
دنیا بھر میں ہر سال 20 فروری کو عالمی سطح پر سماجی انصاف کا دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ظاہری یا پس پردہ عدم مساوات اور ناانصافیوں اور ان کی خرابیوں کو سامنے لایا جائے اور انہیں دور کر کے سارے انسانوں کے لیے ایک منصفانہ ماحول کی تشکیل کی کوشش کی جائے۔عالمی سطح پر اس طرح کے اور بھی ایام علامتی طور پر منائے جاتے ہیں جن کے ذریعے انسانی حقوق، مساوات اور دیگر اقدار کے متعلق شعور بیدار ہوا اور اس کی جانب پیش رفت بھی ہوئی۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے نو سرمایہ داریت کے فروغ کے بعد جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے اس سے نئی قسم کی معاشی، سیاسی اور سماجی ناانصافیاں دنیا بھر میں جنم لے رہی ہیں۔ ہمارے ملک بھارت میں بھی، جہاں ایک سیکولر آئین کی بنیادیں عدل اور مساوات پر استوار ہیں، یہ اقدار مسلسل زوال پذیر ہیں اور سماجی سطح پر کئی طرح کی تفریق اور ناانصافیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ حالات کا یہ تناظر سارے انسانوں اور بالخصوص ملت اسلامیہ کے لیے غور و فکر اور عمل کی دعوت دیتا ہے۔
مختلف قسم کی تحقیقات اور سروے کے ذریعے یہ بات بہت واضح ہوکر سامنے آرہی ہے کہ بھارتی سماج اپنی تمام تر خوبیوں اور آئینی دعوؤں کے باوجود متعدد قسم کی تفریق اور عدم مساوات کا شکار ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ مسائل کسی ایک مخصوص طبقے یا مذہب کے ماننے والوں تک محدود نہیں بلکہ سماج کے مختلف حصوں میں بڑی گہرائی تک سرایت کر گئے ہیں۔
بھارتی سماج میں ذات پات کی تفریق صدیوں پرانی ہے، جس نے کروڑوں انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق اور عزتِ نفس سے محروم کررکھا ہے۔’دلت‘، ’پسماندہ طبقات‘ اور دیگر کمزور و محروم طبقات آج بھی سماجی تفریق، امتیازی سلوک اور معاشی نابرابری کا شکار ہیں۔ ان میں کی ایک بڑی تعداد انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور بعض لوگ وہ ہیں جنہیں تحفظات اور دیگر مراعات کی وجہ سے زندگی کی آسائشیں مل تو گئی ہیں لیکن وہ بھی سماجی سطح پر برابری کا درجہ حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ قانوناً ذات پات کے امتیاز پر پابندی ہونے کے باوجود عملی سطح پر آج بھی یہ زنجیریں مضبوط ہیں جنہیں حکومتی، سماجی اور مذہبی سطح پر توڑنے کی سنجیدہ کوشش کم ہی نظر آتی ہے۔
ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ایک تلخ حقیقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مسلمان، عیسائی، سکھ اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو بعض اوقات سماجی اور سیاسی سطح پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے نفرت انگیز بیانیے، معاشی بائیکاٹ کی اپیلیں اور مختلف موقعوں پر ہونے والے تشدد کے واقعات اس تفریق کی بدترین مثالیں ہیں۔یہ صورتِ حال نہ صرف اقلیتوں کو خوف اور عدم تحفظ میں مبتلا کرتی ہے بلکہ آئین کے سیکولر تشخص اور مساوات کے اصول کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
ہندوستان ایک لسانی اور ثقافتی گلدستہ ہے، لیکن بعض اوقات علاقائی اور لسانی بنیادوں پر بھی امتیاز برت کر دوسرے علاقوں کے لوگوں کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔شمالی، جنوبی، مشرقی اور مغربی ریاستوں کے درمیان ثقافتی اور معاشی تفاوت بعض اوقات تصادم اور منافرت کا باعث بن جاتا ہے۔
