اداریہ

گزشتہ دنوں بھارت کے مشرقی صوبے اڈیشہ کے ضلع بالاسور میں ایک ہندتوا تنظیم دیو سینا کے غنڈوں کی جانب سے قبائلی عیسائی خواتین پر ہونے والے ظلم نے ہندوستان کے جمہوری اور سیکولر کردار پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے نے ملک عزیز میں نہ صرف خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کو بے نقاب کیا ہے بلکہ ملک کے کم زور طبقات، خاص طور پر دلتوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے تحفظ میں حکومت کی کھلی ناکامی کو بھی ظاہر کر دیا ہے۔ اس واقعے کو عیسائیوں تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ ملک کے اقلیتوں، عورتوں اور سماجی طور پر کم زور طبقوں کے خلاف ایک منظم جبر و تشدد کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسے حالات میں ملک کے ہر انصاف پسند شہری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ظلم کے خاتمے اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
اطلاعات کے مطابق بی جے پی کے ممبر آف پارلیمنٹ پرتاب سرنگی کے پارلیمانی حلقے میں دیو سینا کے غنڈوں کی جانب سے کچھ قبائلی عیسائی خواتین کو درخت سے باندھ کر نہایت سفاکی سے مارا پیٹا گیا، ان کے چہروں کو مسخ کیا گیا اور انہیں زبردستی جے شری رام اور جئے جگناتھ کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔ عیسائی خواتین کے ساتھ برتی جانے والی یہ بربریت نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ ملک کے آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کی بھی توہین ہے۔
مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کہ بی جے پی حکومت خواتین کے تحفظ اور ان کے لیے انصاف کے بلند و بانگ دعوے کر رہی ہے۔ اس واقعے پر حکومت کی خاموشی، مقامی انتظامیہ کی نا اہلی اور مرکزی قیادت کا غیر سنجیدہ رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ دراصل اقلیتوں اور کم زور طبقات کے تحفظ کو ترجیح دینا ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے ہی نہیں۔ چناں چہ حالیہ برسوں میں ایسے واقعات میں بے حد اضافہ ہوا ہے، اوپر سے حکومت کی جانب سے ان پر سنجیدہ اقدامات کی کمی نے ان سماج دشمن عناصر کو مزید بے خوف بنا دیا ہے۔
یہ واقعہ خواتین کے حقوق، اقلیتوں کے تحفظ اور آئینی مساوات کے اصولوں پر بھی براہِ راست حملہ ہے۔ اس طرح کے واقعات نہ صرف متاثرہ افراد کی زندگیوں کو برباد کرتے ہیں بلکہ پورے معاشرے میں خوف و ہراس پیدا کرتے ہیں۔ خاص طور پر قبائلی علاقوں میں، جہاں ترقی اور انصاف کے فقدان نے پہلے ہی عوام کو بے شمار پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔
اس واقعے کے بعد حسب عادت حکومت کی جانب سے اس پر خاموشی اور عدم کارروائی اس بات کی واضح علامت ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے تحفظ کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کی حکومت میں ایسے واقعات کا بڑھنا اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ نفرت اور تشدد کے ان واقعات کو ایک مخصوص گروہ کی سیاسی حمایت حاصل ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کی بے عملی اس تشویش کو مزید گہرا کرتی ہے کہ حکومت کے اندرونی حلقے اقلیتوں کے خلاف اس طرح کی کارروائیوں کو نہ صرف نظر انداز کرتے ہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی بھی کرتے ہیں۔
ملک کی موجودہ سماجی اور سیاسی صورت حال اس قدر زوال پذیر ہو چکی ہے کہ اب اقلیتوں کے خلاف ظلم و تشدد کو معمولی بات سمجھا جانے لگا ہے۔ ہندتوا تنظیمیں اپنے سیاسی و سماجی مقاصد کے لیے ہمیشہ سے اقلیتوں کو نشانہ بناتی آئی ہیں اور اب اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان کا مقصد نہ صرف اقلیتوں کو خوف زدہ کرنا ہے بلکہ ان کی مذہبی شناخت کو بھی ختم کرنا ہے۔ چناں چہ اسی ہدف کے ساتھ گزشتہ چند برسوں کے دوران عیسائیوں اور مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے تشدد میں بہت تیزی آئی ہے۔ چرچ پر حملے، مذہبی اجتماعات میں رکاوٹیں اور ان کے خلاف نفرت انگیز مہمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک کے حالات خطر ناک حد تک خراب ہو چکے ہیں۔
