
گزشتہ دنوں مرکزی حکومت نے جو متنازعہ وقف ایکٹ منظور کیا ہے وہ پورے ملک میں ایک اضطراب کا باعث بن چکا ہے۔ ان ترامیم کو مسلمانان ہند کے آئینی حقوق بالخصوص مذہبی آزادی اور اپنی املاک کے انتظام کے حق پر حملہ سمجھا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ میں اسے "اقلیت مخالف” اور آئینی تقاضوں کے منافی قانون قرار دیا تھا۔ یہ متنازعہ قانون لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں شدید بحث کے بعد تھوڑی سی اکثریت کے ساتھ منظور ہوا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون سازی کے دوران بھی اس پر گہرے اختلافات موجود تھے۔ غرض یہ کہ وقف قانون کی ان ترامیم کی نوعیت سخت متنازعہ ہے: حکومت انہیں وقف اصلاحات کہتی ہے تو مخالفین انہیں اقلیتی حقوق سلب کرنے کا ذریعہ گردانتے ہیں۔
ان ترامیم کے خلاف ملک بھر میں مسلمانان ہند اور متعلقہ حلقوں کی جانب سے شدید ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ قانون کی منظوری کے بعد سے لے کر اب تک ملک کے کئی حصوں میں احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور اجتماعات منعقد ہوئے ہیں۔ دہلی اور کولکاتا سے عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی تک اور بنگال، راجستھان، کیرالا، اتر پردیش، تریپورہ جیسے صوبوں کی گلی کوچوں تک آوازیں بلند ہوئیں۔ لاکھوں افراد نے پُرامن مارچ اور دھرنوں کے ذریعے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ کیرالا کے ضلع تھریسور میں ایک عظیم الشان مظاہرے میں شرکاء نے وفاقی حکومت سے وقف (ترمیمی) ایکٹ منسوخ کرنے کی مانگ کی۔ شمال مشرقی ریاستوں، جیسے تریپورہ اور جنوبی ہند میں بھی مسلم کمیونٹی نے بینرز اور قومی پرچم اٹھا کر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ کئی مقامات پر خواتین، طلبہ اور سماجی کارکنان بھی ان مظاہروں میں پیش پیش رہے۔منی پور میں بھی پچھلے کئی دنوں سے لگاتار قابل اعتراض وقف قانون کے خلاف عوام اور عوامی نمائندے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ حکمراں بی جے پی کے اقلیتی مورچے کے ذریعے اس متنازعہ قانون کی حمایت میں پوسٹ کرنے پر اس کے مکان کو نذر آتش کردیا گیا تھا۔
بدقسمتی سے بعض جگہ یہ احتجاج تشدد کا رخ اختیار کر گئے۔ ریاست مغربی بنگال کے ضلع مرشدآباد میں پُرامن مظاہروں کے دوران حالات بگڑنے سے فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئیں جن کے نتیجے میں کم از کم 3 افراد جان سے گئے اور متعدد زخمی ہوئے۔ راجستھان میں بھی کچھ مقامات پر جھڑپوں کی خبریں آئیں۔ اتر پردیش جیسی ریاستوں میں کئی شہروں، مثلاً مظفر نگر وغیرہ میں احتجاج کرنے والوں کو پولیس کی جانب سے نوٹسیں جاری کی گئیں تاکہ بڑے مجمع کو روکا جا سکے۔ اس وسیع عوامی ردِ عمل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مسلمانانِ ہند کے لیے یہ معاملہ محض انتظامی قانون کا نہیں بلکہ اپنے مذہبی ورثے اور آئینی حقوق کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔
ان احتجاجات کے جواب میں حکومت اور اس کے حامی میڈیا نے اپنے مخصوص بیانیے تشکیل دیے ہیں۔ میڈیا میں کئی جگہ حکومت اور بی جے پی نواز حلقے احتجاج کو منفی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ کچھ آزاد اور سیکولر میڈیا ادارے اور تجزیہ نگار حکومت کے بیانیے کو چیلنج بھی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک معروف تبصرہ نگار نے ان ترامیم کو شفافیت کے لبادے میں "اکثریتی زعم کا اظہار اور اقلیت پر حکم رانی کی کوشش” قرار دیا۔ اپوزیشن رہنماؤں نے بھی میڈیا پر آ کر دو ٹوک کہا ہے کہ حکومت ہندو عوام میں یہ خوف پھیلا رہی ہے کہ اگر بل پاس نہ ہوا تو ان کی زمینیں وقف کے حوالے ہو جائیں گی، جس سے معاملے کو ہندو بمقابلہ مسلم بنا کر پیش کیا جا سکے۔ اس یک طرفہ بیانیے کا توڑ کرنے کے لیے مسلم قیادت اور سیکولر حلقے مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ اصل معاملہ – یعنی اقلیتی آئینی حقوق اور وقف کا تحفظ – عوام کے سامنے واضح رہے۔
