اداریہ

:پہلگام میں دہشت گرد حملہ انسانیت پر وار اور بھارتی سماج کی قابل تحسین یکجہتی

پہلگام کی دلکش وادی بیسیران میں ہونے والا حالیہ دہشت گرد حملہ انتہائی افسوس ناک اور انسانیت سوز ہے، جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ اس بزدلانہ کارروائی میں کم و بیش 26 نہتے اور معصوم انسانوں کی جانیں گئیں جو سیاحت کی غرض سے جنت ارضی کشمیر کی سیر کرنے کے لیے اپنے افراد خاندان کے ساتھ وہاں گئے تھے۔ ہم ان مہلوکین کے افراد خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور مرکزی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس حملے کے ذمہ دار عناصر کو فوری طور پر بے نقاب کر کے سخت ترین سزا دے تاکہ آئندہ ایسی غیر انسانی حرکتوں کی حوصلہ شکنی ہو۔
تاہم، اس دلخراش واقعے کے درمیان انسانی اقدار کی شاندار مثالیں بھی دیکھنے کو ملیں۔ کشمیری مسلمانوں نے حملے میں متاثر ہونے والوں کی بھرپور مدد اور ان کی مہمان نوازی کرکے دنیا کو یہ واضح پیغام دیا کہ کشمیریت اور انسانیت کا جذبہ زندہ و تابندہ ہے۔ اس ہمدردانہ رویے نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ دہشت گردی اور نفرت کے ایجنڈے کے باوجود کشمیریت جیت گئی اور اس نے انسانیت کی نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سیاحت کے مرکز پر ہونے والے اس حملے نے کشمیر کی معیشت اور عوام کے روزگار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کشمیر میں حالیہ برسوں میں سیاحت کے شعبے میں قابل قدر اضافہ ہوا تھا۔ یہ حملہ عین اس مقام پر ہوا جو کشمیر کی سیاحت کا مرکز بن رہا تھا۔ اس سے سب سے بڑا نقصان کشمیری عوام کا ہوا ہے جن کی معیشت صرف سیاحت پر منحصر ہے۔ یہ حملہ یقینی طور پر کشمیر میں سیاحت کے شعبے کو متاثر کرے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس حملے سے فائدہ کس کو ہوا؟ اس واقعہ کو معاشی اور سیاسی مفادات کے پس منظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے۔ کشمیر میں عدم استحکام پیدا کر کے سیاسی فوائد حاصل کرنے کا رجحان نیا نہیں ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی بارہا اس صورت حال کا مشاہدہ کیا ہے۔
اس افسوسناک واقعے کے پس منظر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس حملے کو روکنے میں حکومت کیوں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی؟ سیکیورٹی انتظامات میں واضح خامیاں موجود تھیں جن کی وجہ سے حملہ آور آسانی سے وادی کے اندر داخل ہوئے اپنا ہدف حاصل کیا اور نکل گئے۔ ایسے سنگین سیکیورٹی نقائص کا پایا جانا حکومت کی کارکردگی اور انتظامی صلاحیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس واقعے کی فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے ذمہ دار عہدیداروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور عوام کے سامنے واضح کیا جائے کہ حکومت اس ناکامی پر کس طرح جواب دہ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے اس کے وزراء ادھر ادھر کی باتوں سے عوام کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں۔ ایک مرکزی وزیر نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ملک کے چالیس کروڑ عوام جب تک راشٹر واد اور دیش بھکتی کو اختیار نہیں کریں گے اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں انتخابات کے بعد اسمبلی ضرور قائم ہوئی ہے لیکن اب تک اسے مکمل ریاست کا درجہ نہیں دیا گیا اور بالخصوص پولیس اور نظم و قانون لیفٹننٹ گورنر کے توسط سے مرکزی حکومت ہی کے ہاتھوں میں ہے۔
دوسری جانب اس حملے کے تناظر میں ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا بنانے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں، جبکہ حکومت ان منفی کوششوں کے خلاف کوئی واضح موقف اختیار کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ اس نفرت انگیز ماحول کے باوجود ملک کے مختلف حصوں میں ایسے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں جو سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔ اس حملے کے فوری بعد کشمیر میں دیکھے گئے بعض اعلیٰ انسانی رویے اس کی واضح مثال ہیں۔ دراصل ایسے ہی انصاف پسند شہری بھارت کی اصل روح کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اسی ضمن میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا یہ فیصلہ بھی قابل تعریف ہے کہ اس نے کشمیر میں دہشت گردی کے اس واقعے کے پیش نظر وقف ایکٹ کے خلاف اپنی مہم ملتوی کر دی ہے۔ ایسے مثبت اقدام سماج کے اندر اتحاد اور استحکام کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مزید برآں، آسام میں پہلگام واقعے کے نام پر اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر لکھے گئے تبصروں کو بنیاد بنا کر جو گرفتاریاں ہو رہی ہیں، انہوں نے حکومت کے دُہرے رویے کو بے نقاب کیا ہے۔ ایک جانب کچھ لوگ کھل کر ملک کے مسلمانوں کے خلاف بد زبانی اور نفرت بھرے پروپیگنڈے میں مصروف ہونے کے باوجود ہر قسم کی کارروائی سے بے پروا آزاد گھوم رہے ہیں اور دوسری جانب محض سوشل میڈیا پر کچھ لکھ دینے پر ہی لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے اور ان پر نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کی دفعات عائد کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ یہ گرفتاریاں انصاف کے تقاضوں کے بالکل منافی ہیں اور ان میں سیاسی انتقام کی بُو آتی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں ایک جیسے واقعات پیش آنے کے باوجود حکومت کا یکساں رویہ نہ اپنانا اس کے منصفانہ کردار پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ ریاستی حکومتوں کی اس یک طرفہ کارروائی کی زد میں ملک کی اقلیتیں آرہی ہیں۔ لیکن ہمارے نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر ملک مخالف یا انسانیت مخالف کسی بھی طرح کے پیغامات اور ویڈیوز پوسٹ کرنے سے ہر حال میں گریز کرنا چاہیے، چاہے نفرتی بریگیڈ جذبات میں اشتعال پیدا کرنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر رہا ہو۔ نفرت کو شکست محبت کی زبان سے ہی دی جا سکتی ہے۔
آخر میں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کی سلامتی اور سماج کا اتحاد صرف حکومتی اقدامات سے ہی ممکن نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ہر شہری کو اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اس موقع پر کہا ہے کہ "اگرچہ عدم تشدد ہمارا مذہب ہے لیکن غنڈہ گردی کرنے والوں کو سبق سکھانا بھی ہمارا مذہب ہے” حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کی حفاظت کو یقینی بنائے اور نفرت و تشدد کی ہر کوشش کو ناکام بنائے۔