
اظہار خیال کی آزادی کسی بھی جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہوتی ہے۔ یہ آزادی شہریوں کو وہ حق فراہم کرتی ہے جس کے ذریعے وہ ریاستی پالیسیاں، سماجی مسائل اور انتظامیہ کے اقدامات پر کھل کر اظہار خیال کر سکتے ہیں۔ بھارت کے دستور نے آرٹیکل 19 (1) (a) کے تحت ہر شہری کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں، خاص طور پر پاکستان-بھارت تنازع اور “آپریشن سندور” کے تناظر میں اس آزادی کی پامالی کے کئی افسوسناک واقعات سامنے آئے ہیں، جن سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج ملک میں واقعی اظہار رائے کی آزادی باقی ہے؟
اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے استاد پروفیسر محمد علی خان محمودآبادی کی حالیہ گرفتاری اس تشویشناک رجحان کی تازہ مثال ہے۔ ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں حکومت کے دہرے معیار کو واضح کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ملک میں نفرت کے شکار افراد کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ انہوں نے خاص طور پر یہ کہا کہ محض فوج کی ایک خاتون آفیسر کی تعریف کرنا کافی نہیں، بلکہ زمینی سطح پر ظلم و تشدد اور ناانصافیوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ اس پوسٹ کو بنیاد بنا کر ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن نے ان پر بھارت کی فوج کی توہین کرنے، خواتین کی بے حرمتی کرنے، اور قومی یکجہتی کو خطرے میں ڈالنے جیسے سنگین الزامات لگائے، جو بظاہر لغو اور مضحکہ خیز ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان الزامات کے تحت انہیں گرفتار کر کے جیل بھی بھیج دیا گیا۔
اس کے برعکس اگر ہم مدھیہ پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ اور ان کے وزراء کے اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی بیانات کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اور ہائی کورٹ کو از خود کارروائی کرتے ہوئے انتظامیہ کو اس کا حکم دینا پڑا۔ یہ واضح طور پر ریاستی مشینری کے دوہرے معیار اور جانب دارانہ رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک جانب سیکیورٹی کے نام پر اظہار خیال پر قدغن لگائی جاتی ہے اور دوسری جانب اقتدار کے قریبی افراد کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔
اگرچہ قومی سلامتی کسی ملک کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ قومی سلامتی کو لاحق حقیقی خطرات کا مقابلہ کرے اور عوام اس معاملے میں یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور ملک کے عوام نے اس سلسلے میں مثالی کردار ادا کیا بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی سلامتی کی آڑ میں اظہار رائے کی آزادی کو بلا وجہ اور ناجائز طور پر محدود نہ کرے۔ ایک مثالی جمہوری نظام میں دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ قومی سلامتی کے نام پر اختلاف رائے کو دبانا یا تنقیدی سوچ پر پابندی عائد کرنا نہ صرف جمہوری اقدار کے خلاف ہے بلکہ اس سے ملک میں بے چینی اور عدم اطمینان کی فضا بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب یہ بات خوش آئند ہے کہ پروفیسر کی حمایت میں ہر طبقے کے عوام و خواص کھڑے ہوئے نظر آرہے ہیں-
حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کرے جن سے عوام میں خوف اور بد اعتمادی پیدا ہو۔ اظہار خیال کی آزادی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی سلامتی کو لاحق حقیقی خطرات سے مؤثر طور پر نمٹے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر تنقید یا سوال کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار نہ دے۔ اس کے بجائے ایک واضح اور شفاف طریقہ کار اختیار کرے جس کے تحت صرف وہی بیانات اور اقدامات قابل گرفت ہوں جو واقعی قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہوں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنے رویے پر غور کرے۔ دستور ہند میں دی گئی اظہار رائے کی آزادی کو پامال کرنے والے اقدامات سے نہ صرف ملک کی جمہوریت کمزور ہوگی بلکہ اس کی عالمی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔ یہ بھی ضروری ہے کہ انصاف اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بنایا جائے اور تمام شہریوں کے لیے اظہار خیال کی آزادی یکساں طور پر نافذ العمل ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو بھارت کے جمہوری تانے بانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ رہے گا۔
!نئے چیف جسٹس آف انڈیا سے نئی امیدیں
