مغربی دنیا میں بعض ایام کو مخصوص مقاصد کے لیے متعین کر دینے کا رواج مختلف اسباب کے تحت چل پڑا ہے۔ بعد میں اقوام متحدہ اور اس کے مختلف ذیلی اداروں نے ان کے متعلق فیصلے کر کے ان کی سرکاری حیثیت متعین کر دی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایام سرمایہ داروں کے لیے وسیع تجارتی مواقع کا سبب بنتے گئے اور سرمایہ دار طبقہ ان ایام کو اپنی تجارت چمکانے کے لیے ان کی تشہیر اور پروپگنڈے کے ذریعے ان کا استعمال کرنے لگا۔ ورنہ یہ ایک حقیقت ہے کہ محض علامتی طور پر کسی ایک دن کے منانے سے اصل صورت حال میں کسی بڑی تبدیلی کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔
انہی ایام میں سے ایک عالمی یوم خواتین بھی ہے جو ہر سال آٹھ مارچ کو ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔عالمی یوم خواتین منانے کا آغاز بیسویں صدی کے اوائل میں اس وقت ہوا جب صنعتی انقلاب کے بعد خواتین کی ایک بڑی تعداد معاشی سرگرمیوں میں شامل ہوچکی تھی۔ اس دوران وہ اپنے لیے بہتر معاوضے، کام کی جگہ پر عدم مساوات کے خاتمے اورحق رائے دہی کے لیے جدوجہد میں مصروف تھیں۔ 1908 میں پہلی مرتبہ خواتین نے نیویارک میں یوم خواتین منانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد سے مختلف ممالک میں یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ 1975 میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ نے اس دن کو سرکاری سطح پر منانےکا فیصلہ کیا۔اس کے بعد سے ہر سال پوری دنیا میں آٹھ مارچ کو یہ دن بڑے ہی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔اس موقع پر میڈیا میں خواتین سے متعلق مختلف مسائل پر بحثیں ہوتی ہیں، مختلف ممالک میں خواتین کی صورت حال پر رپورٹیں شائع کی جاتی ہیں اور ان کے ذریعے اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ عوام میں خواتین کے حقوق اور ان کے با اختیار ہونے سے متعلق شعور بیدار کیا جائے اور مردوں اور عورتوں کے درمیان معاشرے میں پائی جانے والے عدم مساوات کو ختم کرنے پر انہیں ابھارا جائے۔
سوال یہ ہے کہ کیا گزشتہ زائد از ایک صدی کی کوششوں کے بعد بھی عورت کی سماجی حیثیت میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے؟ کیا اس کو وہ تمام حقوق مل گئے ہیں جو ایک انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو ملنے چاہئیں؟ یہ صورت حال کسی ایک خطے کی نہیں ہے بلکہ مشرق و مغرب دونوں ہی جگہ وہ کسی نہ کسی طرح کے ظلم کا شکار ہے۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ ہے کہ خواتین کو با اختیار اور انہیں امپاور کرنے کی کوششوں میں اس بات کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ عورت کی اصل اور فطری حیثیت اس کی نسائیت یا اس کا عورت پن ہے۔ جدید مغربی معاشرہ عورت کو یہ آزادی یا امپاورمنٹ اس وقت دیتا ہے جب وہ اپنی نسائیت یا اپنے اصل فطری عورت پن کو ختم کر کے مرد بن جائے۔ مردوں کی طرح کام کرے، مردوں کی طرح رہے اور تمام معاملات میں مردوں کی برابری کرے۔ جب کہ وہ اپنی فطری ساخت کے لحاظ سے وہ مردوں سے پوری طرح الگ ہے۔ اس کی شخصیت، اس کی جسمانی ساخت اور اس نفسیات سب کچھ مردوں سے بالکل الگ ہیں۔ بعض میدان وہ ہیں جن میں وہ مردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور بعض میدان ایسے ہیں جن میں مرد عورتوں کی برابری نہیں کرسکتا۔ اس لیے مساوات، برابری یا ایسی کوئی بھی کوشش جس میں عورت کو اس کی اصل شخصیت سے محروم ہونا پڑے، کسی بھی طرح انصاف نہیں کہا جا سکتا۔ اور آج کا جدید معاشرہ عورتوں کے ساتھ یہی نا انصافی کر رہا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ خود عورت کو بھی اس کا احساس نہیں ہو رہا ہے۔
اس کے برخلاف اسلام نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے اس وقت عورتوں کو ان کے حقوق دیے تھے جب دنیا میں کہیں بھی اس کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اسلام نے عورتوں کو ان کے حقوق ان کی فطری شخصیت کے مطابق عطا کیے ہیں۔ انہیں حقوق دینے کے لیے ان سے اپنی فطری نسائیت کی قربانی نہیں مانگی۔ اس کو عورت برقرار رکھتے ہوئے معاشرتی، تمدنی اور معاشی تمام طرح حقوق کے ساتھ ساتھ عزت و وقار اور احترام بھی عطا کیا۔ لیکن مادہ پرستی پر مبنی مغربی تہذیب خواتین کی آزادی و مساوات کا جو تصور پیش کرتی ہے اس میں اصل زور اس بات پر ہوتا ہے کہ عورت بھی معاشی سرگرمی میں اسی طرح فعال رول ادا کرے جس طرح مرد فعال اور سرگرم ہے۔ اس نظریے کی یہی خرابی ہے جس کے سبب تمام تر نام نہاد کوششوں کے باوجود وہاں عورت کو احترام، وقار اور تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکا۔ ایک طرف ہر سال عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے اور دوسری طرف ان کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس موقع پر یہ بات بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ بہترین نظریاتی بنیادوں کے باوجود مسلم معاشرہ عورتوں کو وہ حقوق اور مقام نہیں دے سکا جس کی تعلیم اسلام میں دی گئی ہے۔ ہم محض رسوم و رواج یا روایات کی جکڑ بندیوں کی وجہ سے اپنے موجودہ سماج کو ایک مثالی سماج کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے سے فی الوقت قاصر ہیں۔
چنانچہ عالمی یوم خواتین کے اس موقع پر اسلام پسندوں بالخصوص خواتین کو چاہیے کہ وہ ایک طرف تو عورت کے حوالے سے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دیگر خواتین کے سامنے کھل کر پیش کریں اور موجودہ تہذیب کی اساسی و نظریاتی خامیوں کو ان پر واضح کریں۔ دوسری طرف امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں خواتین کو وہ حقیقی مقام مرتبہ اور حقوق دیں جو اسلام نے فی الوقع انہیں دیے ہیں۔ اسی سے ایک مثالی مسلم معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جو دنیا بھر کے معاشروں کی خواتین کے لیے مثال بن سکتا ہے۔
گذشتہ اسٹوری