اصل میں تو یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے غنڈہ عناصر کے خلاف اقدامات کرتی، لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ الٹا اس طرح کے عناصر مزید پنپ رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات کو کنٹرول کرنے میں نہ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام ہو رہے ہیں بلکہ مجرموں کو اکثر سیاسی سر پرستی بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہ سب واقعات واضح کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں پوری طرح ناکام ثابت ہو چکا ہے۔ اس لیے ملک کے پر امن اور سنجیدہ شہری، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، قوم یا قبیلے سے ہو، ان پر اس ظلم کے خاتمے تک جدوجہد کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ملک سے محبت کرنے والے ہر شہری کو چاہیے کہ وہ کم زوروں کے خلاف کی جانے والی کسی بھی ظالمانہ کارروائی کو دیکھ کر خاموش نہ رہے بلکہ اس کے خلاف کھڑا ہو جائے۔ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا اور مظلوموں کا ساتھ دینا ہر شخص کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ سوشل میڈیا، احتجاجی مظاہرے اور عوامی تحریکات کے ذریعے حکومت اور انتظامیہ کو مجبور کیا جائے کہ وہ اس طرح کے واقعات کو سختی سے روکے۔
عام شہریوں اور سِول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ ظلم کا شکار بننے والوں کے لیے قانونی معاونت فراہم کریں تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے عدالتوں میں لڑ سکیں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔ اس کے علاوہ ان کو سماجی حمایت فراہم کرنا، ان کے لیے مالی امداد، اور ان کی سماجی زندگی کی دوبارہ بحالی کو یقینی بنانا عام شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ ملک کے شہریوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیں اور نفرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف کھڑے ہوں۔ اس مقصد کے لیے مکالمے اور بین المذاہب گفتگو کو فروغ دینا نہایت ضروری ہے۔ یہ عناصر جھوٹی خبروں اور افواہوں کے ذریعے ملک کے مختلف طبقات کے درمیان غلط فہمیوں کو ہوا دے کر ان کے درمیان دوریاں پیدا کر رہے ہیں اور یہی دوری نفرت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ عوامی سطح پر مختلف طبقوں کے درمیان بات چیت، ڈائیلاگ اور قربت اس صورت حال کو تبدیل کرسکتی ہے۔
اس موقع پر بطور خاص مسلمانوں کو اقدامی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام مسلمانوں کو ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور مظلوموں کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن مجید اور سنت نبویؐ میں ظلم کے خاتمے کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں۔ مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ظلم، چاہے کہیں پر بھی ہو اور کسی پر بھی ہو، اس کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ ظلم کے خاتمے کے لیے اپنی طاقت اور وسائل کو بروئے کار لائیں اور مظلوموں کا ساتھ دیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسے واقعات پر خاموش تماشائی بن کر نہ رہ جائیں بلکہ ظالموں کو ظلم سے روکیں اور مظلوموں کی مدد کریں۔ یہ مدد مالی امداد، قانونی معاونت، یا سماجی حمایت کی شکل میں ہو سکتی ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ مل کر نفرت انگیزی کے خلاف اتحاد قائم کریں۔ انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ملک کے تمام مظلوموں کے ساتھ ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔
اڈیشہ کا واقعہ ملک میں اقلیتوں، خاص طور پر عیسائیوں اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے ظلم و جبر کی علامت ہے۔ یہ حکومت کی ظلم سے چشم پوشی اور اقلیت مخالف پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ظلم کے خاتمے اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے آگے آئیں۔ اگر مسلمان اور دیگر انصاف پسند طبقات اس ظلم کے خلاف متحد ہو جائیں اور حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں تو ممکن ہے کہ ملک میں ایک ایسی فضا قائم ہو سکے جہاں ہر شخص اپنے مذہب اور ذات سے بالاتر ہو کر محفوظ اور باعزت زندگی گزار سکے۔ ظلم کے خلاف کھڑا ہونا نہ صرف ایک دینی فریضہ ہے بلکہ انسانی اقدار کی بقا کے لیے بھی ناگزیر ہے۔