
وقف املاک اور وقف قوانین ہمیشہ سے مسلمانانِ ہند کی معاشرتی، قانونی اور مذہبی شناخت میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ وقف کسی بھی مذہبی یا فلاحی مقصد کے لیے مختص جائیداد کا وہ انتظامی ڈھانچہ ہے، جس کے ذریعے اہلِ اسلام اپنی اجتماعی زندگی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرتے ہیں۔مسجدوں، قبرستانوں، درگاہوں اور دیگر اوقافی جائیدادوں پر مشتمل یہ نظام، صرف کرایہ کے لیے نہیں ہے بلکہ بے شمار چھوٹے چھوٹے اداروں کے ذریعے بھی ملت کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ بعض لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ وقف صرف بڑی جائیدادوں کا نام ہے، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی وقف قانون میں ترمیم کی بات اُٹھتی ہے، عوامی سطح پر شدید ردِّ عمل دیکھنے میں آتا ہے۔ آج کل حکومتِ وقت کی جانب سے منظور کردہ وقف ترمیمی قانون نے اسی جذباتی منظر نامے کو پھر سے بھڑکا دیا ہے۔
اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ حکومت وقت نے موجودہ ترمیم کے ذریعے نہ صرف وقف کے لیے مخصوص دینی و فلاحی مقاصد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے بلکہ مسلمانوں کے آئینی حقوق پر بھی سنگین ضرب لگائی ہے۔ ہندوستان کا آئین مذہبی آزادی اور اقلیتی اداروں کے انتظام کا جو حق دیتا ہے، یہ قانون اس کے بالکل برعکس ہے۔ حکومت بڑی ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ ترمیم وقف کے نظام میں شفافیت لائے گی، مگر شفافیت تو دور کی بات، اس قانون میں ایسی کئی مبہم شقیں موجود ہیں جو سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کو ایسی غیر معمولی اختیارات فراہم کرتی ہیں کہ مسلمانوں کی مساجد، قبرستانوں اور درگاہوں سمیت تمام اوقاف بالآخر سرکاری بابوؤں کے رحم و کرم پر آجائیں گے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کرپشن اور بد انتظامی کے خاتمے کے لیے ماضی میں متعدد تجاویز سامنے آتی رہی ہیں۔ سابقہ یو پی اے دورِ حکومت میں وقف جے پی سی (Joint Parliamentary Committee) کا قیام ہوا، جس کی سفارشات کی روشنی میں 1995 کے وقف ایکٹ میں 2013 میں اہم اور قابل قدر ترامیم کی گئیں۔ اس وقت نہ صرف کانگریس بلکہ بی جے پی سمیت تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے ان اصلاحات کی پُرزور تائید کی تھی۔ بی جے پی کے اپنے منشور میں یہ وعدہ صراحت کے ساتھ درج تھا کہ وہ وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضے اور تجاوزات کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گی۔ لیکن آج یہی بی جے پی اقتدار میں آکر 2013 کی اِن مثبت ترمیمات کو مکمل طور پر سردخانے کی نذر کرکے ایک نئے کرپشن اور مسلمانوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کا کام کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی نیت واقعی صاف نہیں۔ اگر وہ واقعتاً وقف کے انتظام میں بہتری اور کرپشن کی روک تھام چاہتی تو 2013 کی ترمیمات کو عملی جامہ پہناتی اور مزید اصلاحات لاتی۔ مگر ایسا کرنے کے بجائے الٹا ایک نیا قانون منظور کروایا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کو وقف کی اصلاح سے زیادہ اس پر اپنا تسلّط جمانے کی جلدی ہے ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت وقف جائیدادوں کی بڑی مالیت پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ سیاسی مفادات کے لیے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے اس نے اقلیتی اداروں کے انتظام میں مداخلت کا منصوبہ بنایا ہے۔ وقف بورڈ پر کنٹرول بڑھانے اور اقلیتوں کی نمائندگی کم کرنے کا اصل مقصد بھی یہی دکھائی دیتا ہے کہ سرکاری افسروں اور سیاسی شخصیات کو اندھا دھند اختیارات دے دیے جائیں۔ لیکن اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ یقیناً بدعنوانی مزید بڑھے گی، بد انتظامی کا دور دورہ ہوگا اور مذہبی آزادی پر کاری ضرب لگے گی۔
