اداریہ

گؤرکشا کے نام پر جنگل راج

گزشتہ دنوں ہریانہ میں دو مسلم نوجوانوں کی انتہائی وحشیانہ مارپیٹ اور انہیں زندہ جلا دیے جانے کا واقعہ ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت کا واضح نشان بن گیا ہے۔ گایوں کی مبینہ اسمگلنگ روکنے کے نام پر اس طرح کی کارروائیوں کا تصور کسی ایسے سماج میں تو کیا جا سکتا ہے جہاں کسی آئین و قانون، پولیس اور انتظامیہ کے بجائے غنڈوں، موالیوں اور الگ الگ گینگس کی حکمرانی ہو۔ لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں آئین و قانون کی حکمرانی ہو، پولیس اور انتظامیہ موجود ہو وہاں دن دہاڑے دو نوجوانوں کا اغوا، ایک ناکردہ جرم کے نام پر ان کی وحشیانہ مارپیٹ اور پھر انہیں بربریت کے ساتھ زندہ جلا دینا نہ صرف ایک انتہائی انسانیت سوز حرکت ہے بلکہ ملکی آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ بھی ہے۔ اس دردناک واقعہ کا شکار ہونے والے دو نوجوانوں کا تعلق راجستھان سے ہے جب کہ یہ واقعہ راجستھان کی پڑوسی ریاست ہریانہ میں ہوا۔ چونکہ راجستھان میں کانگریس کی اور ہریانہ میں بی جے پی کی حکومت ہے اس لیے اس واقعہ کی تفتیش و قانونی کارروائی پر بھی سیاست شروع ہوگئی ہے۔ تاہم، راجستھان پولیس نے اس دوہرے قتل کی تفتیش شروع کردی ہے اور ایک ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس واقعہ کا کلیدی ملزم ہریانہ کے ایک مبینہ گاو رکشک گینگ کا چیف ہے اور بجرنگ دل کے ضلع گروگرام کا صدر بھی ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر ہتھیاروں کے ساتھ اپنے کارناموں کو پیش کرتا رہتا ہے۔ ہریانہ پولیس میں اس کے خلاف اس سے قبل بھی مختلف وارداتوں کے سلسلے میں شکایات درج ہیں۔ لیکن سیاسی سرپرستی اور کچھ ‘بڑے لوگوں’ کی پشت پناہی کے سبب پولیس نے اس کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی۔
اس واقعہ کا سب سے قبیح اور غیر انسانی پہلو یہ ہے کہ مظلومین کو انصاف دلانے اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے ہمیشہ کی طرح نفرت کے پرچارک اس طرح کی انسانیت سوز حرکتوں کی پشت پر جم کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ خبروں کے مطابق بعض تنظیموں اور گروپس نے ہریانہ کے تمام ضلعی مستقروں پر ان ملزموں کے حق میں مظاہرے کیے، پریس کانفرنس کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر حالات کو خراب کرنے کی دھمکیاں دیں اور راجستھان کی اشوک گہلوت حکومت پر الزام لگایا کہ وہ انہیں بدنام کر رہے ہیں۔ یہ کسی بھی انسانی سماج کے لیے انتہائی شرم کا مقام ہے کہ وہاں قاتلوں، زانیوں اور مجرموں کی نہ صرف تائید کی جائے بلکہ ان کی پذیرائی ہو اور ان پر کی جانے والی قانونی کارروائی کے خلاف دھمکیاں دی جائیں۔ حکومت وقت ایک طرف آئین و قانون کی حکمرانی کی بات کرتی ہے اور دوسری جانب حزب اقتدار کے مختلف اہم افراد ایسے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے گینگ کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں، ان کی ہمت افزائی اور ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اس دو رنگی کے ساتھ کیسے کسی معاشرے میں امن اور قانون کی حکمرانی قائم کی جاسکتی ہے؟
بعض نفرتی ٹولیوں کی جانب سے یہ جواز پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مقتول جنید پر کچھ مجرمانہ سرگرمیوں کے کیس درج ہیں۔ اس صورت میں بھی قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی پولیس اور عدالت کی ذمہ داری ہے۔ غنڈہ عناصر اپنی مرضی کے مطابق کسی ملزم کو سزا کیسے دے سکتے ہیں؟ جنگل راج اس کا نہیں تو اور کس چیز کا نام ہے؟
وزیر اعظم مودی اس سے قبل گاو رکشکوں کے بھیس میں غنڈہ گردی کرنے والوں کے خلاف بیان دے چکے ہیں، لیکن ان کی پارٹی اپنے زیر اقتدار ریاستوں میں ان غنڈہ عناصر کی سرپرستی جاری رکھے ہوئے ہے۔
جہاں تک گاو کشی اور گائے کے گوشت کے استعمال کا سوال ہے، بی جے پی نے اس معاملے میں بھی دوہرا رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ یہی بی جے پی جو اتر پردیش، ہریانہ اور راجستھان جیسی ریاستوں میں بیف پر پابندی کے نام پر ہر طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں کی سرپرستی کرتی رہتی ہے اسی بی جے پی کی میگھالیہ شاخ کے صدر ارنیسٹ ماؤری ایک انٹرویو میں علانیہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ بیف استعمال کرتے ہیں اور یہاں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے، وہ مزید کہتے ہیں کہ پارٹی کو بھی میرے کھانے پینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ عیاں ہو کہ میگھالیہ اور ناگالینڈ میں ستائیس فروری کو ووٹنگ ہونے والی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خطے میں نوے فی صد عیسائی آبادی ہے، جن کے ووٹ بی جے پی کو بٹورنے ہیں۔
گوا میں بی جے پی کی حکومت گوشت کی قلت ہونے کی صورت میں پڑوسی ریاست سے منگوانے کی بات کر چکی ہے۔ کیرالا اور شمال مشرق میں بی جے پی، بیف کا موضوع نظر انداز کر دیتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی کے لیے بیف ایک سیاسی مسئلہ ہے حقیقی نہیں۔ وہ دراصل سماج کو تقسیم کرنے، ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کو پروان چڑھانے کے لیے اس کا استعمال کرتی ہے، لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرتی ہے، انہیں مشتعل کرتی ہے، گؤرکشا کے نام پر مجرموں کی پشت پناہی کرتی ہے تاکہ ان واقعات سے سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اس موقع پر اہل اقتدار اور عوام دونوں کو سوچنا چاہیے کہ آخر اس طرح کے طرز عمل سے وہ کس طرح کا سماج تشکیل دے رہے ہیں؟ آنے والی نسلوں کو کس طرح کا ملک دے رہے ہیں۔ دنیا میں ہمارے ملک کی کیا شبیہ بن رہی ہے؟ اس طرح کی کارروائیوں اور ان کی تائید کے ذریعے انسانوں کے سماج کو درندوں اور جنگلی جانوروں کی ایک بھیڑ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ مستقبل میں پورے سماج کو تباہ و برباد کرکے رکھ دے گی۔