قوموں کی ترقی میں تعلیم بنیادی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ فرد اور معاشرے کو شعور، علم اور مہارتوں سے آراستہ کرتی ہے۔ تعلیم نہ صرف فرد کی فکری اور اخلاقی تربیت کرتی ہے بلکہ اسے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے اور معاشی طور پر خود کفیل بناتی ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ علم اور تحقیق میں ترقی کے بغیر کسی قوم نے دنیا میں کبھی نمایاں مقام حاصل نہیں کیا۔ تعلیم انسان کو اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ کرتی ہے اور اسے ایک ذمہ دار شہری اور عالمی سطح پر مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کو اقوام کی ترقی کا زینہ اور کامیابی کی کنجی کہا جاتا ہے۔ لیکن جب یہی تعلیم بازار کی منافع خوری اور سماج میں نمودو نمائش اور ریاکاری کے شکنجے میں آ جائے تو طلبہ کے لیے ایک ایسا بوجھ بن جاتی ہے جسے کئی طلبا برداشت نہیں کر پاتے، وہ یا تو ذہنی و نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں یا اپنی زندگی کو ختم کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں راجستھان کے شہر کوٹا میں ایک طالبہ نے اسی ذہنی دباو کے تحت خودکشی کرلی۔ اس نے مرنے سے قبل جو خط لکھا ہے وہ ہمیں تعلیم سے متعلق ایک ایسی تلخ حقیقت سے روشناس کراتا ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن جب اسے بازار کی ہوس اور والدین کے نام نہاد خوابوں کی بھینٹ چڑھا دیا جائے تو یہ اپنے مقصد سے عاری ہو کر محض ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ آج کا تعلیمی نظام جس بے حسی اور مادہ پرستی کا شکار ہے اس کی سِسک کوٹا کی طالبہ کے الم ناک سوسائیڈ نوٹ میں صاف سنائی دیتی ہے۔
تعلیم، جسے شعور کا زینہ اور تہذیب کا منبع ہونا چاہیے تھا، سرمایہ داری اور بازار کی زنجیروں کے مضبوط شکنجے میں جکڑی جا چکی ہے۔ تعلیمی ادارے، اسکولس اور کوچنگ سنٹرس، جو علم و ادب کے حقیقی مراکز ہونے چاہیے تھے، کاروباری اڈے بن چکے ہیں جہاں طلبہ کو انسان نہیں بلکہ منافع خوری کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ان اداروں کا مقصد طلبہ کی ذہنی، اخلاقی یا علمی نشوونما نہیں بلکہ انہیں ریس کے گھوڑوں کی طرح نمبروں کی دوڑ میں جھونک دینا ہے۔ ان اداروں کی فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں لیکن ان کے طریقہ تدریس سے طالب علم ذہنی طور پر کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومتیں جو اس رجحان کو روک سکتی تھیں خود اس مسئلے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ اس سلسلے میں نہ کوئی قانون سازی ہے اور نہ کوئی ضابطہ اخلاق۔ کوچنگ مافیا آزادانہ طور پر طلبہ کے خوابوں کو لوٹ رہا ہے اور حکومت محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔
کوچنگ کے یہ مراکز تعلیم کے میدان میں وہ ناسور ہیں جو علم کے مقدس نظام کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ یہ مراکز طلبہ کو صرف امتحانات پاس کرنے والی مشینیں بنا رہے ہیں لیکن ان کے پاس ان کی ذہنی، جذباتی اور اخلاقی تربیت کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔یہ مراکز اپنی اشتہاری مہمات میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کے بغیر کامیابی ممکن ہی نہیں، اور والدین سراب کو پانی سمجھ کر اپنے بچوں کو ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کوچنگ مافیا تعلیم کو اس حد تک زہریلا کر چکی ہے کہ طلبہ کا سیکھنے کا شوق ختم ہو چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ مراکز نہ صرف بچوں کو تعلیمی طور پر تباہ کر رہے ہیں، بلکہ ان کی زندگیوں کی چمک دمک بھی چھین رہے ہیں۔
دوسری جانب آج سماج میں کامیابی کے معنی اچھے نمبرات اور ایک اچھے کیرئیر میں سمٹ چکے ہیں۔ نتیجے میں والدین اپنے بچوں کو کامیابی کے لیے ایک ایسی اندھی دوڑ میں دھکیل رہے ہیں جس کا انجام اکثر افسوس ناک ہی ہوتا ہے۔ کوٹا کی طالبہ نے خود کشی نوٹ میں اپنی ماں کے جبر اور اس کے غیر حقیقی خوابوں کا ذکر کیا جو بالآخر اس کی زندگی کے خاتمے کا سبب بنے۔ ہم نے بچوں کو آزاد انسان سمجھنے کے بجائے اپنے خوابوں و خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ والدین کے یہ جابرانہ فیصلے نہ صرف بچوں کی شخصیت کو کچل دیتے ہیں بلکہ انہیں خود کشی جیسے خطر ناک راستے پر بھی لے جاتے ہیں۔
