!عبادت گاہوں کے سروے کا انجام فسادات کے سوا کچھ نہیں

سنبھل میں مقامی انتظامیہ اور پولیس پر قانون شکنی اور زیادتیوں کے الزامات ، جھوٹے بیانات کے لیے متاثرین پر دباؤ

شہاب فضل، لکھنؤ

سپریم کورٹ سے پلیسیز آف ورشپ ایکٹ کے آئینی حیثیت کے تحفظ کی درخواست، سماعت پر سبھی کی نگاہیں
مسجدوں کے نیچے مندر کا محض دعویٰ۔ ہزاروں مندروں کے نیچے بودھ مٹھ ایک حقیقت!
سنبھل (اترپردیش) کی شاہی جامع مسجد کو متنازعہ بنانے کی کوششوں کے درمیان اجمیر (راجستھان) کی خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ اور بدایوں (اترپردیش) کی جامع مسجد میں بھی مندر ہونے کے دعوے کی عرضیاں مقامی عدالتوں میں داخل ہوچکی ہیں۔ چندوسی (سنبھل) کی مقامی عدالت یعنی سِول جج سینئر ڈویژن آدتیہ کمار کی ہدایت پر مسجد کے سروے کے دوران پتھراؤ، تشدد اور پولیس فائرنگ میں پانچ نوجوانوں کی ناگہانی موت نے عوام و خواص دونوں میں تشویش و ہیجان کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ملک کا فکرمند سنجیدہ طبقہ حیران ہے کہ آخر ہندتوا نواز عناصر اور تنظیمیں کس حد تک جانا چاہتی ہیں اور عدالتیں کیوں ایسی درخواستوں کو سماعت کے لیے قبول کررہی ہیں جن کا انجام سوائے امن عامہ کے بگاڑ، بلوے اور فساد کے کچھ نہیں ہونے والا ہے!
سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدر دشینت دوبے نے اس کا الزام سابق چیف جسٹس چندرچوڑ پر ڈالتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مئی 2022ء میں اپنے ایک فیصلے میں پلیسیز آف ورشپ (اسیشل پروویزنس) ایکٹ 1991 کی غلط تشریح کرتے ہوئے یہ کہا‘‘اگرچہ کہ عبادت گاہ ایکٹ 1991 ، پندرہ اگست 1947ء کے بعد ملک میں کسی عبادت گاہ کے مذہبی کردارو نوعیت کو بدلنے کی اجازت نہیں دیتا ،تاہم وہ عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو جاننے یا پتہ کرنے سے واضح طور سے نہیں روکتا’’۔
دی وائر پر مشہور صحافی کرن تھاپر سے گفتگو کرتے ہوئے مسٹر دوبے نے چندر چوڑ کے اس استدلال کو ‘بے ایمانی’سے تعبیر کیا اور کہاکہ جسٹس چندر چوڑ نے 2019 کے بابری مسجد معاملہ میں خود اپنے فیصلے کی تردید کی ہے جس میں انہوں نے عبادت گاہ ایکٹ 1991ء کی تعریف کی تھی اور یہ کہا تھا کہ اس سے آگے کے تنازعات اور جھگڑوں پر روک لگ جائے گی۔
دشینت دوبے نے اس انٹرویو میں ایک اہم بات یہ بھی کہی کہ ’’جسٹس چندر چوڑ کسی کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے، جس کی بنا پر انہوں نے یہ فیصلہ دیا اور بنارس میں گیان واپی مسجد کے سروے کی اجازت دی‘‘۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ملک کی انتظامی مشینری اور عدالتوں پر ہندتوا نواز طاقتوں کا شکنجہ کستا جارہا ہے جس میں عدالت عظمیٰ کے کچھ جج بھی شامل کار ہوسکتے ہیں،چنانچہ اندیشہ ہے کہ ملک میں ایسے معاملے یکے بعد دیگرے آئندہ بھی اٹھتے رہیں گے، اِلّا یہ کہ سپریم کورٹ مداخلت کرکے اس پر روک لگائے۔
سنبھل کے واقعہ کے بعد اجمیر شریف کا معاملہ سامنے آیا اورچند روز بعد بدایوں کی جامع مسجد پر بھی مقامی عدالت میں ایک کیس دائر ہوگیا جہاں نیل کنٹھ مہادیو مندر کا دعویٰ کرتے ہوئے پوجا کی اجازت دینے کی عرضی پیش کی گئی ہے۔ اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کو بھگوان شری سنکٹ موچک مہادیو کا مندر بتاکر وہاں پوجا کا حق دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی ) نے چندوسی کی مقامی عدالت میں اپنا جواب داخل کرتے ہوئے سنبھل شاہی مسجد کا مینجمنٹ اور کنٹرول اس کے ہاتھ میں دیے جانے کی درخواست کی ہے کیونکہ یہ محکمہ آثار قدیمہ سے تحفظ یافتہ مسجد ہے۔
