![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2021/12/20211226-5-750x430.jpg)
ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جہاں قانون کی حکم رانی اور عوام کی شمولیت کو آئینی طور پر بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ تاہم گزشتہ چند برسوں سے انتخابی طریقہ کار میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اور بعض حلقوں کی جانب سے فہرست رائے دہندگان میں الٹ پھیر، انتظامی مشینری کی جانب داری اور نفرت انگیز جذبات کو ہوا دینے والی حکمتِ عملیوں نے نہ صرف انتخابی نظام بلکہ بحیثیت مجموعی جمہوری اقدار پر بھی سوالیہ نشانات لگا دیے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں سے الیکشن کمیشن کی زیرِ نگرانی ووٹر لسٹوں میں مشکوک تبدیلیوں پر مختلف حلقوں کی جانب سے آوازیں اٹھائی جاتی رہی ہیں۔ دہلی کی مثال اس ضمن میں خاص طور پر توجہ طلب ہے، جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2020 سے 2024 کے درمیان ووٹروں کی فہرست میں چار لاکھ نئے رائے دہندوں کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اگرچہ چار سال میں اس قدر اضافہ بذاتِ خود غیرمعمولی نہیں سمجھا جاتا، لیکن حیرت انگیز طور پر اگلے محض سات مہینوں یعنی جولائی 2024 سے فروری 2025 تک مزید چار لاکھ رائے دہندوں کا اندراج ہوا۔ رائے دہندگان میں یہ تیز رفتار اضافہ انتخابی شفافیت اورفہرست رائے دہندگان کی درستی پر تشویش پیدا کرتا ہے۔
الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ فہرست رائے دہندگان میں اندراج و اخراج کے ہر مرحلے میں غیر جانب داری اور شفافیت کو یقینی بنائے۔ مگر سیاسی اور متبادل میڈیا میں گردش کرنے والی رپورٹس اشارہ دیتی ہیں کہ ان میں محض اندراج ہی نہیں بلکہ بعض حلقوں کو منظم انداز میں نکالنے کے بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔ خاص کر دہلی میں “پوروانچل” کے رائے دہندگان کو فہرست سے خارج کرنے کے الزامات سامنے آئے ہیں، جس پر دہلی کے سابق وزیرِ اعلیٰ اروند کیجریوال اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے کڑی تنقید کی ہے۔ یہ الزامات اگر درست ہیں تو واضح طور پر مخصوص ووٹر طبقات کو نشانہ بنانا دراصل جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔
ایک جانب ووٹر لسٹ کی تیاری کے مراحل پر سوالات اٹھ رہے ہیں تو دوسری جانب پولیس کی مبینہ جانب داری اور طاقت کے استعمال نے مزید خدشات کو جنم دیا ہے۔ کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ جب اقتدار میں موجود لوگ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انتظامیہ اور پولیس کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں تو الیکشن کمیشن جیسے آزاد ادارے بھی دباؤ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ پولیس کی جانب سے اپنائے جانے والے مختلف ہتھکنڈوں سے رائے دہندگان کو خوف زدہ کرنا یا کچھ مخصوص علاقوں میں ووٹروں کو ڈرانا نہ صرف عوامی سطح پر بےچینی کا باعث بنتا ہے بلکہ جمہوریت کے بنیادی اصول یعنی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی خلاف ورزی بھی ہے۔
اس صورتحال میں نفرت انگیز بیانیے (Hate Agenda) کو ہوا دی جاتی ہے۔ مذہب، ذات پات اور علاقائی بنیادوں پر جذبات مشتعل کیے جاتے ہیں تاکہ عوامی مباحثے کا رخ بنیادی مسائل جیسے مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم اور صحت سے ہٹ کر اختلافات اور تعصب کی جانب مڑ جائے۔ اس طرح ووٹ کی طاقت اور رائے دہندگان کا صحیح شعور گم ہو جاتا ہے۔
