
بھارت اور پاکستان کے درمیان چار دنوں تک جاری رہنے والی فوجی جھڑپوں کے بعد ہونے والی جنگ بندی اور امن کی جانب پیش قدمی یقیناً ایک خوش آئند اور قابلِ ستائش قدم ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن کی بحالی جنوبی ایشیا کے خطے میں استحکام اور ترقی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ کئی دہائیوں پر محیط کشیدگی نے نہ صرف دونوں ممالک کی معاشی ترقی کو متاثر کیا بلکہ عام شہریوں کو بھی نفسیاتی اور سماجی سطح پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس تناظر میں بھارت کے خارجہ سکریٹری کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان جنوبی ایشیا کی مجموعی ترقی کے لیے ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اس جنگ بندی میں امریکہ کے کردار اور اس موضوع پر بھارت کے موقف میں ہونے والی تبدیلی بھی تجزیے اور غور و فکر کا ایک اہم موضوع ہے۔ جنگ سے دونوں ممالک کو ہونے والے فائدے اور نقصانات، پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں بھارت کے دیرینہ موقف میں تبدیلی وغیرہ جیسے امور پر مستقبل میں تجزیات ہوتے رہیں گے۔ لیکن اس موقع پر ہم اس جنگ کے دوران سامنے آنے والی ایک تشویشناک صورت حال کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
پہلگام دہشت گرد حملے اور اس کے بعد بھارتی افواج کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کے دوران بھارتی معاشرے کی جانب سے غیر معمولی اتحاد اور یکجہتی دیکھنے کو ملی۔ مختلف سیاسی نظریات اور مذہبی عقائد رکھنے والے افراد نے مشکل حالات میں مل کر ملک کی سالمیت اور قومی مفاد کے لیے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہرہ بھارت کے اجتماعی شعور اور جمہوری روایات کا بھی عکاس تھا۔ تاہم اس اجتماعی مثبت رویے کے باوجود ملک میں کچھ ایسے شر پسند عناصر بھی تھے جنہوں نے ان حالات کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔
پہلگام حملے کے بعد جہاں پورے ملک میں دکھ اور غم کا ماحول تھا، وہیں نفرت کے سوداگروں نے اس سانحے کو بھی اپنے زہریلے ایجنڈے کو فروغ دینے کا ذریعہ بنا لیا۔ ایک فوجی جوان کی شہادت پر ان کی بیوہ ہیمانشی نروال نے انتہائی مثبت اور انصاف پسند موقف اختیار کیا جسے پورے ملک کے باشعور شہریوں نے سراہا۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس مثبت رویے کو بھی فرقہ پرست عناصر نے نشانہ بنایا اور انہیں بری طرح ٹرول کیا گیا۔ یہ رویہ اس حد تک قابل مذمت تھا کہ سماجی اقدار اور انسانی احترام کی بنیادی روایات بھی پامال ہوگئیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بھارت کے وزیر دفاع، جو اس معاملے میں واضح مؤقف اختیار کرکے نفرت پھیلانے والوں کو روک سکتے تھے، مکمل طور پر خاموش رہے۔ ان کی اس خاموشی نے نفرت بھرے ایجنڈے کو مزید تقویت فراہم کی۔
پاکستان کی جانب سے ہونے والی گولہ باری میں بھارت کے ایک معزز شہری اور ایک مسجد کے امام کی شہادت کو بھی نفرت کے سوداگروں نے نہ صرف فرقہ وارانہ رنگ دیا بلکہ انہیں دہشت گرد قرار دینے کی تک مذموم کوشش کی۔ ان کا مقصد واضح طور پر سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا اور ملک میں مذہبی منافرت کو ہوا دینا تھا۔ اس معاملے میں بھی بھارتی حکومت کے اعلیٰ حکام کی جانب سے کوئی وضاحت یا مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ یہ رویہ حکومت کی غیر جانب داری پر بھی سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔
اسی طرح جنگ بندی کا اعلان کرنے والے خارجہ سکریٹری اور ان کے خاندان کو بھی سماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فارموں پر نفرت کے سوداگروں نے بدترین قسم کی گالیوں اور تضحیک کا نشانہ بنایا۔ اس صورتحال میں بھارت کے وزیر خارجہ کی خاموشی بھی خاصی تشویش ناک ہے۔ اعلیٰ سطحی حکومتی عہدے داروں پر ایسے حملے ملک کے اداروں کی سالمیت کے لیے سنگین خطرات کا باعث ہیں۔ اس پر حکومت کی خاموشی ان نفرت انگیز کارروائیوں کو جائز قرار دینے کے مترادف سمجھی جائے گی۔
ایک اور قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جنگ کے دوران جہاں بھارتی افواج انتہائی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ملک کی حفاظت کر رہی تھیں وہیں ملک کے وزیر داخلہ کی غیر معمولی خاموشی اور غفلت کا رویہ بھی واضح طور پر محسوس کیا گیا۔ وزیر داخلہ کا منظر نامے سے غائب ہونا اور نفرت کے پرچار کو روکنے کے لیے کوئی موثر قدم نہ اٹھانا اس نفرت بھرے ایجنڈے کو مزید وسعت دینے کا سبب بنا۔
یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ بھارت پاک جنگ کے اس پورے منظر نامے نے بھارت کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک جانب بھارت کی مسلح افواج، سیاسی اپوزیشن جماعتیں، سِول سوسائٹی اور سماجی اتحاد کی قوتیں ہیں تو دوسری طرف نفرت کا علم بردار سنگھ پریوار اور اس کے حامی عناصر ہیں جو نفرت کی سیاست کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس تفریق سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی غلط نہ ہوگا کہ دہشت گردوں اور ہندتوا کے ایجنڈا بردار عناصر میں واضح مماثلت موجود ہے کیونکہ دونوں ہی ملک کے سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچانے اور فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کے لیے سرگرم نظر آتے ہیں۔
ملک کی سنجیدہ عوام اور دانشوروں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ان نفرت بھرے فرقہ وارانہ ایجنڈوں کو مسترد کرنے کے لیے عوام میں بیداری لائیں۔ عام شہریوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ وہ نفرت کے ان سوداگروں سے چوکنا رہیں کیونکہ ان کی گفتگو اور ان کا طرز عمل دونوں ہی چیزیں دہشت گردوں کے مقاصد کی تکمیل کرنے والے ہیں۔ ان غیر سماجی عناصر سے ملک کو بچانا اجتماعی قومی فریضہ ہے۔ اس سلسلے میں سِول سوسائٹی کو بھی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں امن، سماجی ہم آہنگی اور حقیقی جمہوری روایات کو فروغ دیا جاسکے۔ بھارت کے ہر شہری کو اس نفرت کے ایجنڈے کے خلاف متحد ہونا ہوگا تاکہ ملک کی سالمیت، استحکام اور ترقی یقینی بنائی جاسکے۔