اداریہ

اونٹ نگل رہا، ٹیکس ٹیررزم

بھارت کی معیشت میں سب سے زیادہ حصہ داری رکھنے والا سب سے بڑا شعبہ غیر منظم شعبہ ہے اس شعبے کے تحت سب سے زیادہ روزگار ہیں جہاں ملک کی نوے فی صد آبادی کو روزگار مل رہا ہے اور ملک کی قومی آمدنی میں ساٹھ فی صد تک خطیر حصہ داری انہی کی ہے۔ یعنی زیادہ تر دیہی اور کافی حد تک شہری لیبر فورس منظم شعبوں سے کہیں زیادہ بھارت کے خزانے بھرنے میں لگا ہوا ہے۔ کسان، تعمیرات میں لگے ہوئے مزدور، ڈرائیورز، کرانے کی دکانیں اور سڑکوں و گلیوں میں پھیری لگانے والے نیز، گھریلو خدمات اور ہوٹلوں و دھابوں میں لگے ہوئے مزدور بھارت کی آدھی سے زیادہ کمائی کا ذریعہ ہیں۔ ان میں بھی کھیتی باڑی میں سب سے زیادہ مزدور اپنا روزگار پاتے ہیں۔ اس کے باوجود غیر منظم شعبے میں تنخواہیں بہت کم اور ملازمت کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی نہ ہی ان مزدوروں کو کام کی جگہوں پر بنیادی سہولتیں فراہم ہوتی ہیں۔ اب تو جیسے جیسے صنفِ نازک پر کمانے کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، اس کے لیے با عزت اور پاک و صاف کام کا ماحول فراہم کرنا مزید جوکھم بھرا کام بن گیا ہے۔ واضح ہو کہ ووٹروں کی اکثریت بھی اسی شعبے سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسری جانب حکومتوں سے رجسٹرڈ اداروں اور کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازموں کے اوقات کار متعین ہوتے ہیں، ڈیوٹی کی شرائط، کام کی جگہ پر سہولتیں، وقتاً فوقتاً تنخواہوں میں اضافے، چھٹیوں کا حق وغیرہ مراعات یا حقوق ان ملازموں کو حاصل ہیں۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ملازموں کے ناز و نخرے اٹھانے میں حکومتیں بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتیں۔ اس منظم شعبے میں بھی آوٹ سورسنگ والی ملازمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور بالعموم ملک کا مڈل کلاس طبقہ بھی یہی ہے۔ ملک کی معیشت میں محض چالیس فیصد کمائی کا حصہ رکھنے والا یہ طبقہ ہمیشہ احسان جتاتا ہے کہ وہ ملک چلانے کے لیے ٹیکس ادا کرتا ہے۔ دراصل ان کی تنخواہوں سے براہ راست ٹیکس کی رقم کاٹ لی جاتی ہے ورنہ یہ لوگ بھی اپنی اصلی اور مکمل آمدنی حکومتوں سے چھپائے رکھنے کے لیے سارے جتن کرتے ہی ہیں۔
پچھلے دنوں تمل ناڈو میں ایک پانی پوری بیچنے والے آدمی کو جی ایس ٹی نوٹس ملنے کی خبر وائرل ہوئی اور اس سے قبل وزیر مالیات نرملا سیتا رمن کا پاپ کارن پر جی ایس ٹی عائد کرنے والا بیان بھی میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک بہت زیر بحث رہا۔ اسی تناظر میں سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف نے بھی ’’ٹیکس ٹیرر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرکے حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی کہ وہ عام صارفین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔ با ضابطہ روزگار فراہم کرنا تو دور جو لوگ خود روزگار سے وابستہ ہیں ان کی کمائی میں بھی حکومت اپنا حصہ طلب کر رہی ہے۔ اس پر طرح طرح کے مزاحیہ گانے، نکتہ چینی پر مبنی میمز گردش کرنے لگے ہیں۔ تعجب نہیں کہ حکم راں جماعت کے ہمدردوں اور منظم شعبے سے وابستہ افراد نے بھی جی بھر کر حکومت کو کوسنے کا کام کیا ہے۔
