
زبان کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت کا بنیادی ستون ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں زبان اور اس کے تحفظ کے حوالے سے حساسیت پائی جاتی ہے۔ بھارت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے؛ یہاں مختلف ریاستیں اپنے ثقافتی اور لسانی تشخص کے لیے سرگرم ہیں۔بھارت کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ وفاقی اور جمہوری ہے، جہاں ہر ریاست کو اپنی زبان اور تہذیبی ورثے کو برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم، جب بھی کوئی مخصوص زبان کا غلبہ یا اس کی جبری ترویج ہوتی ہے تو لسانی تنازعات جنم لیتے ہیں اور وفاقی اکائیوں کے مابین تناؤ بڑھ جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے صوبائی اسمبلی کے ایوان میں اردو زبان کے متعلق انتہائی نازیبا باتیں کہی ہیں جو ایک دستوری منصب پر فائز فرد کے ہرگز شایان شان نہیں ہیں ۔ان کی اردو زبان سے مخاصمت محض ایک علاقائی مسئلہ یا سیاسی بیان نہیں ہے بلکہ یہ تہذیبی و لسانی جارحیت ہے اور یہ رویہ ملک کی مجموعی لسانی ہم آہنگی کو متاثر کرتا ہے۔ اردو زبان صدیوں سے برِ صغیر کی تہذیبی، ادبی اور سماجی زندگی کا اہم حصہ رہی ہے۔ اس کے بولنے اور سمجھنے والے افراد صرف اتر پردیش میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں رہتے ہیں۔ اردو کا دائرۂ اثر یہاں کے علمی و ادبی سرمائے، فنونِ لطیفہ، فلم اور موسیقی وغیرہ میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ایسے میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز شخص کی جانب سے اردو کی مخالفت ایک مشترکہ تہذیبی ورثے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔اردو اپنی ابتدا سے لے کر آج تک مختلف تہذیبوں کا حسین امتزاج رہی ہے۔ عربی، فارسی، ترکی اور مقامی بولیوں سے استفادہ کرنے کے باعث یہ زبان برصغیر میں ایک بین الثقافتی رابطے کی حیثیت حاصل کر چکی ہے۔سماجی میل جول اور ثقافتی تبادلہ میں اردو کی شمولیت امکانات کے نئے دروازے کھولتی ہے۔ ثقافتی میل جول سے دوریاں کم ہوتی ہیں، ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے اور مختلف مذاہب، مسالک اور خطوں کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ یہی جذبہ ایک مضبوط وفاقی ڈھانچے اور ہم آہنگ معاشرے کی بنیاد بنتا ہے۔
اور اگر آئینی سطح پر دیکھیں تو بھارت کا آئین تمام سرکاری زبانوں کو یکساں حقوق فراہم کرتا ہے۔ اردو کو ملک کی شیڈیولڈ زبانوں میں شمار کیا گیا ہے، اس لیے اسے سرکاری سطح پر تحفظ اور فروغ دینا کوئی احسان نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ یا دیگر کسی بھی شخصیت کی جانب سے اردو کے لیے منفی جذبات کا اظہار، درحقیقت ملک کے آئینی ڈھانچے اور جمہوری اقدار کی روح کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
بھارت کی جنوبی ریاستوں نے بھی ابتدا ہی سے ہندی کے جبری نفاذ کی کوششوں کی مزاحمت کی ہے۔ تمل ناڈو، کیرالا، کرناٹک، تلنگانہ اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں اپنے علاقائی تشخص اور زبان پر بڑا فخر کیا جاتا ہے۔ وہاں تمل، ملیالم، کنڑ اور تیلگو بولنے والوں کو خدشہ رہتا ہے کہ اگر ہندی کے نفاذ کے لیے مرکز کی جانب سے زیادہ سخت پالیسیاں بنائی گئیں تو اس سے مقامی زبانوں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ اندیشے بلاوجہ نہیں، کیونکہ ماضی میں بھی لسانی فسادات اور مظاہروں کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہی تھی کہ ’ایک قوم، ایک زبان‘ کی پالیسی کے تحت ہندی کو فوقیت دی گئی اور دیگر زبانوں کو ثانوی حیثیت میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔اور موجودہ حکومت بھی اسی راہ پر گامزن نظر آتی ہے۔
بھارت کا وفاقی ڈھانچہ اسی لیے تشکیل دیا گیا تھا کہ تمام ریاستیں اپنے ثقافتی اور لسانی حقوق محفوظ رکھتے ہوئے وفاق کا حصہ بنی رہیں۔ لہٰذا جب بھی ایسی پالیسیاں سامنے آتی ہیں جو زبان کے نام پر غیر منصفانہ امتیاز کو فروغ دے رہی ہوں، تو وفاق کا توازن خطرے میں پڑجاتا ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس سے وفاقی نظام کے خلاف نارضگی پیدا ہوتی ہے اور علیحدگی پسند جذبات کو فروغ ملتا ہے۔ اس وفاقی ڈھانچے کو سب سے بڑا خطرہ اس وقت لاحق ہوتا ہے جب مرکز کا جھکاؤ کسی ایک زبان یا ایک ثقافتی نظام کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ بھارت کے آئین میں اگرچہ ہندی اور انگریزی کو سرکاری سطح پر خاص حیثیت دی گئی ہے لیکن دیگر زبانوں کی شمولیت بھی واضح طور پر درج ہے۔ آئینی حدود کے باوجود اکثر سیاسی مفادات کے لیے کسی ایک زبان کو پورے ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے لسانی تنازعات پھوٹ پڑتے ہیں۔
بھارت جیسی عظیم جمہوریت اور کثیر ثقافتی معاشرے میں اگر لسانی تنازعات سر اٹھا رہے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وفاق اور جمہوری اقدار کے حوالے سے ہمارے عملی اقدامات میں بہت بڑی خرابی ہے۔ اردو کے ساتھ امتیازی برتاؤ، جنوبی ریاستوں میں ہندی سے اجتناب، یا کسی بھی لسانی گروہ کا احساسِ محرومی، ان سب کی بنیاد یہ تاثر ہے کہ ملک میں ’’اکثریتی‘‘ زبان کو فوقیت دے کر دیگر زبانوں کو مسلسل پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آئین کی روح کے مطابق تمام زبانوں کو مساوی اہمیت دی جائے اور لسانی تنوع کو قومی اثاثہ سمجھا جائے۔
اردو نے صدیوں سے اس خطے میں تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھایا ہے اور لوگوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر ہم اپنے وفاقی ڈھانچے کو مستحکم رکھنا چاہتے ہیں تو زبانوں کے حوالے سے منصفانہ اور متوازن پالیسی کو اپنانا ہوگا، تب ہی ایک مضبوط وفاقی اکائیوں پر مشتمل بھارت کا خواب پورا ہوسکے گا۔ لسانی آزادی اور تکثیریت ہی وفاقی، جمہوری نظام کی اصل روح ہے، جس پر عمل پیرا ہوکر ہم ہر طرح کے لسانی تنازعات کو نہ صرف ختم کرسکتے ہیں بلکہ اپنی تہذیبی سرمائے کو بھی مزید فروغ دے سکتے ہیں۔