ملک میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں میں ترقی کے مواقع کا فرق بہت ہی نمایاں ہے۔منظم کرپشن، سیاسی بدعنوانی اور عدالتی نظام کی کمزوریوں نے کمزور طبقات کے مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔روزگار کے محدود مواقع اور تعلیم کی مناسب سہولتوں کی کمی نے سماجی پسماندگی کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔
ہندوستان میں خواتین کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک اب بھی تشویشناک سطح پر ہے۔تعلیم اور معاشی خودمختاری کے مواقع کے اعتبار سے بھی خواتین کو پیچھے رکھنے کے رجحان کی وجہ سے سماجی ناانصافی جنم لیتی ہے۔
اس تناظر میں بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اٹھیں اور اس صورت حال کو بدلیں۔ اپنے وطن کو ایک ایسے گہوارے میں تبدیل کرنے کی سرتوڑ جدوجہد کریں جہاں تمام انسان اپنے مکمل وقار، عزت نفس اور عدل و انصاف کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔یہ کام صرف مسلمان ہی کرسکتے ہیں کیوں کہ وہ ایک آفاقی پیغام کی حامل امت ہیں ۔مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھارت میں بستی ہے۔ اگرچہ مسلمان خود بھی بعض حالات میں ناانصافیوں اور امتیازی سلوک کا شکار رہتے ہیں، لیکن عدل اجتماعی کے قیام اور انسانیت کی فلاح کے لیے انہیں اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کرنا ہوگا۔
وہ اخلاقی اور سماجی انقلاب کے داعی بنیں۔اسلام کے عدل، مساوات اور خیرِ عام کی تعلیمات کو شعوری طور پر اپنائیں اور انہیں سماج میں پھیلائیں۔خود اپنے اندر سے ذات پات اور گروہی تعصّبات کو ختم کریں۔سماج میں ہونے والی ہر قسم کی ناانصافی یا ظلم کو روکنے کی ہروہ کوشش کریں جن کی اجازت قانون و ضابطے میں موجود ہے۔ماہرینِ قانون اور سماجی کارکنان کے ساتھ مل کر ایسے ادارے تشکیل دیں جو مفت یا کم خرچ پر مظلوموں کوقانونی معاونت فراہم کرسکیں۔مسلمانوں میں یہ مزاج پیدا کیا جائے کہ وہ اس کام کے لیے ملک کے تمام انصاف پسند افراد اور گروہوں کے ساتھ مل کر مشترکہ جدو جہد کرسکیں۔
عالمی یومِ سماجی انصاف ملتِ اسلامیہ ہند کو اس امر پر متوجہ کرتاہے کہ وہ اپنی ترجیحات کو وسیع تناظر میں دیکھے۔ یہ صرف اپنےملت اسلامیہ کے مفادات کے تحفظ کا معاملہ نہیں، بلکہ ساری انسانیت کا مسئلہ ہے ۔ اس معاملے میں مسلمانوں کا کردار ایک داعی امت کاہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے سامنے قرآنی تعلیمات اور نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں سماجی انصاف کے ان گنت نمونے موجود ہیں، جن کے ذریعے نہ صرف ملت کے داخلی مسائل حل ہوسکتے ہیں بلکہ ملکی و عالمی برادری کو بھی عدل اور مساوات کا بہترین نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے۔
سماجی انصاف، انسانی ہمدردی اور فلاحِ عامہ کے لیے ہر سطح پر بامعنی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہی وہ راہِ عمل ہے جو دنیا کو تفریق و امتیاز سے نکال کر ایک جامع اور ہمہ گیر ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔ ملتِ اسلامیہ ہند کو دیگر طبقات کے ساتھ مل کر ایک ایسے ہندوستان کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا ہے جہاں رنگ، نسل، مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر کسی بھی قسم کا امتیاز نہ برتا جائے۔کیوں کہ انسانوں کے درمیان عدل و انصاف ہی ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