یقیناً آج کا تعلیمی نظام اپنے معیار کے اعتبار سے بہت اعلیٰ ہے۔ طلبہ اس کے ذریعے بہت ساری تکنیکی مہارتیں حاصل کر رہے ہیں اور قومی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہ نظام انہیں زندگی کا صحیح تصور، جینے کا صحیح ڈھنگ اور زندگی کے مسائل کو حقیقی انداز میں حل کرنے کی صلاحیت فراہم نہیں کر رہا ہے۔ کوٹا کی طالبہ نے اپنے خود کشی نوٹ میں ادب اور تاریخ کے مضامین کو اپنی زندگی کی تاریکیوں سے نکلنے کا ذریعہ قرار دیا۔ یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ صرف سائنس یا ریاضی ہی اہم نہیں بلکہ وہ مضامین بھی ضروری ہیں جو طلبہ کو انسانی زندگی کی معنویت سمجھائیں۔ بدقسمتی سے موجودہ نظام انہیں صرف مسابقتی دوڑ میں لگا رہا ہے، اور یہ دوڑ طلبہ کے ذہنوں میں زہر بھر رہی ہے۔ وہ ڈگریوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اعلیٰ مقصد زندگی کی طرف ان کی کوئی رہنمائی نہیں کی جاتی۔ انہیں یہ نہیں سکھایا جاتا کہ کامیابی کے حقیقی
معنی کیا ہیں۔ مادیت کی اندھی دوڑ اور اعلیٰ نمبرات کے دباؤ نے نوجوان نسل کی تخلیقی صلاحیتوں کو کچل دیا ہے۔ کوٹا کی طالبہ کی خود کشی اسی بے مقصد دوڑ کا ایک الم ناک انجام ہے۔ ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ زندگی صرف نوکریاں حاصل کرنے اور مادی کامیابیوں کا نام نہیں ہے۔ زندگی نام ہے دوسروں کو دینے کا نہ کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ بھی چھین لینے کا حتیٰ کہ ان کی زندگی بھی؟
اس صورت حال کو ہم تبدیل کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم سنجیدگی سے ان مسائل پر غور کریں اور عملی اقدامات کریں۔ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ والدین کو بتایا جائے کہ وہ بچوں کے اندر موجود صلاحیتوں کو پہچانیں اور ان کے آنکھوں میں پلنے والے جائز خوابوں کو پورا کرنے میں ان کی مدد کریں، نہ کہ ان کو اپنے خوابوں کے پیچھے لگا دیں؟
تعلیمی اداروں اور والدین دونوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر طالب علم کی اپنی کچھ خاص صلاحیت ہوتی ہیں جسے لے کر وہ پیدا ہوتا ہے۔ کسی کو سائنس میں دل چسپی ہوتی ہے تو کسی کو ادب یا تاریخ میں۔ ان صلاحیتوں کو صالحیت یعنی کردار سازی کے ساتھ جوڑنا ہی ان کی اصل کوچنگ ہے۔
تعلیمی نصاب میں ضروری اصلاحات کی ضرورت ہے۔
نصابِ تعلیم میں اخلاقی تعلیم، ذہنی صحت اور زندگی کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کی تربیت کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ تعلیم صرف اچھی ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک ایسا نظام ہونا چاہیے جو طلبہ کو اخلاقی اقدار، مسائل سے نمٹنے کے ہنر اور ایک بامقصد زندگی گزارنے کی ترغیب دے۔حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی اداروں بالخصوص کوچنگ سنٹروں کے لیے سخت قوانین بنائے تاکہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی منافع خوری پر قابو پایا جا سکے۔ طلبہ کے لیے مشاورت اور کونسلنگ کی ضرورت پر تو کافی اظہار خیال ہوتا ہے لیکن اس کی حقیقی روح سے اکثر کونسلر محروم نظرآتے ہیں ۔طلبا کے لیے ایسے نفسیاتی اور مشاورتی مراکز قائم ہوں جہاں انہیں زندگی کی حقیقی مقصد سے روشناس کروایا جا سکے تاکہ وہ حقیقی کامیابی کے راستے پر چل سکیں اور دباؤ اور مایوسی سے بچ سکیں۔
کوٹا کی طالبہ کی خودکشی کا سانحہ ہمارے سماج، تعلیمی نظام اور والدین کے رویوں کے لیے ایک آئینہ ہے۔ اگر ہم نے اس آئینے میں اپنا عکس نہیں پہچانا تو آنے والی نسلیں اس کی بھاری قیمت چکائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس تعلیمی نظام کو بدلنے کی سمت میں ٹھوس اقدامات کریں اور اپنے بچوں کو جینے کا حق واپس دلائیں۔
گذشتہ اسٹوری
اگلی اسٹوری