![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2021/12/20211226-5-750x430.jpg)
محقق جوڑے کی کامیاب صبر آزما پیروی مثال بنی
ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کی سماجی حقیقت کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی ہے۔ ملک کے آئین میں جمہوریت، مساوات اور انصاف کی تحریری ضمانتوں کے باوجود ملک کی ایک بڑی آبادی کے ساتھ ذات پات کی بنیاد پر صدیوں سے کیا جانے والا امتیازی سلوک آج بھی جاری ہے۔ یہاں دلتوں اور دیگر پس ماندہ طبقات کو ہمیشہ دوسرے درجے کا شہری سمجھا گیا ہے، انہیں نہ صرف سماجی، تعلیمی اور معاشی ترقی سے روکا گیا ہے بلکہ اگر کوئی اپنی محنت سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے راستے میں ظلم و جبر اور ناانصافی کی دیواریں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر شپرا اُکے اور ڈاکٹر شیو شنکر داس کے ساتھ پیش آنے والا سنگین واقعہ اور ان کی چھ سالہ طویل قانونی جنگ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں ذات پات کا استحصالی نظام کس قدر ظالمانہ اور سفاک شکل میں انسانوں پر مستولی ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر شپرا اُکے اور ڈاکٹر شیو شنکر داس کا مقدمہ ہندوستان میں انصاف کے لیے ایک بڑی جیت ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر ہمت و حوصلے کے ساتھ انصاف کے لیے جدوجہد کی جائے تو کامیابی مل کر رہتی ہے۔ لیکن اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس سماج میں ذات پات کی بنیاد پر ہونے والے ظلم کی جڑیں کس قدر گہری ہیں۔ یہ ہندوستان کی "جمہوریت” کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے جو آج بھی دلتوں اور پس ماندہ طبقات کو ان کے بنیادی حقوق سے تک محروم رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر شپرا اُکے اور ان کے شوہر ڈاکٹر شیو شنکر داس دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ دلت محققین ہیں۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اپنی علمی قابلیت کے ذریعے ایک آزاد علمی، تحقیقی اور تعلیمی زندگی گزارنا چاہتے تھے جو برہمن وادی ذہنیت کے لیے ناقابل قبول تھا۔ یہ دونوں ایک اہم تحقیقی منصوبے پر کام کر رہے تھے، جس کے لیے انہوں نے کئی سالوں تک ڈیٹا اکٹھا کیا، تحقیق کی اور بے شمار رپورٹیں اور علمی مقالے تحریر کیے۔ مگر ان کی ترقی اور علمی سفر ایک خطرہ بن گیا، خاص طور پر اس وقت جب وہ سماجی انصاف کی تحریکوں سے وابستہ ہوئے اور روہت ویمولا فاؤنڈیشن کے تحت دلتوں کے حقوق کے لیے سرگرم عمل ہوئے۔
یہی وجہ تھی کہ 2018 میں جب وہ تحقیقی کام کے سلسلے میں دہلی گئے تو ان کے گھر پر ایک منظم سازش کے تحت حملہ کیا گیا۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کے فلیٹ کو توڑ کر وہاں موجود 5000 سے زائد تحقیقاتی سروے سیمپلز، قیمتی تحقیقی ڈیٹا، ہارڈ ڈرائیوز، لیپ ٹاپ، پین ڈرائیوز، تعلیمی اسناد اور ان کی برسوں کی محنت کا علمی سرمایہ لوٹ لیا گیا۔ یہ محض ایک چوری نہیں تھی بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی تاکہ دلت محققین کو ترقی سے روکا جائے اور انہیں اس قدر مالی اور ذہنی نقصان پہنچایا جائے کہ وہ دوبارہ کبھی تحقیقی میدان میں واپس نہ آ سکیں۔
واپس آنے کے بعد جب انہوں نے اپنے تباہ شدہ گھر کو دیکھا اور پولیس اسٹیشن گئے تو پولیس نے نہ صرف مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا بلکہ انہیں گھنٹوں بٹھائے رکھا اور بعد میں معمولی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تاکہ اصل مجرموں کو بچایا جا سکے۔ بعد میں جب معاملہ زیادہ سنجیدہ ہوا اور عدالت میں پہنچا تو پولیس کی ملی بھگت سے مقدمے کے اصل شواہد کو یا تو ختم کر دیا گیا یا غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔
اس پورے معاملے میں پولیس نے مظلوموں کے بجائے ظالموں کا ساتھ دیا، اس نے شکایت درج کرنے میں تاخیر کی، شواہد مٹائے اور شکایت کنندہ کے بجائے مجرموں کو تحفظ فراہم کیا۔ اگرچہ عدالت نے آخر کار ان کے حق میں فیصلہ سنایا لیکن اس کے لیے انہیں چھ سال لگ گئے۔ اس دوران انہیں شدید ذہنی، مالی اور جسمانی نقصان پہنچایا گیا۔ اس کیس میں سات پولیس افسروں کو داخلی انکوائری میں مجرم قرار دیا گیا لیکن ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ صرف ان کے چند ماہ کے انکریمنٹس روکے گئے جو کہ ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یہ معاملہ صرف ڈاکٹر شپرا اُکے اور ڈاکٹر شیو شنکر داس کا نہیں بلکہ ہر اس دلت، مسلمان یا پس ماندہ طبقے کا ہے جو ہندوستان میں برہمن وادی تسلط کو چیلنج کرتا ہے۔ ذات پات کا نظام ہندوستانی سماج کا وہ استحصالی پہلو ہے جس نے ملک کی ایک بڑی آبادی کو صدیوں سے جکڑ رکھا ہے۔ اس کے تحت دلتوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع دینے کے بجائے انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے اختیار جاتے ہیں، جیسا کہ شپرا اُکے کے ساتھ ہوا۔ ان کو روزگار دینے میں ناانصافی کی جاتی ہے۔ انہیں اچھے سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں جگہ نہیں دی جاتی، اور اگر کوئی قابلیت کے بل بوتے پر آگے بڑھ جائے تو اسے کسی نہ کسی بہانے سے پیچھے کر دیا جاتا ہے۔ دلتوں کو سماجی سطح پر نیچے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ برہمن واد کی پوری طاقت اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح دلت اور پس ماندہ طبقات آگے نہ بڑھیں بلکہ ان کے غلام بن کر رہیں۔ یہ صرف دلتوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری انسانیت اور سماجی انصاف کا مسئلہ ہے۔ اگر کسی ملک میں انسانوں کو ان کے پیدائشی مقام، ذات یا قبیلے کی بنیاد پر نیچ قرار دے کر ترقی کے مواقع سے محروم کر دیا جائے تو وہ ملک نہ تو کبھی ترقی کرسکتا نہ اس میں امن و سکون باقی رہ سکتا ہے۔ اس لیے اس ظلم و ناانصافی کے خلاف کھڑا ہونا ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔
اس سلسلے میں مسلمانوں کی ذمہ داری اور بھی زیادہ ہے کیوں کہ اسلام ہمیشہ سے عدل و انصاف کے قیام اور استحصالی نظام کے خاتمے کا داعی رہا ہے۔ اسلام کی پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے ذات پات کی برتری اور نسلی تفاخر کی جڑیں کاٹ دیں اور ایک ایسا سماج قائم کیا جس میں ہر فرد برابر کے حقوق حاصل کر سکتا تھا۔ اس لیے ہندوستان میں مسلمانوں کو دلتوں اور پس ماندہ طبقات کے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا، کیونکہ یہ محض دلتوں کا مسئلہ نہیں بلکہ سارے انسانوں کے حقوق کا مسئلہ ہے۔ جب ایک طبقہ اپنے آپ کو سب سے اوپر رکھے گا تو اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے ہر طرح کا ظلم روا رکھے گا جس سے انسانوں کا کوئی بھی طبقہ بچ نہیں سکتا۔ اور مسلمانوں کا دین انہیں انصاف کا علم بردار بن کر کھڑا ہونے کا حکم دیتا ہے۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ اس ظلم اور نا انصافی کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ اگر مسلمان اس ظلم پر خاموش رہے تو تاریخ انہیں بھی ظالموں کا ہمنوا سمجھے گی۔ عدل وانصاف اور سماجی انصاف کا قیام اسلامی تعلیمات کی روح ہے اور اس کے لیے مسلمانوں کو ایک مضبوط کردار ادا کرنا ہوگا۔