جمعہ ۲۹ نومبر کو اپنا جواب داخل کرتے ہوئے اے ایس آئی نے یہ بھی کہا کہ مسجد مینجمنٹ کمیٹی نے آثار قدیمہ کی اس عمارت میں کئی تبدیلیاں کردی ہیں جو خلاف قانون ہے۔ اے ایس آئی کو مسجد کا معمول کا سروے کرنے سے بھی روکا جاتا ہے۔ مسجد کا کنٹرول اور مینجمنٹ پوری طرح سے اے ایس آئی کے پاس رہنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے فی الحال چندوسی کی مقامی عدالت میں سماعت پر روک لگاتے ہوئے مسجد کمیٹی کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے لیے کہا ہے، دوسری طرف حکومت اترپردیش کو غیرجانب داری سے کام لیتے ہوئے امن و امان برقرار رکھنے کی ہدایت دی ہے ۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجیو کمار کی دو رکنی بنچ نے سنبھل جامع مسجد کی سروے رپورٹ کو مہر بند رکھنے کے لیے بھی کہا ہے تاکہ اس کے مشمولات کے عام ہونے سے کوئی ہنگامہ نہ کھڑا ہو ۔
مسجد کمیٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں سینئر ایڈووکیٹ حذیفہ احمدی نے بتایا کہ ملک کی مختلف عدالتوں میں اس طرح کے دس مقدمات چل رہے ہیں اور ان سب میں ایک ہی طریقہ استدلال اپناتے ہوئے مندر گراکر مسجد تعمیر ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے فی الحال کیس کی میرٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لہٰذا یہ سوال اپنے آپ میں بہت اہم ہوجاتا ہے کہ کیا پلیسیز آف ورشپ یعنی عبادت گاہ ایکٹ 1991کی معنویت باقی رکھتے ہوئے سپریم کورٹ ، سابق چیف جسٹس چندر چوڑ کے فیصلے کو تبدیل کرے گی یا پھر ملک ایک طویل قانونی لڑائی کا انتظار کرے ؟
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پلیسیز آف ورشپ (اسیشل پروویزنس) ایکٹ 1991 کی آئینی حیثیت پر چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی دو رکنی بنچ نے جمعیۃ علمائے ہند کی عرضی کو فوری سماعت کے لیے قبول کرلیا ہے۔ چونکہ اس ایکٹ کے خلاف بھی کئی عرضیاں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں اس لیے ان پر فوری سماعت وقت کا تقاضا ہے۔ ان میں ایک عرضی بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وکیل اشونی اپادھیائے کی ہے۔
اس ایکٹ کے تحفظ اور عبادت گاہوں کے سروے روکنے کے لیے ایک اور عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے۔ پٹیشنر آلوک شرما اور پریہ مشرا نے اپنی عرضی میں ریاستوں، ہائی کورٹوں اور ٹرائل کورٹس کو پلیسیز آف ورشپ ایکٹ کے تعمیل کی ہدایت جاری کرنے کی اپیل عدالت عظمیٰ سے کی ہے ۔
یہ تو واضح ہے کہ سنبھل، بدایوں، اجمیر، بھوج شالہ (مدھیہ پردیش) یا ملک کے دیگر مقامات پر اس طرح کے معاملات کا فیصلہ عدالتوں میں قانون کی روشنی میں ہونا ہے لیکن کیا ان معاملات کو طول دینے سے امن عامہ درہم برہم نہیں ہوگا ؟ عام اور سنجیدہ حلقوں میں یہی سوال گشت کررہا ہے اور سپریم کورٹ سے یہ امید کی جارہی ہے کہ وہ اس مسئلہ کو جلد از جلد نپٹائے گا اور بابری مسجد کی طرح اس معاملہ کو لٹکا کر نہیں رکھے گا یا اتنا طول نہیں دے گا جس سے کسی کو سیاسی روٹی سینکنے کا موقع ملے اور امن و امان درہم ہونے پر عام لوگوں کی جانیں ضائع ہوں ۔
سنبھل میں خوف و دہشت کا کھیل
نچلی عدالتیں سروے کے جو احکام سنا رہی ہیں ان سے ملک میں خوف، بے چینی اور انارکی کا ماحول پیدا ہورہا ہے اور فرقہ پرست عناصر ہی نہیں بلکہ قانون کے رکھوالے بھی مسلمانوں کے ساتھ ‘دشمنوں’ جیسا سلوک کرنے لگے ہیں جو حکومت و اقتدار اور انتظامی مشینری پر فرقہ پرست عناصر کے قبضہ کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ سنبھل میں یہی کھیل چل رہا ہے۔ 24 نومبر کے تشدد اور پانچ نو جوانوں کی ہلاکت کے بعد شاہی جامع مسجد کے علاقہ کے بے شمار نوجوان اور بڑے گھروں سے غائب ہیں۔ پولیس نے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی ہے جس کے ثبوت میڈیا کیمروں میں قید ہیں۔
نیوز لانڈری کے صحافی اودھیش کمار نے سنبھل کے بلوہ کے بعد ضلع جوائنٹ ہسپتال میں بھرتی زخمیوں سے اور محلوں میں متاثرین کے گھر جاکر ان سے آن کیمرہ بات چیت کی۔ ہسپتال میں بھرتی عظیم نام کا ایک زخمی نوجوان آن ریکارڈ کہہ رہا ہے: ’’وہ (پولیس والے) کہہ رہے تھے کہ تمہیں جھوٹی تحریر دینی پڑے گی۔ یہ کہنا ہے کہ تمہیں پولیس کی گولی نہیں بلکہ بھیڑ سے کوئی پتھر لگا ہے۔ تمہارے بچنے کا ایک ہی چانس ہے، تم دس دس لوگوں کے نام سوچ لو‘‘۔
