!’ای ‘اور’ کیو‘ کامرس کا عروج، پرچون فروشوں کی موت

چھوٹے دکان داروں کا مستقبل: آن لائن تجارت اور ڈسکاؤنٹ کی بے رحم دوڑ میں کہیں کھو رہا ہے

0

زعیم الدین احمد حیدرآباد

زندگی کی بقا یا دولت کا جنون؟ مونوپولی کے کھیل کو سمجھنا ضروری
ہمارے ملک میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے کاروبار کرتے ہیں، کوئی گروسری اسٹور لگاتا ہے جو اپنے پاس پڑوس میں ہی ہوتی ہے، کوئی میوہ فروشی کا کاروبار کرتا ہے، کوئی سبزیاں فروخت کرتا ہے وغیرہ۔ یہ تمام جتنے بھی کاروبار ہیں جن کی دکانیں ہم اپنے پاس پڑوس میں دیکھتے ہیں، چھوٹے کاروبار کہلاتے ہیں۔ لیکن آج ان کی صورت حال کیا ہے؟ خاص طور پر کریانے کی دکانوں کی کیا صورت حال ہے، اس پر آج گفتگو کریں گے۔ ہمارے ملک میں تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ کریانے کی دکانیں ہیں، ان میں سے زیادہ تر دکانیں ٹائیر ٹو اور ٹائیر تھری اسٹیس یعنی دوسرے اور تیسرے درجے کے شہروں میں ہی واقع ہیں، میٹرو شہروں میں کم پائے جاتے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً دو لاکھ کریانے کی دکانیں بند ہوئی ہیں، ان میں سے صرف میٹرو شہروں میں بند ہونے والی دوکانوں کی تعداد نوے ہزار ہے، یعنی تقریباً آدھی دکانیں میٹرو شہروں میں ہی بند ہوئی ہیں، پھر اسی طرح ٹائیر ٹو (دوسرے درجے کے) شہروں میں ساٹھ ہزار اور ٹائیر تھری (تیسرے درجے کے) شہروں میں پچاس ہزار کریانے کی دکانیں بند ہوئیں ہیں۔ یہ وہ دکانیں ہیں جو رجسٹر شدہ ہیں، جبکہ کروڑوں غیر رجسٹرڈ دکانیں ہیں جن کا کوئی حساب نہیں ہے، ان چھوٹی دکانوں کے مالکین کی زندگیاں ان ہی دکانوں سے ہونے والی آمدنی پر منحصر ہیں، یہ اعدادوشمار آل انڈیا کنزیومر پروڈکس، ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کے پیش کردہ ہیں۔ چھوٹی کریانے کی دکانیں بند ہونے کی کیا وجوہات ہیں یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
ان دکانوں کے بند ہونے کی سب سے اہم وجہ ای کامرس یا کیو کامرس (کوئیک کامرس) جیسی تجارتی کمپنیوں کا میدان میں آنا ہے۔ آپ ان سے گھر بیٹھے سامان منگوا سکتے ہیں، جیسے بلنک ایٹ، زیپٹو وغیرہ، اور یہ کمپنیاں یہ دعویٰ بھی کرتی ہیں کہ دس منٹ کے اندر وہ سامان آپ کے گھر تک پہنچا دیں گی، اور واقعتاً ایسا ہوتا بھی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی دکانیں وال مارٹ، ریلائنس، ڈی مارٹ جیسی دسیوں کمپنیاں میدان میں آچکی ہیں، یہ کمپنیاں گروسری سے لے کر سبزیاں، پھل پلاسٹک سے بنے سامان وغیرہ ہر چیز فروخت کرتی ہیں۔ جو لوگ ان بڑی بڑی دکانوں سے خریداری کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہاں سامان سستا ملتا ہے اور ایک ہی جگہ سارا سامان مل جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان بڑی بڑی دکانوں میں لوگوں کا اژدھام لگا رہتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے چیزیں مفت میں مل رہی ہوں، گھنٹوں خریداری کرتے ہیں اور قیمت ادا کرنے والی لائن میں بھی گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔
کیو کامرس والی کمپنیوں کا معاملہ تو بالکل مختلف ہے، گھر بیٹھے سامان پانچ سے دس منٹ کے اندر پہنچ جاتا ہے، فون سے جیسے ہی آرڈر کیا ڈیلوری بوائے سامان لے کر گھر پر حاضر۔ ان کمپنی والوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ڈیلوری بوائز بھی نہیں ہوں گے بلکہ ان کی جگہ ڈرونوں کا استعمال ہو گا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر ان میں کام کرنے والے ملازمین کا کیا بنے گا؟ کیا وہ بے روزگار ہو جائیں گے؟ کیا جس طرح ای کامرس، کیو کامرس اور بڑے بڑے کارپوریٹ ریٹیل بزنس نے چھوٹے کریاانے کی دکانوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے اسی طرح مستقبل قریب میں ڈرون ان ملازمین کی بھی چھٹی کروادے گا؟
ایک کریانے کی دکان بند ہونے کا مطلب ہے ایک پورے خاندان کا روزگار سے محروم ہوجانا ہے، ایک چھوٹی سی دکان میں پورا خاندان کام کرتا ہے، اگر وہ دکان تھوڑی سی بڑی ہوگی تو اس میں ایک نوکر بھی ہوتا ہے، اس طرح کسی دکان کا بند ہونے کا مطلب دو خاندانوں کا بے روزگار ہو جانا ہے۔