ملکی سطح پر مسلم قیادت اور تنظیموں نے اس چیلنج کے مقابلے کے لیے منظم حکمت عملی بنانے کا آغاز کر دیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس سلسلے میں "وقف بچاؤ، دستور بچاؤ” کے عنوان سے دو ماہ پر مشتمل ملک گیر مہم شروع کی ہے۔ جس کا مقصد اس قانون کے مضمرات کو عوام کے سامنے واضح کرنا اور اس کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے۔ اس مہم میں قانونی لڑائی، عوامی دباؤ، سیاسی مذاکرات اور سماجی آگاہی سب شامل ہیں۔ "وقف بچاؤ-آئین بچاؤ” مہم اسی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا ہدف صرف یہ نہیں کہ اس قانون کو چیلنج کیا جائے بلکہ عوام میں اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کا شعور بھی اجاگر کیا جائے۔
اس تنازعے میں قانونی اور آئینی ماہرین کی رائے کو خاص اہمیت حاصل ہے، کیونکہ بالآخر یہ معاملہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں تک پہنچ چکا ہے۔ نامور آئینی ماہرین اور وکلاء نے اشارہ دیا ہے کہ وقف ایکٹ میں یکطرفہ ترمیم سے متعدد آئینی دفعات کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ انجمن تحفظ شہری حقوق (APCR) جیسی تنظیموں نے سپریم کورٹ میں رِٹ درخواست دائر کر کے ان ترامیم کو آئین کی دفعات 14 (برابری کا حق) 25 اور 26 (مذہبی آزادی اور اپنے مذہبی امور کے انتظام کا حق) اور 300A (حقِ ملکیت) کے منافی قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 7 اپریل 2025 کو ابتدائی سماعت میں ان درخواستوں کو غور کے لیے منظور کرتے ہوئے آئندہ تاریخ مقرر کی ہے۔
سیکولر اور انصاف پسند غیر مسلم طبقے کا کردار بھی اس معاملے میں قابلِ ذکر ہے۔کئی سیکولر رہنماؤں نے اپنا اصولی موقف پیش کیا ہے۔ تمل ناڈو، کیرالا اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں کی سیکولر حکومتوں نے اسمبلی قراردادوں کے ذریعے واضح کیا ہے کہ وہ اس قانون کو اپنے یہاں نافذ نہیں ہونے دیں گی۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیکولر اور انصاف پسند طبقے کو اپنے موقف کی حقانیت سے آگاہ کریں۔ ملک کے بہت سے ہندو شہری اور دیگر اقلیتیں اصولی طور پر ہر مذہب کے حقوق کے تحفظ کے حامی ہیں۔ اگر انہیں وقف قانون کی پیچیدگیاں اور اس کے اقلیتی حقوق پر اثرات سے آگاہ کیا جائے تو وہ بھی اس جدوجہد میں اتحادی بن سکتے ہیں۔ یہ کام ذمہ داری کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں اور مسئلہ کسی مخصوص کمیونٹی کا نہیں بلکہ ہندوستانی آئین اور سیکولرازم کا مشترکہ معاملہ بن کر سامنے آئے۔
اس سلسلے میں مسلمانوں کو مختلف عملی اقدامات اور حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ احتجاج کا جمہوری اور آئینی حق پوری قوت سے استعمال کریں مگر ہر حال میں پُرامن رہیں۔ مرشدآباد کے واقعے سے سبق لیتے ہوئے شر پسند عناصر کو اپنے احتجاج میں گھس کر تشدد پھیلانے کا موقع نہ دیں۔ عدم تشدد اور نظم و ضبط کے ساتھ مظاہرے کریں تاکہ آپ کا اخلاقی موقف مضبوط رہے۔
اپنی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور مقامی نمائندوں سے مل کر مطالبہ کریں کہ وہ وقف قانون کے خلاف آواز اٹھائیں۔ جو ریاستیں (جیسے مغربی بنگال، تمل ناڈو) اس پر موقف اختیار کر چکی ہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں اور دیگر ریاستوں میں دباؤ ڈالا جائے کہ وہ بھی ایسی قراردادیں منظور کریں جو مرکزی حکومت کو پیغام دیں۔ انصاف پسند غیر مسلم دانشوروں، سماجی کارکنوں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کو ساتھ جوڑیں۔ ان کے ساتھ مکالمہ کر کے انہیں اپنے خدشات بتائیں اور ان کی حمایت حاصل کریں۔ بین المذاہب اتحاد کے پروگرام منعقد کریں جن میں دوسرے مذاہب کے رہنما بھی اس قانون پر اپنی مخالفت درج کرائیں۔ اس سے حکومت پر اخلاقی دباؤ بڑھے گا کہ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر بھارتی آئین کا معاملہ ہے۔
اس تمام صورت حال نے مسلمانوں کو ایک آزمائش میں ضرور ڈال دیا ہے مگر یہ ایک موقع بھی ہے کہ ہم دستوری حقوق کی پاسبانی کے لیے متحد اور سرگرم ہوں۔ مثبت سوچ اور بیداری کے ساتھ اگر ہم اپنا لائحہ عمل جاری رکھیں گے تو نہ صرف وقف املاک کا تحفظ ممکن ہوگا بلکہ ملک کے آئین کی روح بھی برقرار رہے گی۔ یہ لڑائی صرف وقف کی نہیں بلکہ ہندوستان کی جمہوری اور سیکولر اقدار کی لڑائی ہے – اور اس میں کامیابی کا راز اتحاد، صبر اور حکمت کے ساتھ جدوجہد کرنے میں پنہاں ہے۔