ایک دیگر زخمی حسن نے بیان دیا کہ اس کے گھر والوں پر یہ کہنے کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اسے گولی نہیں لگی ہے۔ ایک زخمی سے رپورٹر نے بات کی تو معلوم ہوا کہ تین دن تک اس کی ایکسرے رپورٹ نہیں آئی تھی۔ سنبھل میں اس طرح کی متعدد بے ضابطگیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں اور حکام اس معاملے میں خود کو پاک صاف کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ چونکہ سنبھل تحصیل میں باہری افراد کے داخلے پر انتظامیہ نے روک لگا رکھی ہے اس لیے معاملہ پوری طرح سے انتظامیہ کے ‘کنٹرول’ میں ہے، سو وہ جو چاہے کرے۔ متاثرین کے بیانوں سے صاف ہے کہ پولیس فرضی طور سے لوگوں کو پھنسانے کے لیے گرفتارشدگان یا زخمیوں پر دباؤ ڈال کر ان سے جھوٹے بیانات اور انگوٹھوں کے نشانات لے رہی ہے۔ ہسپتالوں میں بھرتی زخمیوں کے پیروں میں رسی یا بیڑیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ ہسپتال کے کمروں کے باہر پولیس تعینات ہے اور آنے جانے والوں پر نظر رکھ رہی ہے۔ حالانکہ پولیس گولی چلانے کی بات سے انکار کر رہی ہے۔ غیرجانب دارانہ جانچ پر ہی حقیقت کا پتہ چل سکے گا جو موجودہ پولیس اہلکاروں کے رہتے ہوئے ممکن نہیں ہے۔
عظیم کی بات چیت کی ویڈیو کو سماجوادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو نے ٹویٹ کیا تو عظیم اور ایک دیگر زخمی کو مرادآباد کے میڈیکل کالج میں شفٹ کر دیا گیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق پانچ مہلوکین میں نعیم غازی، محمد بلال، رومان خان، محمد کیف اور محمد ایان شامل ہیں۔ ان کے کنبہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے گولیاں ماریں۔ محمد کیف کے بڑے بھائی کو پولیس نے اٹھالیا، بھانجے کو مارا پیٹا ۔ بلوہ اور پتھراؤ کے مقام کی ویڈیو میں پولیس کو گولی مارنے کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، جب کہ پولیس گولیاں چلانے سے صاف انکار کررہی ہے اور یہ بھی نہیں مانتی کہ کوئی شخص پولیس کی گولی سے ہلاک ہوا ہے۔ پولیس مہلوکین کی تعداد بھی چار بتا رہی ہے، حالانکہ مقامی صحافی مہلوکین کے اہل خانہ سے مل کر ان کے بیانات لے چکے ہیں اور میڈیا میں ان کے نام بھی آچکے ہیں۔ سبھی مہلوکین کو دیر رات پولیس نے جلدی جلدی دفن کرادیا تاکہ کہیں اشتعال نہ پیدا ہو۔
سنبھل کے مقامی صحافی منور تابش نے بتایاکہ پولیس نے کئی نوعمر لڑکیوں اور لڑکوں کو گرفتار کیا ہے۔ انہیں قانونی مدد کا انتظار ہے ۔دینک بھاسکر اخبار کے لیے شیوانی سکسینہ نے اس پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے ۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ نو عمر لوگ اور خواتین پتھراؤ میں شامل تھے۔ ڈویژنل کمشنر انجنے کمار نے شیوانی سکسینہ کے سوال کے جواب میں کہا ’’ہم جانچ کررہے ہیں کیوں کہ کافی تعداد میں بچے اس میں شامل تھے۔ گرفتارشدہ خواتین پڑھی لکھی نہیں ہیں ۔ ان کا برین واش کیا گیا ہے، میں نے بھی دیکھا کہ ایک خاتون پتھر پھینک رہی تھی۔ قانونی کارروائی کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے‘‘۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ پولیس نے پتھراؤ کو قابو میں کرنے کے لیے طاقت کا بے جا استعمال کیا۔ سلمان نظامی نے ایکس پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ’’یہ ویشنودیوی، کٹرہ کے مظاہرین ہیں، روپ وے پروجیکٹ کے خلاف پتھر برسا رہے ہیں۔ زیادہ تر ہندو ہیں۔ دیکھیے ڈی آئی جی نے کتنی سنجیدگی اور مہارت کے ساتھ حالات کو قابو میں کیا اور فائرنگ نہیں کی۔ یو پی پولیس ان سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے‘‘۔