بھارتی جمہوریت ایک ایسا پیچیدہ اور متنوع نظام ہے جو اپنے تانے بانے میں مختلف مذہبی، لسانی، نسلی اور سماجی طبقات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اس وسیع جمہوری ڈھانچے میں عدلیہ کو ایک غیر جانب دار، خود مختار اور آئینی نگہبان کے طور پر نہایت بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہی عدلیہ شہری آزادیوں کی ضامن، حکومتی زیادتیوں کی روک تھام کرنے والی قوت اور آئینی اقدار کی محافظ مانی جاتی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ پر جو سوالات اٹھتے رہے ہیں، اس نے عدلیہ کی ساکھ، وقار اور عوامی اعتماد کو بری طرح متاثر کیا۔ ایسے ماحول میں جسٹس بی آر گوائی کی بطور چیف جسٹس آف انڈیا تقرری نہ صرف ایک تاریخی لمحہ ہے بلکہ نئے امکانات کا ایک دروازہ بھی کھولتی ہے۔
جناب بی آر گوائی کا تعلق دلت پس منظر سے ہونا محض ایک علامتی پیش رفت نہیں بلکہ بھارت کے عدالتی اور سماجی ڈھانچے میں ممکنہ تبدیلی کی ایک امید بھی ہے۔ ان کا چیف جسٹس بننا بابا صاحب امبیڈکر کے اس خواب کی تعبیر کی طرف ایک پیش رفت ہوسکتی ہے، جس میں آئین کی روح کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے۔ انہوں نے جب ‘چیتیہ بھومی’ جا کر اپنی پہلی تقریر میں ڈاکٹر امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کیا اور مساوات، اخوت، آزادی اور آئینی وحدت جیسے الفاظ کو اپنی عدالتی سوچ کا مرکز بتایا تو یہ محض رسمی بیان نہیں تھا، بلکہ ایک نظریاتی وابستگی کا اظہار تھا۔
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی چیف جسٹس آف انڈیا نے ڈاکٹر امبیڈکر کی یادگار پر جا کر اپنی ذمہ داری کا آغاز کیا۔ اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ وہ واقعی آئین کی پاسداری کو ذاتی عزم اور پیشہ ورانہ فریضہ بنائیں گے۔ انہوں نے جس انداز سے مہاراشٹر پروٹوکول کی خلاف ورزی پر ناراضی ظاہر کی، اس سے بھی یہ عندیہ ملا کہ وہ آئینی وقار اور ادارہ جاتی احترام کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔
تاہم، امیدوں کے اس دریچے کو کھولنے کے ساتھ کچھ زمینی حقائق بھی ہیں جن سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔ ماضی قریب میں سپریم کورٹ کے کچھ فیصلے، کچھ ججوں کے بیانات اور رویے، اور انصاف کی راہ میں آنے والی بعض مبینہ رکاوٹیں عدلیہ پر سوالات کھڑے کرتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پر جسٹس بیلا ترویدی جیسے ججوں پر ذات پات کے تعصب کی جو تنقید کی گئی، اور اس کے خلاف سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کی جو مہم چلی، وہ عدلیہ کے اندر موجود غیر مرئی تعصبات کو بے نقاب کرتی ہے۔ چیف جسٹس گوائی کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ نہ صرف عدلیہ کو ان داخلی تعصبات سے پاک کریں بلکہ اقلیتوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کے لیے عدلیہ کو ایک واقعی پناہ گاہ اور انصاف کا ادارہ بنائیں۔
آج بھارت میں عدلیہ کے کردار پر جو بنیادی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں وہ محض قانونی موشگافیوں سے متعلق نہیں، بلکہ عدالتی غیر جانب داری، انصاف کی فراہمی میں تاخیر، طاقتور طبقات کے لیے نرم رویہ اور کمزوروں کے لیے سختی جیسے نقائص سے متعلق ہیں۔ عدلیہ پر حکومت کی بالواسطہ گرفت، ججوں کی تقرری میں شفافیت کی کمی اور بنیادی انسانی حقوق سے متعلق مقدمات میں تاخیر جیسے مسائل کا حل تلاش کرنا نئے چیف جسٹس کے سامنے ایک کٹھن امتحان ہوگا۔
جسٹس گوائی اگر واقعی ڈاکٹر امبیڈکر کی فکر کے پیروکار ہیں تو پھر انہیں مساوات کے نظریے کو صرف خطبوں میں نہیں بلکہ عملی عدالتی اصلاحات میں ڈھالنا ہوگا۔ ان کے دور میں اگر عدلیہ محروموں، اقلیتوں، خواتین، دلتوں اور کمزور طبقات کے حقوق کی نگہبان بن سکے تو یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ تصور کیا جائے گا۔
آج بھارت کو ایک ایسی عدلیہ کی ضرورت ہے جو صرف طاقتوروں کی وکیل نہ ہو، بلکہ عام شہری کے آئینی حق کی محافظ ہو۔ جو صرف آئینی تشریحات نہ کرے بلکہ آئینی روح کو زندہ رکھے۔ جس میں کسی کی ذات، مذہب یا طبقہ انصاف کے معیار پر اثر انداز نہ ہو۔
عدلیہ سے عوام کی امیدیں اسی وقت پوری ہوں گی جب وہ طاقت کے بجائے اصول کی تابع ہو، جب وہ حکومت کے اشاروں پر نہیں بلکہ آئین کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرے اور جب وہ محض مقدمات کے فیصلے نہیں بلکہ سماجی انصاف کی بنیاد فراہم کرے۔
چیف جسٹس بی آر گوائی کے سامنے ایک تاریخی موقع ہے کہ وہ عدلیہ کو اس کی اصلی شان و شوکت واپس دلائیں، اس کو عوام کا اعتماد واپس دلائیں اور عدلیہ کو واقعی ایک آئینی ادارہ بنائیں، نہ کہ کسی بھی حکومت کا غیر معلنہ بازو!