اداریہ

جماعت اسلامی ہند کی حالیہ قراردادیں اور درپیش چیلنجز

جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان نے اپنے حالیہ اجلاس (12 تا 15 اپریل 2025، نئی دہلی) میں جو قراردادیں منظور کی ہیں، وہ بھارت کی موجودہ سماجی، سیاسی اور عالمی صورتِ حال کے تناظر میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انصاف پسند حلقوں کی ترجمانی کرتی ہیں۔ اِن قراردادوں میں جن بنیادی نکات پر زور دیا گیا ہے، وہ ملک میں موجودہ حالات کے تعلق سے نہایت فکر انگیز ہیں۔
مجلس نمائندگان نے ’’وقف ترمیمی قانون 2025‘‘ کے متعلق جن تشویشات کا اظہار کیا ہے، وہ قطعی بے بنیاد نہیں ہیں۔ یہ قانون محض انتظامی نوعیت کی کوئی ترمیم نہیں بلکہ مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق پر براہِ راست حملہ ہے۔ وقف املاک کی حفاظت کا معاملہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے صرف مالی یا معاشی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک مذہبی ذمہ داری ہے۔ اس قانون کے ذریعے حکومت کا اپنی مرضی سے مقرر کردہ افسر جج اور حَکم کے کردار میں سامنے آئے گا جس کے نتیجے میں وقف کی جائیدادوں کے معاملے میں غیر منصفانہ فیصلے اور قبضوں کی راہیں ہموار ہوں گی۔جماعت اسلامی ہند نے درست طور پر توجہ دلائی ہے کہ آئینِ ہند کی دفعہ 26 مسلمانوں سمیت تمام مذہبی طبقات کو اپنے ادارے قائم کرنے، چلانے اور انتظام کرنے کا حق دیتی ہے۔ اس کے باوجود غیر مسلم افسروں کو وقف اداروں میں شامل کرنا دراصل مسلمانوں کے مذہبی حقوق پر ضرب لگانا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ، جماعت اسلامی ہند اور دیگر مسلم تنظیموں کی تشویشات کو نظر انداز کرکے اس قانون کو نافذ کرنا دراصل جمہوریت اور آئینی اقدار کی نفی ہے۔ حکومت کو اس قانون پر فوری نظر ثانی اور منسوخی کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
دوسری اہم قرارداد فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے تعلق سے ہے۔ غزہ میں اسرائیلی فوج کی حالیہ ظالمانہ کارروائیوں سے ہزاروں فلسطینی معصوم شہری شہید اور لاکھوں زخمی ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند نے عالمی برادری سے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے اور فلسطین کی آزادی کی حمایت میں مؤثر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل حمایت اور دوہرے معیار کی بھی بجا طور پر مذمت کی گئی ہے۔فلسطین کا مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ عالمی انسانی مسئلہ ہے۔ ہندوستان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تاریخی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے فلسطینی عوام کی حمایت کرے اور اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی فورموں پر مضبوط موقف اپنائے۔ مسلمان ممالک کی ذمہ داری اور کردار پر بھی قرارداد میں واضح سوال اٹھایا گیا ہے، جو بجا طور پر امت مسلمہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
تیسری قرارداد عالمی ٹیرف پالیسیوں کے تناظر میں پیش کی گئی ہے۔ امریکہ اور دیگر بڑی معیشتوں کے درمیان حالیہ معاشی تنازعات سے دنیا میں ایک تجارتی بحران پیدا ہوا ہے۔ اس بحران میں ترقی پذیر ممالک خصوصاً بھارت شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومتِ ہند عالمی معیشت پر امریکہ کے غلبے کو کم کرنے کے لیے متبادل تجارتی شراکت داریوں پر غور کرے۔ معاشی انصاف، خود کفالت اور چھوٹے و درمیانی کاروباروں کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے جماعت اسلامی ہند نے معیشت کو انسان دوست بنانے کی تلقین کی ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ عالمی تجارت کے بحران میں بڑے سرمایہ دار اور طاقتور ممالک کے مفادات کی جنگ میں عام آدمی ہی پِستا ہے۔ بھارت کے پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹے کاروباروں، کسانوں اور غریب طبقات کو تحفظ دیں اور ایسی پالیسیاں تشکیل دیں جو حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی ہوں۔
ملک میں فرقہ پرستی، نفرت انگیزی اور اخلاقی گراوٹ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مجلس نمائندگان نے ان مسائل کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں، دلتوں اور کمزور طبقات کے خلاف جاری نفرت انگیز مہمات، بلڈوزر کے ذریعے مکانات کا انہدام، مساجد اور مدارس پر حملے ایک سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں۔ یہ رجحانات ملک کے آئینی، سماجی اور اخلاقی ڈھانچے کو تباہ کر رہے ہیں۔حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے اور کسی خاص طبقے کے خلاف تفریق یا جانب دارانہ سلوک سے گریز کرے۔ مسلمانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمت، صبر اور قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے فعال ہوں۔
ملک کی معاشی صورت حال پر بھی جماعت نے درست سوال اٹھایا ہے۔ معاشی ترقی کے نام پر صرف مخصوص سرمایہ دار طبقوں کو فائدہ پہنچانا اور غریب عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانا سراسر ظلم ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے بجا طور پر مطالبہ کیا ہے کہ حکومت معیشت کو عوام دوست اور فلاحی بنائے، سماجی خدمات پر بجٹ میں اضافہ کرے اور زراعت و چھوٹے کاروباروں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
یونیفارم سِول کوڈ کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کو جماعت اسلامی ہند نے اپنی قرارداد میں واضح طور پر مسترد کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کے تنوع کے پیش نظر قانونی تکثیریت ایک لازمی ضرورت ہے۔ محض مسلمانوں کے ذاتی قوانین کو نشانہ بنا کر اکثریتی قانون کو ان پر مسلط کرنا آئینی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی قانون سازی سے اجتناب کرے جو سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچائے۔
جماعت اسلامی ہند کی یہ قراردادیں بھارت کے عوام اور مسلمانوں کے مسائل کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی جمہوری، سماجی، معاشی اور اخلاقی صورت حال کی بہتری کے لیے ایک مؤثر دستاویز ہیں۔ یہ قراردادیں حکومت اور معاشرے دونوں کے لیے فکر انگیز ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان قراردادوں کو سنجیدگی سے لے اور ملک کے عوام کی بہتری اور ملک کی سالمیت کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند نے جس حکمت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