داراب فاروقی نے ہریانہ کے فتح آباد میں ایک بس جس میں اسکولی بچے موجود تھے اس پر کانوڑیوں کے پتھراؤ کی ویڈیو ایکس پر شیئر کرتے ہوئے لکھا: اس سال 31 جولائی کو انتہا پسند کانوڑیوں نے فتح آباد میں اسکولی بچوں کی بس پر پتھر برسائے جبکہ بچے بس میں سوار تھے۔پولیس نے پتھراؤ کرنے والوں پر ایک گولی بھی نہیں چلائی۔ لیکن جب مسلمانوں کی بات ہوتی ہے تو انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جیسا کہ سنبھل میں کیا گیا’’۔ ڈرنک جرنلسٹ کے نام سے ایک یوزر نے اسے شیئر کرتے ہوئے لکھا ’’یہ پتھر برسانے والے مراعات یافتہ ہیں۔ انہیں گرفتار کیا جائے گا نہ ان پر فائرنگ کی جائے گی۔ گولیاں صرف مسلمانوں کے لیے ہیں‘‘۔
جانچ کے محدود دائرے پر سوالیہ نشان
حکومت اتر پردیش نے تشدد کی تحقیقات کے لیے ایک تین رکنی جوڈیشیل کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے چار نکات پر اپنی تحقیقات اتوار کو شروع کردی: تحقیق کے چار نکات یہ ہیں: کیا تشدد کی سازش رچی گئی تھی؟ کیا پولیس سلامتی کا معقول بندوبست تھا؟ تشدد کن وجوہات سے اور کن حالات میں ہوا ؟ اور مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
سبکدوش جج دیویندر اروڑہ کی سربراہی والی اس کمیٹی میں سبکدوش آئی پی ایس اے کے جین اور سبکدوش آئی اے ایس امیت موہن شامل ہیں ۔ جانچ کے دائرے سے اصل نکات غائب ہیں۔ کیا کمیٹی ان سوالوں پر بھی تحقیقات کرے گی کہ پولیس فائرنگ میں یا پولیس کے اسلحہ سے موت ہوئی یا پھر غیرقانونی طفنچہ سے مہلوکین کو گولیاں لگیں؟ پوسٹ مارٹم کب ہوا اور کتنی دیر میں ہوا؟ کتنے زخمی ہوئے اور کیسے زخمی ہوئے؟ سِول جج نے ایڈووکیٹ کمشنر کو سروے رپورٹ داخل کرنے کے لیے 29 نومبر تک کا وقت دیا تھا تو پھر سروے کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ کیا مقامی سرکاری انتظامیہ نے مقامی مذہبی رہنماوؤں اور اصحاب رائے کو اعتماد میں لینے کے لیے کچھ کیا؟ کوئی امن کمیٹی تشکیل دی اور اس کی میٹنگ کی؟ 19 نومبر کو شام کے وقت سروے کرنے کی کیا عجلت تھی جبکہ کچھ دن بعد بھرپور روشنی میں دوبارہ سروے کرنا تھا؟ کہیں اس کا مقصد عوام کے ذہنوں میں شک و شبہات پیدا کرنا اور افواہوں کو ہوا دینا تو نہیں تھا؟ …. یہ تمام سوالات پوچھے جا رہے ہیں اور ان پر اگر تحقیق نہ ہوئی تو پھر متاثرین کو پولیس کے ذریعہ ڈرانے دھمکانے، گھروں میں توڑ پھوڑ کرنے اور زخمیوں سے ‘جھوٹے بیانات’ لینے کے الزامات کا کیا ہوگا جو میڈیا چینلوں کی رپورٹوں کے ذریعے سامنے آیا ہے ۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی دو عرضیاں داخل
پولیس کی زیادتیوں اور انتظامیہ کی من مانی کو جانچ کے دائرہ میں لانے اور متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) اور حضرت خواجہ غریب نواز ایسوسی ایشن کی جانب سے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی دو عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ایک عرضی میں ہائی کورٹ کے سبکدوش جج کی رہنمائی میں حکومت اترپردیش اور اس کے اہلکاروں بشمول ضلع مجسٹریٹ، پولیس کپتان و دیگر اہلکاروں کے کردار کی ایس آئی ٹی سے جانچ کرانے کی درخواست کی گئی ہے۔ اے پی سی آر کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ مسلم نوجوانوں کی ہلاکت اور وسیع پیمانے پر ان کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ پولیس زیادتیاں کررہی ہے جس کی سچائی ایس آئی ٹی جانچ سے ہی سامنے آئے گی۔ پولیس پر قانونی ضابطوں کی کھلی خلاف ورزی کے متعدد الزامات ہیں جن کی نشان دہی عرضی میں کی گئی ہے ۔ ویڈیو فوٹیج بھی بطور ثبوت جمع کیے گئے ہیں۔ دوسری عرضی میں ضلع مجسٹریٹ اور متعلقہ پولیس حکام کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔
معاملہ کا قانونی پہلو اور امن عامہ کا مسئلہ