بجا کہ حکومت چلانے کے لیے سرمایہ درکار ہوتا ہے، ترقی کے منصوبے روبہ عمل لانے کے لیے خطیر رقومات کی ضرورت پڑتی ہے۔ حکومتوں کو عوام پر ٹیکس عائد کر کے یہ رقم حاصل کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ شہریوں کو ٹیکس کے دائرے میں لے آئے تاکہ سرکاری خزانے میں زیادہ سے زیادہ دھن جمع کیا جاسکے۔ یو پی آئی (کیو آر کوڈ اسکین) کا استعمال بڑھانے اور ڈیجیٹل پیمنٹ میں اضافہ کرنے کے پیچھے یہی منشا تھا کہ بینکوں اور پین کارڈ سے تمام لین دین وابسطہ ہوسکے اور پھر حکومت ان سب کی خرید و فروخت اور کاروبار کی تمام جانکاری ریکارڈ پر لاسکے۔ تمل ناڈو کے پانی پوری بیچنے والے کو ایک سال میں چالیس لاکھ روپے سے زیادہ کمائی ہونے کا راز بھی اسکین کوڈ یعنی یو پی آئی پیمنٹ سے ملنے والے ریکارڈ سے ہی فاش ہوسکا ہے۔ میڈیا میں یہ نوٹس گردش کرنے کے بعد دیگر آن لائن پیمنٹ قبول کرنے والے خوردہ اور چھوٹے کاروباری اب اپنے گاہکوں سے نقد ادائیگی کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ ان کو اندیشہ ہو رہا ہے کہ کہیں ان کی اصلی آمدنی کا راز آن لائن ادائیگی سے حکومت کے سامنے نہ کھل جائے اور ان کو بھی جی ایس ٹی ادا کرنا نہ پڑے۔
سوال یہ ہے کہ آخر لوگ ٹیکس ادا کرنے سے کتراتے کیوں ہیں؟ مثلاً سرکاری عملہ جب کسی فارمیسی سے سال بھر کی آمدنی کا حساب طلب کرتا ہے تو وہ مجموعی بلوں سے زائد رقم پر ٹیکس وصول کرنا چاہتا ہے۔ نتیجتاً فارمیسی کا مالک کم سے کم بل حکومت کو پیش کرنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ دوسری جانب جی ایس ٹی ریٹرن فائل کرنے کے باوجود کئی کئی مہینوں تک حکومت کی جانب سے رقم لوٹانے میں تاخیر کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ چھوٹے کاروباری اس رقم کے بوقت ضرورت استعمال کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں جس سے ان کا کاروبار متاثر ہو سکتا ہے۔ مثلاً پتنجلی یوگ پیٹھ ملک بھر میں فیس لے کر لوگوں کو یوگا سکھاتا ہے لیکن وہ جی ایس ٹی ادا نہیں کرتا تھا۔ جو بچپن سے نیپال میں رہے اور جن کی شہریت پر سوالات اٹھتے رہے ہیں ہیں، ایسے آچاریہ بالا کرشنا کےساتھ مل کر یوگاٹیچر رام دیو نے مختلف کمپنیوں میں شراکت داری میں کاروبار شروع کیا اور تحقیق کی آڑ میں پتنجلی ریسرچ فاونڈیشن کا ٹیکس معاف کروالیا۔ وہ تو عدالت نے مداخلت کی اور کہا کہ فیس وصول کر کے یوگا سکھانا سرویس کے زمرے میں آتا ہے اور اس پر ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
