ادارہ شاہین کو عدالت سے راحت

ساڑھے تین سال بعد الزامات کی منسوخی۔کرناٹک ہائی کورٹ کی کلبرگی بینچ نے کیس خارج کردیا

معاذ فائزؔ عمری

شاہین ادارہ جات کے چئیر پرسن جناب عبدالقدیر سے ہفت روزہ دعوت کی خصوصی بات چیت
یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے باشندوں کے لیے پچھلے چند سال نہایت ہی کٹھن اور صبر آزما رہے ہیں کیونکہ وقتا ًفوقتاً انہیں معتدبہ مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی حسب معمول زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئی۔ انہی واقعات میں سے ایک ’این آر سی‘ اور ’سی اے اے‘ والا معاملہ بھی ہے، جب یہ معاملہ ملک بھر میں موضوع بحث بن گیا اور عوام، ادارے اور تنظیمیں اس حوالے سے اپنا اپنا موقف پیش کر رہے تھے اسی دوران بیدر، کرناٹک کے شاہین اسکول میں بھی ایک ڈرامہ پیش کیا گیا جس کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ سی اے اے اور این آر سی والا قانون عوام کے حق میں فائدہ مند نہیں ہے بلکہ اس سے لاکھوں افراد متاثر ہوں گے اور ان کا مستقبل برباد ہوگا لہذا اس کو نافذ نہ کیا جائے۔ خیر یہ ڈرامہ تو پیش کیا گیا لیکن اصل ڈرامہ اس کے بعد شروع ہوا۔ دراصل ہوا یوں کہ بچوں کا مذکورہ پروگرام 21 جنوری 2020 کو پیش کیا گیا اور اس ڈرامے کو عوام کے روبرو پیش کرنے کے تقریباً نو دنوں بعد 30 جنوری کو مقامی پولیس اسٹیشن میں ایک کیس درج کیا گیا اور عائشہ نامی گیارہ سالہ طالبہ کی والدہ نصیب النساء اور ایک ٹیچر فریدہ بیگم کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق، بیدر نیو ٹاؤن پولیس اسٹیشن میں دائیں بازو کے ایک کارکن نیلیش رکشیالا کی شکایت پر اسکول انتظامیہ کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 504، 505 (2)، 124 (A) اور 153 (A) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی اور ملزمین پر مذہب و نسل کی بنیاد پر بغاوت، مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے اور وزیر اعظم پر تنقید کا الزام بھی لگایا گیا۔ اس کے بعد گرفتار شدہ لوگوں کو تقریباً دو ہفتے تک جیل میں بھی رہنا پڑا پھر ضلعی عدالت نے انہیں ضمانت دے دی تھی۔
شاہین گروپ آف انسٹیٹیوشنز پر لگائے گئے الزامات کا مقدمہ کرناٹک ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ ادارے نے اس پر لگائے گئے تمام الزامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسے مسلسل تین سال کی انتھک کوششوں کے بعد کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ چنانچہ پچھلے دنوں کرناٹک ہائی کورٹ کی کلبرگی بینچ نے اسکول انتظامیہ کے خلاف پرائمری سیکشن کے طالب علموں کی طرف سے پیش کیے گئے مذکورہ ڈرامے پر بغاوت کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ اسکول انتظامیہ کی طرف سے دائر کی گئی عرضی میں، جسٹس ہیمنت چندنگودار پر مشتمل کرناٹک ہائی کورٹ کی کلبرگی بنچ نے سینئر وکیل امیت کمار دیش پانڈے کی سماعت کے بعد کیس کو منسوخ کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا۔ جس پر اسکول انتظامیہ کے ساتھ ہی ٹیچر فریدہ بیگم اور طالبہ عائشہ کی والدہ نصیب النساء کو بھی راحت ملی اور ان کے گھروں میں خوشیوں کا سا سماں پیدا ہو گیا کہ تین سالہ ذہنی و جسمانی اذیتوں کا سامنا کرنے کے بعد انہیں تمام الزامات سے باعزت بری کردیا گیا ہے۔اسی طرح شاہین گروپ آف انسٹیٹیوشنز کے چیئرمین جناب عبدالقدیر نے اس موقع پر ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے پر مسرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا ’’میں خصوصاً وکلاء، میڈیا اور دیگر دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مشکل وقت میں اس کیس میں ہمارا ساتھ دیا اور فیصلہ ہمارے حق میں رہا۔‘‘ فریدہ بیگم نے اس موقع پر دی وائر سے کہا کہ ’’میری زندگی میں یاد کرنے کے لیے بہت سے خوشگوار لمحات ہیں۔ لیکن عدالت کا یہ فیصلہ یقیناً ان تمام میں سب سے زیادہ خوش کن ہے‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ خبر تین تکلیف دہ سالوں کے بعد آئی ہے جس سے میری جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کو شدید نقصان پہنچا ہے کیونکہ اس واقعہ کے فوراً بعد مجھے دل کی بیماری ہو گئی اور میری بے چینی و اضطراب کی سطح بھی بے قابو ہوتی رہی ہے اور ساتھ ہی اس معاملے کی وجہ سے ان کی دو بیٹیاں بھی بہت متاثر ہوئی ہیں۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم ناقابل تسخیر مسلم خواتین ہیں‘‘ یقیناً یہ جملہ ہر مسلم خاتون میں عزم و ہمت کی روح پھونک دیتا ہے۔
قانون کے محافظوں کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی:
اس پورے معاملے میں ایک اہم بات یہ سامنے آئی کہ ادارے کی جانب سے عدالت میں دوران سماعت یہ کہا گیا کہ مقامی پولیس، اسکول کے معصوم بچوں کے ساتھ ’ملک دشمن‘ مجرموں جیسا سلوک کرتی رہی، روزانہ اسکول کا چکر بھی لگاتی رہی، پولیس کی جانب سے اور بھی ایسے امور انجام دیے گئے ہیں جو خلاف قانون ہیں جس کی وجہ سے بچوں کی ذہنی نفسیات پر گہرا اثر پڑا ہے۔ یعنی اس معاملے میں پولیس کی تفتیش کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ 17 اگست 2021 کو کرناٹک ہائی کورٹ کی بنگلورو بینچ نے ایک بیان دیا جس میں کہا گیا کہ اسی کیس کے سلسلے میں بچوں سے پوچھ گچھ کے دوران مسلح پولیس افسران کی موجودگی سے 2015 کے جووینائل جسٹس ایکٹ اور بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ چیف جسٹس ابھے اوکا اور جسٹس این ایس سنجے گوڑا پر مشتمل بینچ کو مزید جائزہ لینے کے بعد اس حقیقت کا پتہ چلا کہ اسکول میں بچوں سے تفتیش کے دوران یونیفارم میں پولیس اہلکاروں کی موجودگی اور پولیس کا ہتھیار کے ساتھ جانا ’جووینائل جسٹس ایکٹ‘ کے تحت قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ’اسپیشل جووینائل پولیس یونٹ برائے چلڈرن‘ کے ذیلی اصول 5 میں کہا گیا ہے کہ پولیس افسران بچوں کے ساتھ بات چیت کرتے وقت عام لباس پہنیں گے (یعنی خاکی وردی کا استعمال نہیں کیا جاسکتا) اور بچیوں سے معاملہ کرنے کے لیے خواتین پولیس اہلکار لازمی ہوں گی۔ یہ مشاہدات نینا جیوتی جھاور کی طرف سے دائر ایک عرضی کی سماعت کے دوران کیے گئے جو اس وقت موڈیگیرے حلقے سے ایم ایل اے ہیں، جس میں اسی معاملے میں بچوں سے پوچھ گچھ کے دوران مسلح پولیس افسران کی موجودگی پر سوال اٹھایا گیا تھا۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 85 طلباء (جن میں سے کچھ کی عمریں نو سال سے بھی کم تھیں) کو پولیس کی پوچھ گچھ اور تفتیش برداشت کرنی پڑی۔
اس پورے معاملے کے بعد عدالت میں داخل کردہ حلف نامہ میں، کرناٹک پولیس نے اعتراف کیا کہ ان کے افسران نے اسکول میں طلباء سے متعدد بار پوچھ گچھ کرتے ہوئے غلطی کی۔ ٹی این ایم اس وقت اسکول میں موجود تھا جب بیدر پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر بسویشور ہیرا کی قیادت میں تفتیشی افسران اسکول کے ڈرامے کو لے کر طلباء سے پوچھ گچھ کرنے کے لیے پانچ بار اسکول آئے تھے۔ پولیس نے اس بارے میں یہ سوالات کیے کہ ڈرامے کا اسکرپٹ کس نے لکھا اور اس کے لیے مکالموں کا انتخاب کس نے کیا وغیرہ۔ کرناٹک پولیس نے بعد میں اعتراف کیا کہ ان کے طریقہ تفتیش نے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ افسران یونیفارم میں تھے اور طلبا سے پوچھ گچھ کے دوران ہتھیاروں سے لیس تھے۔ پولیس کی طرف سے عدالت میں داخل کردہ حلف نامہ میں تفتیشی افسر بسویشور ہیرا کا نام لیا گیا اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
اصل ڈرامہ کیا تھا ؟
اب ایک جستجو سی پیدا ہوتی ہے کہ آخر وہ ڈرامہ کیا تھا جس کی وجہ سے یہ مقدمہ چلا اور تین سال تک ادارے کو اور ملزمین کو کئی مصیبتیں اور مشقتیں برداشت کرنی پڑیں اور یہ معاملہ ضلعی سطح سے اٹھ کر ریاستی اور ملکی بلکہ عالمی دلچسپی کا باعث بن گیا؟ تحقیقات سے پتہ چلا کہ شاہین اسکول میں چوتھی، پانچویں اور چھٹی جماعت کے طلبا نے دکنی زبان میں ایک اسٹیج ڈرامہ پیش کیا تھا جس میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کی ضرورت پر ایسے وقت میں سوال اٹھایا گیا تھا جب مذکورہ قوانین پر ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ اس ڈرامے میں ایک چھوٹا سا منظر تھا جس کو دائیں بازو کے کارکنان نے اپنی دانست میں وزیر اعظم پر تنقید اور توہین آمیز سمجھ لیا اور پولیس میں شکایت درج کروائی۔ وہ منظر یہ ہے کہ ایک دادی اور اس کی پوتی اسٹیج پر ہیں اور ان کے درمیان مکالمے کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ایک پوتی اپنی دادی سے کہتی ہے کہ وزیر اعظم شہریت کے دستاویزات مانگ رہے ہیں اور اگر وہ انہیں پیش نہیں کرے گی تو انہیں ملک سے باہر بھیج دیا جائے گا۔ دادی پھر جواب دیتی ہے کہ دستاویزات قبرستان میں ہیں جہاں ان کا خاندان دفن ہے اور حیرت کی بات ہے کہ ایک چائے والا اس سے یہ ثابت کرنے کے لیے کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ ملک سے تعلق رکھتی ہیں یا نہیں؟ وہ دکنی زبان کا استعمال کرتے ہوئے چپل اٹھاتی ہے اور ’’کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘ والی بات اپنے لب ولہجے میں کہتی ہے۔ اس کے بعد یہ ڈرامہ جاری رہتا ہے کہ اسی دوران وہی طالبہ ایک پڑوسی سے دستاویزات کا بندوبست کرنے کے بارے میں پوچھتی ہے کہ ان کے دستاویزات کہاں ہیں اور ان کو کیسے حکومت کے روبرو پیش کیا جائے؟ جس پر پڑوسی تھوڑا سا مزاحیہ قسم کا جواب دیتا ہے کہ ایک چوہے نے ان کے کاغذات کھا لیے، ہیں اس چوہے کو بلی کھا گئی پھر ایک گلی کا کتا آیا اور اس نے بلی کو کھا لیا، اسی دوران میونسپلٹی والے آگئے اور وہ کتے کو لے گئے اور یاد رہے کہ میونسپلٹی حکومت کی ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ دستاویزات حکومت کے پاس محفوظ ہیں۔ ایک پڑوسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے خاندانی کاغذات ضرور کوڑے کے ڈھیر میں پڑے ہوں گے اور میونسپلٹی نے اسے بھی لے لیا ہوگا اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کے دستاویزات بھی حکومت کے پاس ہی محفوظ ہیں۔
خلاصہ یہی ہے کہ اس سارے ڈرامے میں الگ الگ طریقوں اور لب و لہجے میں اسی بات کو پیش کیا گیا تھا کہ حکومت جن کالے قوانین کا نفاذ کرنا چاہتی ہے وہ کتنا کٹھن مرحلہ ہے، اس کے کیا نقصانات ہیں اور عوام اس سے کیوں نا راض ہیں۔ لیکن عموماً تاریخ میں یہی ہوتا رہا ہے کہ مخالفین صرف موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ انہیں ہلکا سا بھی موقع ملے اور وہ اپنے لاؤلشکر کے ساتھ ہلہ بول دیں، لہذا یہاں بھی وہی ہوا۔ اس سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ مسلم کمیونیٹی کو چاہیے کہ وہ موجودہ حالات میں ایسا کوئی بھی اقدام نہ اٹھائیں جس سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور اگر کوئی معاملہ پیش آجائے تو قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش بھی نہ کریں بلکہ اسے قانونی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ظلم کتنا بھی بڑھ جائے، ایک دن مظلوم کو انصاف ضرور ملتا ہے۔
***