سنبھل شاہی جامع مسجد انتظامیہ کمیٹی کے صدر ظفر علی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 19 نومبر کو شام کے وقت کورٹ کمشنر رمیش راگھو کی موجودگی میں مسجد کا سروے سکون سے ہوگیا تھا۔ اس وقت مقامی رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمٰن برق اور مقامی رکن اسمبلی اقبال محمود بھی موجود تھے جو نماز پڑھنے آئے ہوئے تھے۔ ظفر علی کے بقول 24 نومبر کو دوسرے سروے کی ضرورت نہیں تھی لیکن ضلع مجسٹریٹ نے مقامی عدالت سے اجازت لیے بغیر 24 نومبر کو سروے کرایا جس کے دوران حوض سے پانی نکالنے اور اس کا معائنہ کرتے وقت افواہیں پھیلیں کہ مسجد کی کھدائی ہو رہی ہے۔ لوگ جمع ہونے لگے، تعداد بڑھنے لگے، پتھراؤ ہوا، پولیس نے لاٹھی چارج کیا، آنسو گیس کے گولے داغے اور فائرنگ کی جس میں لوگوں کی جانیں گئیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سنبھل کے کورٹ ایسٹ (مشرق) محلہ میں واقع اس مسجد سے متصل کورٹ ویسٹ (مغرب) ہے۔ اس علاقہ میں حالات پوری طرح سے معمول پر نہیں آئے ہیں۔ شہر کے دیگر حصوں میں امن و چین ہے مگر مسجد کے علاقہ میں پولیس فورس موجود ہے، دکانیں پوری طرح سے بند ہیں، لوگوں کی دھڑ پکڑ ہو رہی ہے اور پولیس کی زیادتی کی شکایتیں سامنے آرہی ہیں ۔
مقامی ایم ایل اے اقبال محمود نے ہائی کورٹ کے موجودہ یا سبکدوش جج سے تشدد اور ہلاکتوں کی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ سچائی سامنے آسکے۔ ان کے بقول سرکار کے ماتحت مجسٹریٹی جانچ سے سچائی سامنے نہیں آئے گی۔ پولیس نے مقامی رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمٰن برق اور رکن اسمبلی اقبال محمود کے بیٹے سہیل اقبال پر بھی مقدمہ درج کیا ہے۔ ان پر بھیڑ کو بھڑکانے اور بلوہ کرانے کا الزام ہے۔ پولیس نے ظفر علی ایڈووکیٹ کو بھی دباؤمیں لینے کی کوشش کی۔ اس پورے معاملہ پر جب وہ میڈیا سے بات کررہے تھے تو پولیس جوان انہیں پریس کانفرنس سے اٹھا کر تھانہ لے گئے اور چند گھنٹوں بعد انہیں چھوڑ دیا۔
مندروں کے نیچے بودھ مٹھ!
بی ایس پی کے سابق رہنما، سابق ریاستی وزیر اور راشٹریہ شوشت سماج پارٹی کے صدر سوامی پرساد موریہ نے سنبھل واقعہ کے پس منظر میں یہ بیان دیا ’’اگر ہر مندر کو توڑ کر مسجد بنائی گئی ہے تو ہر بودھ مٹھ کو توڑ کر مندر بنائے گئے ہیں اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ کیدار ناتھ، بدری ناتھ اور جگن ناتھ پوری بودھ مٹھ تھے۔ ملک کی آزادی کے بعد 1947ء میں جو مذہبی مقامات جیسے تھے ویسے ہی مانے جائیں‘‘۔ مسٹر موریہ نے کہاکہ سنبھل میں سرکار نے جان بوجھ کر بلوہ کرایا ہے۔ حکومت نے بلوہ اس لیے کرایا تاکہ بنیادی مسائل جیسے کہ بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کے مسائل اور امن و قانون کی بگڑتی صورت حال پر گفتگو نہ ہو، ای وی ایم کے غلط استعمال کے تذکرے نہ ہوں، حکومت و انتظامیہ کی من مانی پر کوئی سوال نہ کرے اس لیے سنبھل میں پولیس زیادتی کرائی جارہی ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر نے کہاکہ بھارت کی تاریخ بدھ مت اور برہمنیت کے درمیان زبردست تصادم کی تاریخ ہے۔انہوں نے بھی یہ سوال کیا کہ اگر بودھوں نے ہندو مندروں کے نیچے بودھ عبادت گاہوں کا دعویٰ شروع کردیا تو کیا ہوگا؟ اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
اسی طرح ہنس راج مینا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کیا ’’ملک میں جتنی بھی قدیم مورتیاں ہیں ان کا سروے ہونا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ ننانوے فیصد مورتیاں بھگوان بدھ کی ہی نکلیں گی۔ یہ تاریخ کی سچائی کو سامنے لانے کا وقت ہے‘‘۔
یوٹیوب چینل دیش بھکت پر آکاش بنرجی نے بھی اسی پہلو سے ایک شو کیا اور بتایا کہ پٹنہ، سانچی، متھرا سمیت متعدد مقامات پر بودھ وہار گرائے گئے اور انہیں مندروں میں تبدیل کیا گیا ۔اگر اس سب پر کیس ہونے لگے تو کیا نتیجہ نکلے گا!۔
دوسری جانب سوشل میڈیا ایکس پر منیش سنگھ نے لکھا کہ سنبھل کا خون جسٹس چندر چوڑ کے سر پر ہے۔
