اداریہ

کانگریس اجلاس اور اس کا آئیڈیا آف انڈیا

آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا 85واں سالانہ اجلاس چھتیس گڑھ کے صدر مقام رائے پور میں اتوار کے روز اپنے اختتام کو پہنچا۔اس موقع پر کانگریس نے معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی موضوعات پر قراردادیں بھی منظور کیں۔ اجلاس میں پیش ہونے والی سیاسی قرارداد، روایتی قرارداد سے زیادہ لوک سبھا کے اگلے انتخابات کا پارٹی منشور معلوم ہو رہی تھی۔ اس قرارداد میں کانگریس نے اگلے عام انتخابات کے لیے ہم خیال سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد پر کافی زور دیا ہے۔ پارٹی کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ بی جے پی کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس ان ریاستوں میں جہاں وہ کمزور ہے، ‘بڑے بھائی’ کا کردار ادا کرنے کا لالچ ترک کر پائے گی؟ کیا وہ مختلف علاقائی اور چھوٹی پارٹیوں کو زیادہ سیٹیں دینے کی جرات کر سکے گی؟
کانگریس نے اس موقع پر پارٹی کے آئین میں بھی کئی تبدیلیاں کیں اور ان سے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ دلتوں، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کو پارٹی میں بھر پور نمائندگی دینا چاہتی ہے۔ کانگریس اگر اپنے ان دعووں میں مخلص ہے اور وہ اپنی قراردادوں اور بیانات کے مطابق ملک میں بی جے پی کے فسطائی ایجنڈے کو شکست دینا چاہتی ہے تو اسے اس کے مطابق اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔ ماضی میں جب کانگریس برسر اقتدار تھی، اسے علاقائی سطح پر مختلف سیاسی قوتوں کا ابھرنا پسند نہیں تھا۔ اس نے ہمیشہ ان علاقائی سیاسی قوتوں کی حوصلہ شکنی کی، اگر مجبوری میں ان کے ساتھ اتحاد کرنا بھی پڑا تو انہیں کمزور کرنے کی ہرممکن کوششں کی۔ اسی لیے علاقائی سیاسی جماعتیں اس معاملے میں اس پر بھروسہ کرنے میں جھجک کا مظاہر کرتی ہیں۔ اگرچہ بہار میں لالو پرساد یادو، تیجسوی یادو اور نتیش کمار نے کانگریس کے لیے مثبت اشارے دیے ہیں اور مہاراشٹر میں کانگریس پارٹی نے ایک بہت اچھا اتحادی تجربہ بھی کیا ہے لیکن یہ سب باتیں اسی وقت کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں جب کانگریس اس معاملے میں اپنی پرانی روش تبدیل کرے۔
کانگریس نے اپنے اجلاس میں وقت اور حالات کا رخ دیکھتے ہوئے ذات پات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو پھر ایک بار دہرایا ہے۔ کانگریس کے قومی صدر نے اپنے خطاب میں مرکزی حکومت اور نریندر مودی پر اس معاملے میں سستی دکھانے پر سخت تنقید کی ہے۔ مسٹر کھرگے نے ذات پر مبنی مردم شماری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اسے سماجی انصاف و پچھڑے ہوئے طبقات کو با اختیار بنانے کے لیے ایک اہم وسیلہ قرار دیا ہے۔ ذات پات اور سماجی انصاف کا مسئلہ محض مردم شماری تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ کروڑوں کمزور و پس ماندہ انسانوں کے ساتھ ہزاروں سالوں سے ہونے والی ناانصافی اور ظلم کے خاتمے کا مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے تمام ہی سیاسی جماعتیں اس معاملے میں غیر سنجیدہ رہی ہیں اور انہوں نے اسے محض اپنے سیاسی اغراض کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے۔ یہ بات بھلائی نہیں جا سکتی کہ ملک میں ریزرویشن ایک غیر کانگریسی اقتدار کے دور میں لاگو ہو سکا۔ کانگریس نے نچلی ذاتوں، قبائلیوں اور اقلیتوں کو ملک کی ترقی کے اصل دھارے میں شامل کرنے کی ایماندارانہ کوششیں کم ہی کی ہیں۔ کسی ریاست میں کچھ فلاحی اسکیمیں آئی بھی ہیں تو وہاں کی علاقائی قیادت کا رول غالب رہنے کے سبب سے آئی ہیں۔