 

***

 اس پورے معاملے کے بعد عدالت میں داخل کردہ حلف نامہ میں، کرناٹک پولیس نے اعتراف کیا کہ ان کے افسران نے اسکول میں طلباء سے متعدد بار پوچھ گچھ کرتے ہوئے غلطی کی۔ ٹی این ایم اس وقت اسکول میں موجود تھا جب بیدر پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر بسویشور ہیرا کی قیادت میں تفتیشی افسران اسکول کے ڈرامے کو لے کر طلباء سے پوچھ گچھ کرنے کے لیے پانچ بار اسکول آئے تھے۔ پولیس نے اس بارے میں یہ سوالات کیے کہ ڈرامے کا اسکرپٹ کس نے لکھا اور اس کے لیے مکالموں کا انتخاب کس نے کیا وغیرہ۔ کرناٹک پولیس نے بعد میں اعتراف کیا کہ ان کے طریقہ تفتیش نے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ افسران یونیفارم میں تھے اور طلبا سے پوچھ گچھ کے دوران ہتھیاروں سے لیس تھے۔ پولیس کی طرف سے عدالت میں داخل کردہ حلف نامہ میں تفتیشی افسر بسویشور ہیرا کا نام لیا گیا اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش بھی کی گئی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جولائی تا 08 جولائی 2023