
22 اپریل 2025 کو جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام کی بیسارن گھاٹی میں ہونے والے اندوہناک واقعے نے پورے ملک کو غم و غصے میں مبتلا کر دیاتھا۔ عوامی حلقوں میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور پاکستان سے بدلہ لینے کے مطالبات زور پکڑنے لگے۔ میڈیا میں بھی جنگی جنون پوری شدّت کے ساتھ ابھارا جانے لگا، جذباتی نعرے اور انتقامی بیانیہ ماحول پر حاوی نظر آیا۔ سیاسی طور پر بھی سخت ردعمل دیکھنے میں آیا؛ حکم راں جماعت نے فوری سخت اقدام کا عزم ظاہر کیا اور حزبِ اختلاف نے غیر معمولی طور پر حکومت کو یقین دلایا کہ وہ ہر جارحانہ اقدام میں اس کے ساتھ ہے۔ کانگریس پارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے کہا کہ “پہلگام حملے کے خلاف حکومت جو بھی فیصلہ کن قدم اٹھائے گی، کانگریس اس کا پورا ساتھ دے گی” ۔ یعنی انتقام اور جنگ کے حق میں ایک عمومی فضا بن گئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی عہد کیا کہ اس حملے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور سخت سزا دی جائے گی۔ ان بیانات اور عوامی جذبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلگام سانحے کے بعد ملک میں جنگی جنون خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
اس پورے ہنگامے کے دوران بھی ملک کے سنجیدہ اور امن پسند طبقات کی جانب سے اس جنگی جنون کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی ہند اور دیگر مذہبی و سماجی تنظیموں نے ایک طرف تو اس حملے کی سخت مذمت کی اور واضح کیا کہ انتقامی جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت حسینی نے کہا کہ یہ جنگ ہمارے لیے بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ ہم اس وقت آگے بڑھ رہے ہیں اور اس موقع پر جنگ سے ملک کی ترقی ہی رُک جائے گی۔ دیگر امن پسند حلقوں اور بائیں بازو جماعتوں نے بھی مختلف مظاہروں کے ذریعہ جنگ کی مخالفت کی اور حکومت سے تحمل اور ہوش مندی برتنے کا مطالبہ کیا۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ بدلہ لینے کے جوش میں انصاف اور عقلی حکمت عملی کو پسِ پشت نہیں ڈالنا چاہیے۔
اگرچہ حکومت نے پہلگام حملے کے بعد طاقت کا مظاہرہ کرنے والی پالیسی کو ترجیح دی۔ الزام فوراً پاکستان پر عائد کر دیا گیا اور بدلہ لینے کے اقدامات کا اعلان ہونے لگا۔ کابینہ کی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلاسوں میں عسکری کارروائی کے منصوبے زیر غور آنے لگے اور روسی ساختہ میزائل سرحدکے اگلے مورچوں پر منتقل کیے جانے کی خبریں بھی موصول ہوئیں۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس طرز عمل میں انصاف کے تقاضے پسِ پشت رہ گئے ہیں۔ اصولاً پہلے غیر جانب دارانہ تحقیقات ہونی چاہیے اور پھر قصورواروں کو سزا ملنی چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس حکومت کے رویے سے معاملے کی غیر جانب دار جانچ متاثر ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن کے کچھ رہنماؤں اور سماجی کارکنوں نے حکومت کی حکمت عملی پر تنقید کی ہے کہ وہ اپنی انٹیلیجنس کی ناکامی اور سیکیورٹی میں کوتاہیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے جنگی جنون کو ہوا دے رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنے بڑے حملے کا ہو جانا سیکیورٹی اور انٹیلیجنس کی خامیوں کی نشان دہی کرتا ہے، جن پر جواب دہی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن اس کے بجائے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے درجنوں کشمیریوں کے گھروں کو بلڈوزروں سے گرانے جیسی کارروائیاں کی گئیں اور ہزاروں مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا، جن میں بے گناہوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ناقدین کے مطابق بغیر ثبوت کے گھروں کو مسمار کرنا اور اجتماعی سزا جیسے اقدامات انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں اور ملک میں قانون کی حکم رانی کو کمزور کرتے ہیں۔ جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ حکومت فوری طاقت کے استعمال کو ترجیح دے کر عوامی غصے کو ٹھنڈا تو کرنا چاہتی ہے مگر اس دوران قانونی تقاضوں، انسانی حقوق اور انصاف کے اصولوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔
اس تناظر میں یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ بھارت کو اس وقت جس طرح کی معاشی صورتحال کا سامنا ہے اس میں جنگ چھیڑنا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ قیمتی انسانی جانوں کے ناقابلِ تلافی نقصان کے علاوہ معاشی محاذ پر بھی اس کے بھیانک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ دونوں ہی ممالک ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں، اس لیے ہر ذی شعور مبصر اس امکان سے خائف ہے کہ جنگ بڑھ کر کہیں جوہری تصادم تک نہ پہنچ جائے۔
اقتصادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جنگ کی صورت میں دونوں ملکوں کو شدید مالی دھکا لگے گا۔ ماضی کے تجربات سامنے ہیں: 1999 کی کارگل جنگ محدود ہونے کے باوجود چند ہی دنوں میں بھارت اور پاکستان کی اسٹاک مارکیٹیں زمین بوس ہو گئی تھیں۔اسی طرح 2019 کے پلوامہ بحران کے دوران صرف ایک ہفتے کی کشیدگی سے دونوں ملکوں کے سرمایہ بازار میں مجموعی طور پر 12 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔ آج کے دور میں اگر خدانخواستہ ایک بڑی جنگ چھڑتی ہے تو نتائج کئی گنا زیادہ مہلک ہوں گے۔ بھارت جیسی بڑی معیشت بھی جنگ کی صورت میں شدید بیرونی سرمائے کے اخراج، روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ جیسے مسائل سے دوچار ہوگی۔ تیل کی قیمتیں بڑھنے اور تجارتی بندشوں سے دونوں ممالک میں عام آدمی کی زندگی پر براہِ راست منفی اثر پڑے گا۔ یاد رہے کہ عوام پہلے ہی سے مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کی مار جھیل رہے ہیں، جنگ ان مسائل کو کئی گنا بڑھا دے گی اور لاکھوں لوگ غربت کے دلدل میں مزید دھنس جائیں گے۔ان حقائق کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک ایسی تباہی ہوگی جس سے سنبھلنے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔چنانچہ موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں جنگ چھیڑنا خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ سمجھداری کا تقاضا یہی ہے کہ انتہا پسندانہ نعروں کے بجائے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا جائے اور ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جن کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے۔
یقیناً دہشت گردی جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنا بہت ضروری ہے لیکن اس کے لیے جنگ کے علاوہ بھی مختلف راستے موجود ہیں جن پر غور کیا جانا چاہیے۔ محض فوج لے کر چڑھائی کر دینا مسئلے کا مستقل حل نہیں ہوسکتا۔ ہر دہشت گرد حملے کے بعد جذبات کے بجائے ٹھوس شواہد اور تحقیقات پر انحصار کیا جائے۔ اس کیس میں بھی بین الاقوامی یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل سے حقائق سامنے لائے جا سکتے ہیں۔اگر واقعی اس حملے میں بیرونی عناصر ملوث ہیں تو ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ انہیں عالمی برادری کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ مجرم بے نقاب ہوں اور انہیں سزا دلائی جا سکے، یہی انصاف کا تقاضا ہے ۔
دہشت گرد عموماً یہ چاہتے ہیں کہ ان کے حملوں کے بعد سماج میں خوف، انتشار اور فرقہ وارانہ نفرت پھیلے۔ ہمیں ان کے اس منصوبے کو ناکام بنانا ہوگا۔ پہلگام حملے کے بعد جس طرح ملک کے مختلف حصوں میں کشمیریوں اور مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور کچھ مقامات پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، وہ انتہائی غلط اور تشویشناک ہے۔ ایسی کارروائیاں دشمن کے ہاتھ مضبوط کرتی ہیں کیونکہ اس سے ہمارے اپنے سماج میں تقسیم بڑھتی ہے۔ لہٰذا حکومت اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ اندرونی اتحاد کو برقرار رکھیں، قانون اپنے ہاتھ میں لینے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی ہو تاکہ انصاف کا بول بالا ہو۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف سرحد پر نہیں بلکہ ملک کے اندر عدل و انصاف کی حکم رانی قائم کر کے لڑی جانی چاہیے۔ اگر ہر شہری خود کو محفوظ اور مساوی حقوق کا حامل سمجھے گا تو دہشت گرد اپنے مقصد میں ناکام رہیں گے۔
کشمیر کا تنازع دہائیوں سے دہشت گردی کو ہوا دینے کا ایک بڑا سبب رہا ہے۔ جب تک کشمیری عوام کے سیاسی حقوق اور مطالبات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا، بیرونی طاقتوں کو وہاں مداخلت کا موقع ملتا رہے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر میں حقیقی سیاسی عمل کو بحال کیا جائے، عوامی نمائندوں کو با اختیار بنایا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہر قسم کی مقامی قیادت سے بات چیت کا راستہ کھولے تاکہ مایوسی اور محرومی کا ازالہ ہو۔ جب کشمیر میں حالات بہتر ہوں گے اور عوام کا اعتماد بحال ہوگا تو بیرونی شدت پسند عناصر کو پنپنے کے لیے جگہ نہیں ملے گی۔
ان نکات کی روشنی میں ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ پہلگام جیسے المناک واقعات پر فوری جذباتی ردعمل میں جنگ کی طرف لپک جانا دانشمندی نہیں ہے۔ جنگ نہ صرف مزید جانیں لے گی بلکہ وہ مقاصد بھی پورے نہیں کرے گی جس کا نعرہ لگا کر شروع کی جاتی ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ میدانِ جنگ کے بجائے بہتر حکمت عملی، عالمی تعاون اور داخلی اتحاد سے ممکن ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ طاقت اور انتقام کے نعروں سے اوپر اٹھ کر ٹھنڈے دل سے صورتحال کا جائزہ لے۔ جوش کے ساتھ ہوش سے کام لینا ہی مہذب ریاست کا شیوہ ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور بے گناہوں کو مزید ظلم کا نشانہ نہ بننے دیا جائے۔ داخلی طور پر قانون کی حکم رانی اور اتحاد کو فروغ دے کر دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنائے جا سکتے ہیں۔ کلیدی نکتہ یہی ہے کہ جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے – اس کے بجائے امن، انصاف اور دانشمندی کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کرنا ہی واحد راستہ ہے جس میں قوم کی بھلائی اور مستقبل کا استحکام مضمر ہے۔