کانگریس کے متعلق یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ وہ اعلیٰ ذات کے لوگوں کی پارٹی ہے۔ اگر کانگریس اپنی اس امیج کو بدلنا چاہتی ہے تو اسے قراردادوں سے آگے بڑھ ملک کے دلتوں اور پسماندہ طبقات تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
کانگریس نے اس موقع پر بین الاقوامی اور معاشی قراردادیں بھی منظور کیں جن میں موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس میدان میں اپنے عزائم کا مسودہ پیش کیا۔ اپنی معاشی قرارداد میں کانگریس نے ایک بار پھر یہ مطالبہ کیا کہ اڈانی-ہنڈنبرگ مسئلے پر تحقیق کے لیے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ جبکہ ملک میں آزاد معیشت منموہن سنگھ کی پالیسیوں کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے جس کے پھل اب بی جے پی مزے لے لے کر کھا رہی ہے‌۔
اس موقع پر کانگریس نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ اقتدار حاصل ہونے پر نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف قانون بنائے گی۔ پارٹی کا یہ عزم اس 58 نکاتی سیاسی قرارداد میں شامل ہے جو اجلاس میں منظور کیا گیا ہے۔ یقیناً عزم خوش آئند ہے لیکن عملی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس ابھی تک فسطائی طاقتوں کے پھیلائے ہوئے ہندوتوا کے اس جال سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کرپائی ہے جس کے تحت وہ اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت سے غیر معقول دوری اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سالانہ اجلاس اور اس مناسبت سے جاری کیے گئے اشتہارات میں اس نے اپنی پارٹی کے کسی با حیات یا مرحوم مسلم قائد کو اہمیت دینا تو درکنار ایک تصویر تک شائع نہیں کی۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے قومی صدر اور ملک کے پہلے وزیر تعلیم اور ہندو-مسلم اتحاد کے سب سے بڑے علم بردار مولانا ابوالکلام آزاد کی تصویر ہی غائب کر دی۔ اگرچہ بعد میں لوگوں کی تنقید اور توجہ دہانی کے بعد اس پر معافی مانگ لی گئی لیکن عوام میں جو پیغام گیا اس نے کئی طرح کے سوالات ضرور کھڑے کر دیے ہیں۔ اسی طرح ہریانہ میں ہونے والی ماب لنچنگ کے بعد کانگریس کی جانب سے کسی حوصلہ افزا ردعمل کے فقدان نے بھی اس کی اسی نفسیات کو آشکار کیا ہے۔ اگر کانگریس ملک میں جاری اس نفرت انگیز صورت حال بدلنے میں واقعی مخلص ہے تو اسے اس نفسیات سے نکلنا ہوگا اور محض زبانی دعووں سے آگے بڑھ کر اس جمہوری نظریے پر سنجیدگی سے عمل کرنا ہوگا جو ملک کی اصل روح ہے۔ اس کے جواں سال قائد نے اپنی پیدل مہم کے دوسرے مرحلے کے طور پر اب مشرق سے مغرب تک بھارت جوڑنے کے لیے نکلنے کے عزم ظاہر کیا ہے۔ وہ پارٹی اپنی اقتدار والی ریاستوں میں دلتوں اور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و زیادتیوں پر خاموشی اختیار کر کے اس نظریہ کے خلاف چلنے کا عملی مظاہرہ کر رہی ہے جسے وہ خود ‘آئیڈیا آف انڈیا’ کہتی آئی ہے‌۔