہے۔ ایک خاتون جب خود اس حقیقت کو محسوس کر کے مقابلے سے علیحدہ ہو جائے تو یہ صرف اس کی ذاتی رائے نہیں، بلکہ پوری عورت ذات کی فطری عزت و وقار کی آواز بن جاتی ہے۔
حسن کے یہ مقابلے معاشرتی سطح پر کئی طرح کی خرابیوں کا سبب بنتے ہیں۔ ان کی وجہ سے نوجوان لڑکیوں میں حسن کے مصنوعی اور غیر فطری معیارات پیدا ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے اندر احساس کمتری، ذہنی دباؤ اور بے اعتمادی بڑھنے لگتی ہے۔ لڑکیاں اپنی فطری شخصیت کو نظر انداز کر کے مصنوعی معیار پر پورا اترنے کی کوششوں میں مصروف ہوجاتی ہیں، جس سے ان کی ذہنی و جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ ان کے ذریعے نوجوانوں کے ذہن پر بھی حسن کا ایک ظاہری معیار قائم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے خاندانی نظام پر بھی انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب عورت کو محض نمائش کی چیز بنا دیا جائے تو خاندان کی اخلاقی بنیادوں میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان اعتماد اور عزت کا رشتہ کمزور ہونے لگتا ہے۔ گھر کا ماحول باہمی محبت، شفقت اور احترام کے بجائے شکوک و شبہات، بے اعتمادی اور ذہنی الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خاندانی نظام کا استحکام متاثر ہوتا ہے اور معاشرہ مجموعی طور پر اخلاقی بحران کی طرف بڑھتا ہے۔
جب کہ اسلام اس طرح کی نمائش کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات عورت کے حقیقی وقار کو اہمیت دیتی ہیں جو شرم و حیا، تقویٰ و پرہیزگاری اور اخلاقی بلندی و کردار کی مضبوطی میں پوشیدہ ہے۔ قرآن مجید واضح طور پر خواتین کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو حسن و جمال کی نمائش سے بچائیں اور حیا کا دامن تھامے رہیں۔ اسلام عورت کو عزت، احترام اور وقار عطا کرتا ہے اور اس کی شخصیت کو اس کے جسمانی پیمانوں پر تولنے کی سخت ممانعت کرتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی سطح پر ایسے مقابلوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ان کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ اس کے مقابلے میں انسانی اقدار، عزتِ نفس اور حیا کے اصولوں کی سختی سے پاسداری کی جائے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے معاشرے میں ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کریں اور ایک ایسا ماحول تشکیل دیں جس میں عورت کو اس کی حقیقی قدر اور وہ مقام ملے جس کی وہ مستحق ہے۔