لاس اینجیلس میں ہونے والی حالیہ آتش زدگی کے مناظر نے دنیا بھر میں ایک بار پھر خوف ناک تباہی کی یاد تازہ کر دی ہے۔ امریکہ کی یہ آگ جو ایک قدرتی آفت کے طور پر ظاہر ہوتی ہے، بعض اوقات انسانی غفلت اور پالیسیوں کے نتیجے میں خوف ناک قہر بن جاتی ہے۔ لاس اینجیلس جیسے ایک ماڈرن اور ترقی یافتہ شہر میں ہونے والی یہ آتش زدگی نہ صرف ماحولیاتی بے حسی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پس پردہ ایسی پالیسیوں اور اقدامات کی گونج بھی سنائی دیتی ہے جو امریکی معاشرے کی گہرائی میں پنپنے والی ناانصافیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ لاس اینجیلس میں واقع ہونے والی اس آتش زدگی کے مناظر نہ صرف قدرتی آفات کی تباہ کاریوں کی داستان بیان کرتے ہیں بلکہ امریکی سماج اور امریکہ کی ریاستی پالیسیوں کی خامیوں کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔ آگ کے ان شعلوں نے محض درختوں اور مکانوں کو خاکستر نہیں کیا بلکہ وہ ایک پوری تہذیب کے اس رویے کی عکاسی کرتے ہیں جو اپنی حرص و ہوس اور طاقت کے نشے میں خود اپنی بنیادوں کو جلا رہا ہے۔
لاس اینجیلس کی آگ کو محض ایک قدرتی حادثہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ اس کے پیچھے ماحولیاتی تبدیلی کے وہ مظاہر کار فرما نظر آتے ہیں جنہیں امریکی حکومت اور کارپوریٹ دنیا دہائیوں سے نظر انداز کرتی آ رہی ہے۔ جنگلات میں آتش زدگی، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور خشک سالی اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکہ، اور اس جیسے بڑے صنعتی ممالک نے ماحولیات کے تحفظ کے بجائے اپنے کارپوریٹ مفادات کو ترجیح دی ہے۔
امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ کاربن کا اخراج کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ یہ اخراج قدرتی ماحولیاتی نظام کو تباہ کر رہا ہے، مگر حکومت اور بڑی کمپنیاں ماحول کے تحفظ کے بجائے اپنے تجارتی مفادات کی خاطر مسلسل ایسے منصوبے بنا رہی ہیں جو مزید نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ لاس اینجیلس کی آگ اسی غفلت کا نتیجہ ہے، جس میں قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کے بجائے صرف وعدے کیے جاتے رہے ہیں۔
لاس اینجیلس میں ہونے والی آتش زدگی سے متاثرہ علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں کا ہوا ہے جو پہلے ہی وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے پورے ماحول کو ایک تجارتی مال میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں زمین، پانی اور ہوا کو بھی پیسہ کمانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
لاس اینجیلس جیسے شہروں میں بڑے سرمایہ داروں کے لیے ماحولیات کے تحفظ کے قوانین محض ایک رسمی کارروائی بن چکے ہیں، جبکہ غریب عوام کو ان ہی قوانین کی خلاف ورزی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ آگ لگنے کے بعد ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیے حکومتی امداد اکثر ان طبقات تک نہیں پہنچ پاتی جو سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال امریکی معاشرے میں موجود گہری طبقاتی تقسیم کو واضح کرتی ہے، جہاں دولت مند طبقہ ماحولیاتی مسائل سے خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ غریب عوام ان کا شکار ہوتے ہیں۔
لاس اینجلس کی اس آگ کو امریکی عالمی غارت گری کی وسیع تصویر سے بھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ یقیناً ہمیں اس حادثے کو عذاب الٰہی کی ایک شکل قرار دے کر متاثرہ عوام کو اپنی ہمدردی سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن خود امریکی حکومت اور عوام کو بھی اس موقع پر یہ سوچنا چاہیے کہ یہ وہی طاقت ور ریاست ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں جنگوں، فوجی کارروائیوں، اور وسائل کے استحصال کے ذریعے تباہی مچاتی رہی ہے۔ عراق، افغانستان، شام، اور یمن جیسے ممالک امریکی فوجی کاروائیوں کے نتیجے میں جھلس رہے ہیں۔