ہمارے ہاں عام طور پر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ساری توجہ صرف بڑی جائیدادوں کی مبیّنہ کرپشن پر مرکوز ہے، حالانکہ وقف کا ایک بڑا حصہ مساجد، قبرستانوں اور دیگر چھوٹی مگر انتہائی اہم املاک پر مشتمل ہے۔ ان اوقاف کے بارے میں متولیان اور مقامی سطح کے ذمہ داران عموماً بہتر انتظام ہی کرتے آرہے ہیں۔ اس کے باوجود ایک عمومی بدنامی کی فضا بنائی جارہی ہے تاکہ حکومت اپنی "خدمت گزاری” کے نام پر پورا نظام اپنے ہاتھ میں کرلے۔
اس وقت شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت کی جماعتیں اور دینی قیادتیں مل کر اس خطرناک قانون کے خلاف آواز بلند کریں۔ اس قانون کو منسوخ کروانے کی ممکنہ کوشش کی جائے تاکہ مستقبل میں اگر اصلاحات کی گنجائش ہو تو وہ 2013 کی ترمیمات کے تسلسل میں ہواور وقف کے نظام کو واقعی شفافیت اور احتساب کے دائرے میں لایا جاسکے۔ اگر آج ملت نے خاموشی اختیار کرلی یا بے جا اختلافات میں الجھ کر اس معاملے کو حکومتی ظلم کی بھینٹ چڑھنے دیا تو آنے والے دنوں میں نہ صرف بڑی جائیدادیں بلکہ عام مساجد، قبرستانیں اور درگاہیں تک مفاد پرست سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ جائیں گی۔
یہ موقع ہے کہ پُرامن مگر مضبوط اور مؤثر احتجاجات کیے جائیں، عدلیہ کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں،مختلف ریاستی حکومتوں کے ساتھ بات کی جائے اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی ریاستوں میں موجود اوقاف کی جائیدادوں کو اس قانون کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔
ضروری ہے کہ تمام مسالک، جماعتیں اور ماہرینِ قانون مشترکہ بیانیے اور متفقہ مطالبات کے ساتھ سامنے آئیں۔ ایک وسیع البنیاد پلیٹ فارم ہی حکومت کے سامنے مضبوط آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔شریعت، وقف قوانین اور آئینی امور کے ماہرین پر مشتمل ایک کونسل تشکیل دی جائے جو عوام کو موجودہ ترمیم کے نقائص، شرعی و آئینی تحفظات اور متبادل تجاویز سے آگاہ کرے۔ یہ کونسل میڈیا، عدالتوں اور حکومتی مذاکرات میں بھی مہارت کے ساتھ رہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔
ایک مشترکہ کمیٹی یا ٹاسک فورس بنائی جائے جو نہ صرف حکومت بلکہ اپوزیشن، عدلیہ اور سِول سوسائٹی کے ساتھ مستقل رابطے میں رہے۔عوام کو وقف کی شرعی و تاریخی اہمیت اور نئے قانون کی باریکیوں سے آگاہ کیا جائے۔ مساجد، مدارس، تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذریعے باقاعدہ آگہی مہم چلائی جائے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ اگر یہ ترمیم نافذ ہوگئی تو اس کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔داخلی اختلافات کو کم کرنے کے لیے مشترکہ اجتماعات اور مکالمے منعقد کیے جائیں۔ مشترکہ اجلاسوں میں باہمی اعتماد کی بحالی سے ایک منظم لائحۂ عمل ترتیب دینا آسان ہوگا۔
اگر قیادت اور عوام مل کر ایک منظم، مثبت اور پُرامن احتجاجی تحریک شروع کرتے ہیں، جس میں ماہرین کی آرا، ٹھوس دستاویزی تجاویز اور مؤثر قانونی حکمتِ عملی شامل ہو، تو یہ نہ صرف مسلم معاشرے میں اعتماد بحال کرنے کا ذریعہ بنے گا بلکہ حکومتی ایوانوں میں بھی اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کے لیے دباؤ بڑھا سکے گا۔ اسی راستے پر چل کر وقف املاک کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے اور ان کے اصل مقاصد کی تکمیل بھی ممکن ہے۔