معروف ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے اپنے یوٹیوب چینل پر سنبھل جامع مسجد کے سلسلہ میں سن 1877ء کی عدالتی چارہ جوئی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس میں مقامی عدالت نے چھیدا سنگھ نام کے مدعی کے دعوے کو یکسر خارج کردیا تھا۔ جج نے خود 1877ء میں مسجد کا معائنہ کیا اور تمام ثبوتوں کے ذاتی مشاہدہ اور گواہوں سے جرح کے بعد حتمی طور سے یہ فیصلہ دیا تھا کہ یہ عمارت مسجد ہے اور پوری طرح سے مسلمانوں کے لیے مسجد کے طور پر استعمال ہورہی ہے، بعد میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بھی خارج کردیا تھا۔
اسی طرح تاریخ داں ڈاکٹر روچیکا شرما نے اپنے یوٹیوب چینل‘‘ آئی شیڈو اینڈ اتیہاس وِد ڈاکٹر روچیکا شرما’’ پر جامع مسجد کی تاریخ پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سنبھل شاہی مسجد کے مندر ہونے کی اپیل داخل کرنے والے ہری شنکر جین کے وکیل اور ان کے بیٹے وشنو شنکر جین اس سے قبل 2013ء میں لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد، 2015ء میں تاج محل، 2020ء میں متھرا کرشن بھومی اور 2021ء میں گیان واپی کے کیس متعلقہ مقامی عدالتوں میں داخل کرچکے ہیں ۔
سنبھل شاہی جامع مسجد کے سلسلہ میں ہری شنکر جین کی اپیل میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو بھی پارٹی بنایا گیا ہے اور مسجد کو اے ایس آئی کی تحویل میں دینے کی اپیل کی گئی ہے۔
سیاسی رہنماوؤں کے سنبھل جانے پر روک!
اسی دوران 30 نومبر کو یو پی اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر ماتا پرساد پانڈے کی قیادت میں سماجوادی پارٹی کے وفد کو سنبھل جانے سے روک دیا گیا ۔پولیس نے پارٹی کے کچھ رہنماوؤں کو ان کے گھروں پر تو کچھ کو راستے میں ہی اور انہیں سنبھل نہیں جانے دیا ۔عوامی نمائندوں یا باہری افراد کے داخلے کو روکنے کے لیے دس دسمبر تک سنبھل میں دفعہ 163 نافذ ہے ۔
سنبھل کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمٰن برق نے کہاکہ تشدد کا واقعہ سازش کے تحت ہوا ہے ۔ انہوں نے آن ریکارڈ کہاکہ پولیس نے ناجائز اسلحوں سے گولی چلائی اور لوگوں کی جان لی۔’’مسلمانوں کو نشانہ بناکر ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جارہی ہے۔ مقامی پولیس و ضلع انتظامیہ اپنی کرتوتوں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے‘‘۔ مسٹر برق نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس معاملہ میں شامل ضلعی و پولیس حکام کو معطل کیا جائے تاکہ غیر جانب داری سے پورے واقعہ کی جانچ ہو سکے۔ ستائیس سو افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے ہزاروں لوگوں کو ٹارچر اور پریشان کیا جارہا ہے۔
سماجوادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری رام گوپال یادو نے کہا کہ سنبھل میں ضلع اہلکار دہشت پیدا کر رہے ہیں۔ ان حالات میں متاثرہ فریقوں کا بیان کیسے ہوپائے گا؟ انہوں نے کہا کہ موجودہ اہلکاروں کا تبادلہ ہونا چاہیے۔ جانچ کمیٹی کے آنے سے پہلے ایس پی اور ڈی ایم ہٹا دیے جائیں۔ ذمہ دار پولیس سرکل افسر کو بھی وہاں سے ہٹایا جانا چاہیے۔
کیرانہ کی رکن پارلیمنٹ اقراء حسن نے کہا کہ حکومت اترپردیش نے نہتوں پر گولیاں چلائیں اور بھیڑ کو روکنے کے لیے معقول انتظامات نہیں کیے۔ اقراء حسن نے سوال کیا کہ سروے ٹیم کے ساتھ وہ کون لوگ تھے جو نعرے لگا کر لوگوں کو بھڑکا رہے تھے اور اب تک ان پر کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟
سماجوادی پارٹی کے لیڈر عبدالحفیظ گاندھی نے سپریم کورٹ سے پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کے آئینی جواز کی تصدیق کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اتر پردیش کے سابق ڈی جی پی وبھوتی نرائن رائے نے کہا کہ یہ تشدد اتر پردیش کی حکومت نے کرایا ہے اور اس کے پیچھے سازش ہے۔
کانگریس پارٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ یوپی کے سنبھل میں ہونے والے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ آج اتر پردیش کا کوئی بھی شہری محفوظ نہیں ہے۔‘‘ سنبھل میں جس طرح سے مظاہرین پر راست فائرنگ کرنے کے ویڈیوز سامنے آئے ہیں وہ وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ اور بی جے پی اور آر ایس ایس کی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے’’۔