حکومتوں سے مختلف ریاستوں میں مراعات، سستی زمین، سستی بجلی اور یوں ٹیکس وغیرہ میں چوری کرکے 2006 میں پتنجلی آیوروید نامی جو کمپنی قائم کی گئی وہ محض دس برسوں میں بھارت میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی FMCG کاروباری کے طور پر اپنا نام درج کرواچکی ہے۔ بد عنوان سیاست دانوں کو بھگوا واشنگ مشین میں لے کر ان کے اربوں روپیوں کے ٹیکس اور قرضہ جات آناً فاناً معاف کروانا اب کوئی راز نہیں رہا۔ دو حکم راں دو کارپوریٹ اداروں کو کس کس طرح کی سہولتیں دے رہے ہیں اور کورونا کی وبا کے دوران لوگ جب غذا اور دوا کے محتاج ہو رہے تھے تب حکومت کے قریبی کاروباری کس قدر امیر بنتے چلے گئے اور اپنے بیرونی دوروں میں ایونٹ مینجمنٹ کی آڑ میں اپنے چہیتے کاروباریوں کے لیے ٹھیکے اور بزنس دلانے کے الزامات وزیر اعظم مودی پر ملک اور بیرون ملک کے سیاست داں بھی لگاتے رہے ہیں۔ لاکھوں کروڑ روپیوں کے قرضے کارپوریٹ کے لیے معاف کر دیے جاتے ہیں لیکن عام شہری کی ای ایم آئی قسط میں تاخیر پر گاڑی، گھر اور جائیداد ضبط کرلی جاتی ہے۔ حکم راں اپنے لیے شیش محل اور نئی پارلیمانی عمارات سے لے کر لاکھوں کے سوٹ بوٹ اور انتہائی مہنگے ہوائی جہاز چارٹر کرولیتے ہیں۔ ایم ایل اے اور ایم پیوں کو خرید کر اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاتا ہے۔ تب عوام کے ذہنوں میں سوالات اٹھتے ہیں کہ جب حاکموں کی جانب سے اونٹ نگلے جا رہے ہیں اور مچھر چھانے جا رہے ہیں تو ہم بھی کیوں نہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھولیں؟ دیش پریمی ہونے کا راگ الاپنے والے نفرت کے علم بردار ووٹر اپنے ہی دیش کو زیادہ سے زیادہ ٹیکس دینے سے کیوں بھاگ رہے ہیں اور اپنے پیسہ بچانے کے لیے وہ عام غیر منظم روزگار کے شعبے سے ٹیکس وصول کرنے کا مشورہ کیوں دیتے ہیں؟
بھلے ہی انہوں نے ووٹ دیا ہو لیکن حکم رانوں کی نیت پر شبہ ان کو بھی ہے اور وہ ملک کے کمزور و محروم طبقات پر نفرت، دہشت اور جبر کے پہاڑ توڑنے والی حکومتوں کی پشت پناہی کرتے ہیں لیکن ٹیکس کی دہشت اور بے روزگاری کی مار سے خود کو بھی نہیں بچا پائیں گے۔
لازم ہے کہ حکومت فلاحی ریاست کے نظریے کے مطابق مالدار طبقے پر زیادہ ٹیکس عائد کرے اور کمزور اور غیر محفوظ طبقے پر زیادتی نہ کرے، ٹیکس کے نظام کو سہل ترین بنائے اور خود کو بھگوان کا اوتار نہ خیال کرے بلکہ عوام کا خادم سمجھ کر ملک کے عوام کی خیر و فلاح میں لگ جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام اقتدار کے ایوانوں کو لوٹ مار کا شکار بنا دیں اور حکم رانوں کو سر چھپانے کی جگہ بھی نہ ملے جیسا کہ ہمارے اڑوس پڑوس میں ہم دیکھ رہے ہیں۔
حکومت ووٹ تو عوام سے لیتی ہے لیکن کام کارپوریٹ شعبوں کو چلانے کے لیے کرتی ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے اس رویے کو ترک کرکے ہر طبقے کی بات سنے۔ جماعت اسلامی ہند نے آنے والے بجٹ 2025 کے لیے مرکزی حکومت کے سامنے سولہ تجاویز پیش کی ہیں جو ایک نہایت مثبت اور خوش آئند پہل ہے، حکومت کو ان باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقت میں ’سب کا وکاس‘ والا نعرہ زمین پر اتارا جا سکے۔