
گزشتہ دنوں بھارت کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں مذہبی امتیاز کے خلاف قرارداد کی حمایت اور یہ بیان کہ ’’مذہبی امتیاز سے تمام مذاہب کے ماننے والے متاثر ہوتے ہیں‘‘ ایک خوش آئند قدم ہے۔ یہ موقف ظاہر کرتا ہے کہ بھارت اپنے آپ کو ایک ایسے ملک کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے جو مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کے اصولوں کا بین الاقوامی سطح پر دفاع کرنے والا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کیا واقعی بھارت کا داخلی منظر نامہ بھی اسی انداز میں مذہبی تنوع اور عدم امتیاز کی تائید کرتا ہے جس کا اظہار اس نے اقوامِ متحدہ میں کیا ہے؟
لیکن موجودہ بھارتی حکومت کے داخلی اقدامات اور زمینی حقیقتیں اس بیان کی مسلسل تردید کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ تضاد اس قدر واضح ہے کہ محض عالمی اداروں میں دل خوش کن تقاریر اور اصولی نکات پیش کرنے سے نہ تو یہاں بسنے والی اقلیتوں کے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی عالمی برادری ایسے بیانات سے گمراہ ہو سکتی ہے۔ بھارت اگر واقعی ابھرتی ہوئی طاقت بن کر عالمی سطح پر عزت چاہتا ہے تو اسے اپنے اندرونی حالات میں موجود زہرِ فرقہ پرستی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔
بھارت کی تاریخ اور آئین ملک میں جمہوری اصولوں اور سیکولر قدروں پر استوار ہیں، جن میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ مگر پچھلے چند برسوں کے دوران بعض حلقوں کی جانب سے ایسے رویّے اور اقدامات دیکھنے میں آئے ہیں جن سے ملک کی اقلیتوں اور پس ماندہ طبقات کو بے شمار خدشات لاحق ہوئے ہیں۔ بعض قوانین اور پالیسیوں پر کیے جانے والے اعتراضات، سماجی سطح پر بڑھتی ہوئی تقسیم، سیاسی قائدین اور آئینی مناصب پر براجمان افراد کی جانب سے اقلیتوں کے متعلق منفی بیانات اور بعض سنگین واقعات نے داخلی سطح پر بھارت کے کثیر مذہبی، سیکولر اور تکثیری امیج کو دھندلا کر دیا ہے۔ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر رواداری اور سب کی شمولیت کے دعوے، زمینی حقیقتوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔
یہ تضاد صرف بیان اور عمل کی حد تک محدود نہیں؛ اس کے دور رس اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ کسی بھی ابھرتی ہوئی علاقائی و عالمی طاقت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بین الاقوامی شبیہ اور داخلی اقدامات کے درمیان ہم آہنگی کو برقرار رکھے۔ اخلاقی ساکھ ہی وہ اثاثہ ہوتی ہے جو ممالک کو عالمی سطح پر قابلِ اعتماد بناتی ہے۔ عالمی فورموں پر تو بلند و بانگ دعوے کیے جائیں مگر اندرونِ ملک اقلیتوں اور پس ماندہ طبقات کو تشویش میں مبتلا کر دینے والے واقعات رونما ہوں تو عالمی برادری کے سامنے یہ تضاد نہایت واضح ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں بھارت کی وسیع سفارتی کامیابیوں پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔
بھارت کے لیے وقت کی ضرورت یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کردہ اصولی موقف کو نہ صرف داخلی قوانین، ریاستی اداروں کی کارکردگی اور سماجی رویوں کے ذریعے صحیح ثابت کیا جائے، بلکہ زمینی سطح پر بھی عوام کو انصاف اور مساوی شہری حقوق کے حصول کا اطمینان بھی دلایا جائے۔ کسی بڑے ملک اور ابھرتی ہوئی طاقت کی شناخت، صرف بیانات یا اقتصادی ترقی سے نہیں ہوتی بلکہ اصولوں اور اقدار کی پاسداری سے ہوتی ہے۔ جن بڑے ممالک کو عالمی سطح پر عزت و مقام حاصل ہے، وہ اپنے ہاں جمہوری و سماجی انصاف کے عملی ڈھانچے کو مضبوط رکھے ہوئے ہیں اور اسی پہلو سے بین الاقوامی سطح پر ان کی آواز کو اہمیت دی جاتی ہے۔
عالمی اداروں میں اسلاموفوبیا یا مذہبی بنیادوں پر تفریق کے خلاف قراردادوں کی حمایت محض کوئی علامتی اقدام نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دراصل ایک علمی و عملی عہد ہے کہ ہم اپنے گھر سے لے کر عالمی برادری تک ہر جگہ مذہبی رواداری کو یقینی بنائیں گے۔ اس صورتحال میں بھارت کو چاہیے کہ اپنے داخلی معاملات میں وسعتِ قلبی، مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کے عملی مظاہرے کو فروغ دے۔ قانون کی پاسداری اور اقلیتوں کی داد رسی کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ تشدد اور اشتعال انگیزی کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے سماجی اور سیاسی سطح پر واضح پیغام دیا جائے کہ ملک میں مختلف برادریوں کے درمیان امتیازی رویے برتنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ایک محتاط اور منصفانہ جائزہ یہ واضح کرتا ہے کہ بھارت کی اقتصادی پیش رفت اور سفارتی اثر و رسوخ اپنی جگہ لیکن عالمی منظر نامے میں ایسی ریاستوں کی وقعت و عزت زیادہ ہوتی ہے جو صرف زبانی بیانات ہی نہیں دیتیں بلکہ اپنے معاشرے میں حقیقی معنوں میں رواداری کے کلچر کو پروان چڑھاتی ہیں۔ گو کہ بھارت سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، لیکن بین الاقوامی وقار کے لیے ضروری ہے کہ اس تضاد کو دور کیا جائے جو اقوامِ متحدہ میں اٹھائے گئے اصولی موقف اور داخلی حقائق کے مابین نظر آتا ہے۔ کسی بھی بڑے ملک کی عظمت اور عزت کا دار و مدار اسی بات پر ہوتا ہے کہ وہ اپنی داخلی پالیسیوں اور عالمی بیانیے میں ایک ہی طرزِ فکر اور طرز عمل کا مظاہرہ کرے۔ یقینی طور پر بھارت جیسے اہم ملک کے لیے بھی یہی موزوں راستہ ہے۔