کانگریس کے قومی سکریٹری شاہ نواز عالم نے کہاکہ سنبھل تشدد کے لیے حکومت اترپردیش اور عدالت کا آئین مخالف رویہ ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سِول جج کا سروے کا حکم غیر قانونی ہے۔‘‘ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ آئین کے بجائے بی جے پی حکومت کے اشارے پر کام کر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں عوام میں یہ پیغام جانا فطری ہے کہ حکومت عدالت کے ایک حصہ اور پولیس کی طاقت سے غیر قانونی طریقہ سے ان کی مسجد کو چھیننا چاہتی ہے’’۔
شاہ نواز عالم نے کہاکہ پلیسیز آف ورشپ ایکٹ 1991 کے سلسلہ میں کانگریس پارٹی کی جانب سے آئندہ چھ دسمبر سے سولہ دنوں کی ایک بیداری مہم چلائے گی تاکہ لوگ اس ایکٹ کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔
سنجیدہ حلقوں کی فکر مندی اور ’جوڈیشیل کرپشن‘
سپریم کورٹ کے ایک وکیل بلراج ملک کے بقول چندوسی (سنبھل) کی مقامی عدالت نے ایکس پارٹی فیصلہ دیا، یعنی دوسرے فریق کو سنے بغیر سروے کا حکم دیا۔ ایسا معاملہ جو لوگوں کے مذہبی جذبات سے جڑا ہو، عوام میں غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہوں، افواہیں پھیل سکتی ہوں اور امن عامہ کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہو، ایسے معاملوں میں جلد بازی میں فیصلے نہیں دیے جاتے یا جلد بازی بھرے اقدامات نہیں کیے جاتے۔ امن کمیٹی کی میٹنگیں کی جاتی ہیں، متعلقہ فریقوں میں سے سبھی کو ساتھ لیا جاتا ہے تاکہ افواہیں اور غلط فہمیاں نہ پھیلیں۔ بلراج ملک کے بقول چندوسی کی مقامی عدالت کے حکم پر جس طرح سے جلد بازی میں عمل درآمد ہوا اسے عدالتی زبان میں جوڈیشیل کرپشن کہا جاتا ہے، جس پر روک لگنا ضروری ہے۔
بلراج ملک کا یہ بھی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو عبادت گاہوں کے سروے کے سبھی معاملوں کو اپنے پاس طلب کر لینا چاہیے تھا، سنبھل کی عدالت میں سماعت کو روکنا کافی نہیں۔ اس پر سپریم کورٹ کو آئندہ غور کرنا چاہیے، کیونکہ آستھا کے نام پر ملک میں جگہ جگہ امن و قانون کی صورت حال کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
مسلم قیادت کا امتحان
جہاں تک قانون اور عدالتی چارہ جوئی کی بات ہے تو کیس کو مضبوطی کے ساتھ لڑکر ہی اپنا جائز حق حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ملک کے ہندو عوام، ملک اور سماج کے لیے اس کے مضمرات کا احساس کر چکے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سنبھل کے سانحہ کے بعد وسیع پیمانے پر برادران وطن سامنے آئے ہیں اور وہ اس ‘نفرتی کھیل’ کی مذمت ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ عملی اقدامات کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ شاید یہی امید کی کرن ہے۔
سنبھل کے مقامی باشندے اور قلم کار اویس سنبھلی نے اپنے احساسات بیان کرتے ہوئے کہا کہ سنبھل کے مسلمانوں کو رہنمائی، دلجوئی اور ڈھارس کی ضرورت ہے۔ ہنگامی وقت میں قیادت کو غائب نہیں ہونا چاہیے بلکہ ڈٹ کر لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرنی چاہیے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک شخص نے لکھا کہ’’سکھوں نے 1984ء کے ایک فساد سے جو سیکھا وہ شاید مسلمان ہزاروں فسادات کے باوجود بھی نہیں سیکھ پا رہے ہیں۔ سکھوں نے اس کا حل سیاست سے نہیں نکالا بلکہ قانون کی لڑائی لڑی اور سماجی خدمت کا راستہ بھی منتخب کیا۔ ضرورت مندوں کے لیے لنگر لگائے۔ انہوں نے اس محاذ آرائی میں یہ کبھی نہیں سوچا کہ ان کے ساتھ کون کھڑا ہے کون نہیں ہے۔ یکسوئی کے ساتھ عدالت میں لڑائی لڑی اور جگدیش ٹائٹلر، سجّن کمار اور ایچ کے ایل بھگت جیسے بڑے کانگریسی رہنماوؤں کا سیاسی کریئر ختم کردیا‘‘۔ہاں مسلمانوں کا معاملہ سکھوں سے ذرا مختلف ہے کیوں کہ ان کے خلاف نفرت کا زہر بویا جا رہا ہے جو پہلے اندر تھا اور اب اُبل کر باہر آگیا ہے، جس میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے عہدوں پر فائز لوگ بھی شامل ہیں اور کھل کر نفرت کی کھیتی کر رہے ہیں۔