یہ ممالک اپنے پاس موجود قدرتی وسائل کی فراوانی کے باعث امریکی استبداد کا نشانہ بنے ہیں۔ ان جنگوں نے نہ صرف ان ملکوں کی معیشتوں کو تباہ کیا، لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنایا، ہنستے کھیلتے معاشروں کو برباد کیا بلکہ ماحولیاتی تباہی کا بھی سبب بنے۔ جنگوں کے دوران استعمال ہونے والے کیمیکل، دھماکہ خیز مواد اور دیگر تباہ کن ہتھیاروں نے ماحول کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ امریکہ خود اپنی سر زمین پر بھی انہی جنگی پالیسیوں کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ قدرتی آفات اور ماحولیاتی تباہی ان پالیسیوں کا وہ عکس ہیں جو امریکہ نے دنیا بھر میں اختیار کی ہیں۔
لاس اینجلس کی آگ نے ایک اور حقیقت پر سے پردہ ہٹایا ہے اور وہ ہے دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ معاشرے میں سماجی عدل و انصاف کا فقدان۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ایک آن لائین جریدے کے مطابق جنگلاتی آگ سےعام طور پر جو طبقات میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں وہ مقامی امریکی ہیں جو ایک طویل عرصے سے عدم مساوات کا شکار رہنے اور ریاستی امداد وتوجہ کی عدم دستیابی اور حکومتی غفلت کے نتیجے میں پس ماندہہیں۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی حکومت واقعی اپنے شہریوں کو ان ماحولیاتی خطرات سے بچانے میں سنجیدہ ہے یا پھر وہ صرف ان بڑے کارپوریٹ اداروں کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے جنہوں نے ماحول کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے؟
لاس اینجیلس کی آگ صرف ایک ماحولیاتی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی بحران کی نشان دہی کرتی ہے۔ امریکی تہذیب نے خود کو "مہذب دنیا” کا علم بردار قرار دیا ہے، مگر یہ تہذیب اپنی ہی سرزمین پر انصاف، مساوات اور قدرتی وسائل کے تحفظ میں ناکام نظر آتی ہے۔ یہ تہذیب جو دنیا کے دیگر خطوں میں انسانی حقوق کا پرچار کرتی ہے، خود اپنی سرزمین پر انسانوں اور قدرت کے حقوق کا تحفظ کیوں نہیں کر رہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آگ میں لپٹے ہوئے امریکہ کو سوچنا چاہیے۔
لاس اینجیلس کی آگ ان شعلوں کا عکس ہے جو امریکی حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں نے دنیا بھر میں بھڑکائے ہیں۔ یہ آگ صرف جنگلوں کو ہی نہیں بلکہ انسانی اقدار اور نظامِ عدل و انصاف کو بھی جلا کر خاکستر کر رہی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مسائل کو صرف قدرتی آفات کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ ان کے سماجی، معاشی اور سیاسی پہلوؤں کا بھی گہرائی سے تجزیہ کیا جائے۔ ماحولیاتی بے حسی، سرمایہ دارانہ ظلم اور عالمی سطح پر غارت گری نے دنیا کو خطر ناک مستقبل کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اگر ان مسائل کو فوری طور پر نہ سمجھا گیا اور ان کے سدباب کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ آگ صرف لاس اینجیلس تک محدود نہیں رہے گی بلکہ عالمی امن اور انسانی بقا کو بھی لپیٹ میں لے لے گی۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائے اور ایک منصفانہ اور پائیدار نظام کے قیام کی کوشش کرے۔ ہمیں ایک ایسی دنیا کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جہاں تجارتی و قومی مفادات سے ماورا عدل و انصاف، مساوات اور قدرتی وسائل کا تحفظ اولین ترجیح ہو۔
گذشتہ اسٹوری