اداریہ

تم اپنی عید منا کر ان کو بھول نہ جانا دعاؤں میں

عیدالفطر کا مبارک و مسعود دن دراصل ماہِ صیام کی روحانی کیفیات، اپنے نفوس کی تطہیر اور رضائے الٰہی کے حصول کی سعادت پر شکرانے کا دن ہے۔ اسی لیے اس دن مسلمان خدا کی بارگاہ میں روز کی پانچ نمازوں کے علاوہ ایک اور نماز کے ذریعے اپنے رب کا شکر بجا لاتے ہیں اور اس کی کبریائی کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم عیدالفطر کی خوشیوں کے اس موقع پر تمام اہلِ اسلام کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں مسلمان ضبطِ نفس، باہمی اخوت، ایثارو قربانی اور تقویٰ کے اوصاف سے مزین ہوتے ہیں۔ عیدالفطر گویا ان اوصاف کی تکریم اور جشن کا نام ہے۔ البتہ یہ جشن اس وقت مکمل ہو گا جب اس کی خوشیاں معاشرے کے تمام انسانوں تک پہنچ جائیں جن میں سماج کے محروم اور پسماندہ طبقات بطور خاص شامل ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ مسرتوں کے اس جشن میں غریبوں، یتیموں اور بے آسرا افراد کو بلا تخصیص شریک کریں تاکہ انسانی ہمدردی کا وہ جوہر نمایاں ہو جس کی اسلام نے بارہا تاکید کی ہے۔
ماہِ رمضان کی سب سے امتیازی شان یہ ہے کہ اسی ماہ میں قرآنِ کریم کا نزول ہوا، جسے اللہ تعالیٰ نے، جو تمام انسانوں کا رب ہے، پوری انسانیت کے لیے ہدایت، رحمت اور ضابطۂ حیات قرار دیا۔ یہ ہمارے لیے خوشی و فخر کا مقام بھی ہے کہ ہم قرآن کی حامل امت ہیں، ساتھ ہی یہ ایک اہم ذمہ داری بھی ہے جو ہم پر ڈالی گئی ہے۔ قرآنِ پاک کی محض تلاوت ہی نہیں بلکہ اس کو سمجھنا اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں اس کی پیروی بھی ہم پر فرض ہے۔ قرآن انسانوں کے پیدا کرنے والے کی جانب سے بھیجا گیا ہدایت نامہ ہے، یہ انسانوں کے دلوں کی امراض کی شفا ہے، یہ کتاب انقلاب ہے، اس کے سایہ میں زندگی گزار کر انسان نہ صرف آخرت میں فلاح و کامرانی سے ہم کنار ہو سکتا ہے بلکہ دنیا کی زندگی کو بھی امن و سکون سے بھر سکتا ہے۔ عید کی خوشیوں میں ہمیں رمضان کے ایک ماہ کی تربیت کو تازہ کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں قرآن کے ساتھ مضبوط تعلق کا عہد کرنا چاہیے، تاکہ یہ عظیم کتاب ہمارے اخلاق و کردار کی تشکیل اور معاشرے کی اصلاح میں مرکزی کردار ادا کرتی رہے۔
جس وقت مسلمان دنیا بھر عید منا رہے ہیں اس وقت دنیا کے مختلف خطوں میں وہ غلامی، ظلم و ستم اور مختلف قسم کی آزمائشوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ بالخصوص فلسطین کے نہتے اور مجبور عوام، جن کی صبحیں اور شامیں خاک و خون میں لوٹتے ہوئے بسر ہو رہی ہیں۔ ظالموں نے بچوں کو چھوڑا نہ بزرگوں کو نہ عورتوں کو، سبھی کو بموں سے بھون کر رکھ دیا ہے، اور جو لوگ باقی رہ گئے ہیں ان کو بے آسرا کر دیا ہے۔ اب وہ اپنے گھروں کے ملبوں پر یا کھلے آسمان کے نیچے بھوکے پیاسے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ عید کے ایام ان کے لیے راحت اور سکون سے پوری طرح سے خالی ہو گئے ہیں۔ اِسی طرح شام، یمن، میانمار اور دیگر مسلم ملکوں میں بے گناہ انسان بد ترین حالات کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہماری دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ عید کی خوشیوں میں ان کو ہرگز بھی نہ بھولیں، ان کی داد رسی کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔ ان کے حق میں دعاؤں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے میں ہرگز سستی نہ برتیں، کیوں کہ انہی اقدامات سے مظلوموں کو سہارا اور امت کو وحدت میسر آتی ہے۔
ہمارے اپنے وطنِ عزیز میں بھی مسلمانوں کو مختلف مسائل اور کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تہذیبی جارحیت اور بعض طبقات کی جانب سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں نے ملک کی سماجی ہم آہنگی کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایسے سنگین حالات میں ہمارا دینی اور ملی فریضہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک جانب مسلمانوں میں ہمت، حوصلہ اور اعتماد کو ٹوٹنے نہ دیں اور دوسری جانب برادران وطن کے ساتھ اخلاق، رواداری اور احسان کے ذریعے اسلام کا عملی نمونہ پیش کریں۔ ہمیں امت میں تعلیم کے فروغ اور معاشی خود کفالت کے ساتھ ساتھ ہمیں اجتماعی سطح پر اتحاد اور باہمی تعلق کو بھی مضبوط کرنا ہو گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم برادرانِ وطن کو رمضان اور عیدالفطر کی اصل روح یعنی قرآن، تقویٰ، محبت، ایثار اور خدمتِ خلق سے روشناس کرائیں۔ نفرت پھیلانے والی طاقتیں اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں۔ لیکن مسلمان اپنے اخلاق، کردار اور اپنی صلاحیتوں سے اس فتنے کا سد باب کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
جب عید کی خوشیوں کے یہ دن گزر جائیں گے تب اصل امتحان کا آغاز ہو گا۔ ماہِ صیام جس انقلابی تربیت اور پاکیزہ ماحول کا التزام کرتا ہے، اس کے ثمرات کو باقی رکھنا اور انہیں اپنی عملی زندگی میں جاری رکھنا ہمارا مستقل ہدف ہونا چاہیے۔ عید کے بعد کی زندگی میں بھی ہمیں اسی ضبطِ نفس، عاجزی، انکساری اور خوفِ خدا کے ساتھ آگے بڑھنا ہے جو رمضان کا حاصل ہے۔ یہی وہ طرزِ فکر اور کردار ہے جو ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ترقی کا زینہ فراہم کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کی حالت پر رحم فرمائے، اسے باہمی اختلافات اور نفرتوں سے محفوظ رکھے اور اس عید کو دنیا بھر کے انسانوں کے لیے امن، سلامتی اور خوشیوں کا ذریعہ بنائے۔ عیدالفطر کی پُر نور ساعتوں کی ایک بار پھر مبارک باد قبول کیجیے اور اپنی دعاؤں میں ان تمام پاک نفوس کو یاد رکھیے جو ظلم کے خلاف پوری استقامت کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں اور اللہ کی رحمت کے منتظر ہیں۔ اس یقین کے ساتھ عید منائیے کہ نیکی، انصاف اور اخوت کی روشنی آخر کار ہر طرح کی ظلمت اور اندھیرے کو شکست دے کر رہے گی۔