’’سارے مسائل کا حل سیاست میں نہیں ہے کیوں کہ سیاست کمزور اور بکھرے ہوئے لوگوں کے ساتھ کبھی انصاف نہیں کرتی، اس لیے مسجد و مدرسہ کے ساتھ اپنی وکلاء کی ٹیم کو بھی چندہ دینا شروع کیجیے اور ان سے اپنی لڑائی لڑنا شروع کیجیے۔ سماجی خدمت کے میدان میں مسلمان پیچھے نہیں ہیں، تاہم اس کا دائرہ مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کی حکم رانی والی ریاستوں میں نفرتی عناصر کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے لیکن وکیلوں کی اگر مضبوط ٹیم ہوگی تو عدالتوں میں سماعت ہوگی۔کچھ معاملوں میں ہوسکتا ہے کہ کامیابی نہ ملے یا کامیابی ملنے میں وقت لگے لیکن اگر حکمت و استقامت سے کام لیں گے اور اپنی پوری توانائی سیاست میں جھونکنے کے بجائے عدالت و قانون کی راہ پر لگائیں گے تو ایک نہ ایک دن کامیابی ضرور ملے گی‘‘۔
مسلمانوں کے لیے برادران وطن کا فکر مند طبقہ سوشل میڈیا پر کھل کر لکھ رہا ہے کہ سماجی خدمت، قانون اور تعلیم، ان تین محاذوں پر مسلمانوں کو منظم طریقہ سے اور استقلال کے ساتھ کام کرنا ہوگا تاکہ کوئی پولیس اہلکار اور نفرتی گروہ کا فرد یہ طعنہ نہ دے سکے کہ ‘ان جاہلوں کی اوقات نہیں جو ہمیں مار سکیں’۔
یہ ایک بڑی لڑائی ہے اور مسلمانوں کو اپنے معاملات کو سڑکوں پر لے جانے یا جذبات میں بہہ جانے کے بجائے عدالتوں کے سہارے سے ہی لڑنا ہوگا اور قانون دانوں کی جماعت کھڑی کرکے سماجی سطح پر غریب اور کمزور مسلمانوں میں بیداری لانی ہوگی اور ان کے اندر امید کی کرن پیدا کرنی ہوگی۔ یقیناً یہ مشکل لڑائی بھارت میں مسلم قیادت اور دانشوروں کے لیے ایک سخت امتحان ثابت ہونے والی ہے ۔
جماعت اسلامی ہند کے وفد کا سنبھل دورہ
جماعت اسلامی ہند کے وفد نے سنبھل کا دورہ کیا اور متاثرین سے اظہار یک جہتی اور خیر سگالی ملاقات کی۔ وفد نے شہر کے دینی و ملی ذمہ داران سے مل کر شہر کے حالات اور 24 نومبر کو جو کچھ ہوا تھا اس کی تفصیلات معلوم کیں۔ وفد نے مہلوکین کے ورثاء سے مل کر صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین کی اور ان کو ہر قسم کی قانونی مدد و رہنمائی کی یقین دہانی کرائی۔ جماعت کا وفد شہر کے با اثر اور جہد کاروں سے اور وکلا سے بھی ملا جو ان مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں یا قانونی کارروائی کے لیے سرگرم ہیں۔ وفد کی ملاقات مسجد کی نئی کمیٹی اور بعض سابقہ کمیٹی کے ممبروں سے بھی ہوئی، وفد نے تلقین کی کہ کسی بھی طرح کا اختلاف ہمیں کمزور کرے گا اور مخالفین کو فائدہ پہنچائے گا۔
سکریٹری ملی امور جناب شفیع مدنی کی قیادت میں جانے والے مذکورہ وفد میں امیر حلقہ یو پی مغرب جناب ضمیر الحسن فلاحی، جناب واثق ندیم، جناب انعام الرحمن، جناب محمد سلمان اور حلقہ و مقام کے دیگر کئی ذمہ دار شریک تھے۔
دوسری طرف مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے کہا ہے کہ سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے سروے کی آڑ میں پانچ بے گناہ مسلم نوجوانوں کو یو پی پولیس نے جس طرح گولیوں کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا، وہ انتہائی المناک اورنا قابل برداشت ہے۔ مجرموں کو کسی بھی قیمت پر بخشا نہیں جانا چاہیے۔ صدر مشاورت فیروز احمد ایڈووکیٹ نے واردات کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات کے ذریعے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی حکومت، پولیس کے اعلیٰ اہلکار اور زیریں عدالتیں بھی قانون کا دہرا پیمانہ اپنا رہی ہیں جس سے ملک اور ریاست میں قانون کی حکم رانی اور جمہوریت کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024