مہاراشٹر اور ہریانہ سے آنے والی متعدد رپورٹوں کے مطابق وہاں بھی ووٹر لسٹ میں یہی کچھ دیکھا جا رہا ہے۔ منتخب نمائندے، اپوزیشن اور سول سوسائٹی کے مختلف حلقے بارہا مطالبہ کرتے رہے کہ الیکشن کمیشن ضابطہ کار کو مزید سخت کرے اور کسی بھی طرح کی بےقاعدگی کو فوری طور پر ختم کرنے کے لیے واضح اصلاحات متعارف کروائے۔ سیاسی پنڈتوں کے نزدیک یہ الزامات سیاسی جماعتوں کے لیے شدید تشویش کا باعث ہیں، کیونکہ انتخابی عمل کی ساکھ پر ہی اگر سوالات اٹھیں گے تو اس کا اثر حکومتوں کی جائز حیثیت پر بھی پڑے گا۔
راہول گاندھی نے حالیہ بیانات میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے بھی یہ استفسار زور پکڑتا جا رہا ہے کہ یہ ناقابلِ فہم تفاوت اور تیز رفتار تبدیلیاں ووٹر لسٹوں میں کیوں نظر آ رہی ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو کیا یہ ایک وسیع تر حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے ذریعے عوامی رائے دہی کو متاثر کیا جا رہا ہے؟ یا پھر الیکشن کمیشن کی انتظامی خامیاں اس صورتحال کی ذمہ دار ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا تسلی بخش جواب آنا جمہوریت کی برقراری کے لیے از حد ضروری ہے۔
انتخابی عمل اور ووٹروں کے حقِ رائے دہی پر غیرضروری دباؤ نہ صرف موجودہ جمہوری نظام کو کمزور کرتا ہے بلکہ مستقبل کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر وسیع پیمانے پر دھاندلی، ووٹر لسٹوں میں ہیرا پھیری یا پولیس و انتظامی اداروں کے ذریعے مخالفین کو دبائے جانے کا عمل جاری رہا تو عوام کا جمہوری نظام اور انتخابی عمل پر سے اعتماد اٹھنے لگے گا۔
جب عوام کو یقین نہ ہو کہ ان کے ووٹ صحیح طریقے سے گنے جاتے ہیں یا ان کی آواز سنی جاتی ہے، تو سیاسی عدم استحکام جنم لیتا ہے۔سیاسی جماعتیں پھر اصلاحات اور مسائل کے حل پر توجہ دینے کی بجائے اپنے ووٹ بینک کو بچانے یا بڑھانے کے لیے ناجائز ہتھکنڈے اختیار کرنے لگتی ہیں۔ یوں تعلیم، صحت، روزگار اور دیگر بنیادی مسائل پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔نفرت انگیز بیانیے عروج پکڑ لیتے ہیں، جس سے معاشرے میں تقسیم بڑھتی ہےاور سماجی امن اور بھائی چارے کو شدید نقصان پہنچتاہے۔
بلاشبہ ہندوستان میں جمہوریت کی جڑیں کافی گہری ہیں، لیکن گزشتہ چند دہائیوں کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان جڑوں کو کمزور کرنے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔جمہوری نظام کی بقا کا انحصار عوام کے اعتماد اور اداروں کی غیرجانبداری پر ہے۔ موجودہ انتخابی کیفیت اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومت، اپوزیشن، الیکشن کمیشن اور سول سوسائٹی مشترکہ طور پر آگے آئیں اور ایسی پالیسیاں اور قوانین وضع کریں جو نہ صرف ووٹ کی قدروقیمت کا تحفظ کریں بلکہ عوامی مفادات کو بھی یقینی بنائیں۔ اگرچہ صورت حال کافی تشویش ناک ہے، مگر ہندوستان کا جمہوری ڈھانچہ اپنی تاریخ اور آئینی قدروں کی بدولت اب بھی اتنی سکت رکھتا ہے کہ عوام اور سماجی طاقتوں کی کوششوں کے ذریعے اپنی بنیادوں کو مزید مضبوط کرسکے۔ جمہوریت کے مستقبل کا فیصلہ اب اس امر پر منحصر ہے کہ ہم ان مسائل کا ادراک کتنی سنجیدگی سے کرتے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے کس قدر طاقت اور دیانت داری کے ساتھ کام کرتے ہیں۔