ہمارے ملک میں اتنی بڑی تعداد میں یعنی ایک کروڑ تیس لاکھ کرانے کی دکانیں کیوں ہیں؟ یہ بھی ایک طرح کی ملازمت ہی ہے، ایسے افراد جنہیں روزگار یا کسی کمپنی یا صنعت میں ملازمت کے مواقع نہیں ملتے ہیں وہ کچھ رقم جمع کر کے ایک چھوٹی سی کریانے کی دکان شروع کرتے ہیں تاکہ گزر بسر ہو سکے۔ دراصل یہ دکانیں بگڑی ہوئی معاشی صورت حال کی عکاسی کرتی ہیں، ملک میں بے روزگاری اور اپنی صلاحیتوں کا کسی صنعت یا کمپنی میں استعمال کرنے کا موقع نہ ملنے کی صورت میں یہ لوگ چھوٹی سی دکان لگا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں زراعت کے بعد سب سے زیادہ معاشی سرگرمیاں انہیں کریانے کی دکانوں میں ہوتی ہیں۔ یہ دکانیں ملک میں زراعت کے بعد ملازمت کا دوسرا سب سے بڑا کاروباری ذریعہ ہیں۔
ایک طرف ان چھوٹے دکان داروں کے روزگار کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف متوسط طبقے کی سہولتوں کا معاملہ ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی مہمان آ جائے اور گھر میں چائے کی پتی نہ ہو یا پھل وغیرہ منگوانا ہو تو آپ بلنک ایٹ یا زیپٹو سے پانچ منٹ کے اندر منگوا سکتے ہیں، مہمان سے گفتگو کے دوران ہی سامان آجائے گا، مہمان گھر پر ہے اور آپ سامان لانے کے لیے باہر جا رہے ہیں، تو یہ دونوں کے لیے تکلیف کا باعث بنے گا، اسی لیے لوگ سہولت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی کریانے کی دکانوں سے لوگ سامان خریدنے کے بجائے کیو کامرس کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ یہ سب سے بڑی وجہ ہے کریانے کی دکانیں بند ہونے کی۔ اندازہ لگائیے کہ چند دن پہلے گزرے ہوئے تہواروں کے سیزن میں ان کیو کامرس سے کنزیومر پروٹیکس کی سیلس میں پچاس فیصد کا گروتھ ہوا ہے، وہیں روایتی کریانے کی دکانوں کی سیل پچاس فیصد کم ہوئی ہے۔ کیو کامرس وغیرہ کے سیل میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ڈسکاؤنٹ ہے، لوگ ڈسکاؤنٹ سے راغب ہوتے ہیں، ایک چیز پر دوسری مفت، جو چیز کریانے کی دکان میں پچاس روپے کی ہوگی وہ کیو کامرس میں چالیس روپے کی مل جائے گی، اس کی کوالٹی، اس کا وزن واقعتاً کتنا ہوتا ہے اس پر لوگ تشویش ظاہر کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ڈسکاؤنٹ کی وجہ سے اس جانب راغب ہوتے ہیں۔ ای کامرس اور کیو کامرس کمپنیاں کس طرح ڈسکاؤنٹ دے پاتی ہیں اور اتنا ڈسکاؤنٹ دینے کے باوجود کیا وہ فائدے میں رہتی ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
لوگوں کو شاید اس بات کا علم نہیں ہوگا کہ ان میں سے اکثر کمپنیاں گھاٹے میں ہیں، بڑی بڑی کمپنیاں کروڑوں روپے کے نقصان میں چل رہی ہیں، پھر وہ کس طرح ڈیپ ڈسکاؤنٹ دیتی ہیں اور کیوں اتنے کم داموں پر سامان بیچتی ہیں؟ وہ ایسا اس لیے کرتی ہیں تاکہ وہ اپنا کسٹمر بیس بڑھا سکیں، جب کسٹمر بیس بڑھا جائے گا تو خود بہ خود اس کمپنی کی برانڈ ویلیو بڑھ جائے گا، اسی کسٹمر بیس کی بنیاد پر برانڈ ویلیو طے کی جاتی ہے اور پھر کسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کو یہ لوگ اپنی کمپنی بیچ دیتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ایک اور اہم وجہ ڈیپ ڈسکاؤنٹ کی یہ بھی ہے کہ جب کسٹمر بیس بڑھ جائے گا تو اشیاء کی فروخت زیادہ ہوگی جس پر فائدہ کم لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک کریانے کی دکان میں ایک دن میں کوئی برانڈ پچاس گاہک خریدتے ہیں جس پر وہ پانچ روپے فائدہ لے رہا ہو تو قیمت نسبتاً زیادہ ہی رہےگی، جبکہ کیو کامرس کے ذریعے وہی برانڈ ایک لاکھ گاہک خریدتے ہیں اور زیادہ فروخت ہونے کی وجہ سے وہ محض ایک ہی روپیہ فائدہ لیتا ہے مگر تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے اتنا فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ ایک کریانے کی دکان کے مالک کو اتنا فائدہ حاصل کرنے کے لیے شاید مہینوں لگ جائیں گے۔ جب برانڈ ویلیو بڑھ جائے گی تو مونوپولی پیدا ہو جائے گی، اس کو پریڈیٹری کراسنگ کہا جاتا ہے، یعنی قیمت اتنی کم کر دو کہ مد مقابل اس کو برداشت نہ کر سکے، بالآخر وہ مارکیٹ سے ہی غائب ہو جائے۔
ایسی صورت میں گاہک تو وہیں جائیں گے جہاں قیمتیں کم ہوں گی، پھر کیا کیا جائے؟ کیا گاہک زیادہ دام دے کر خریدیں یا پھر وہ کیوں کم قیمت پر ملنے والی چیز نہ خریدیں؟ پھر نفس مسئلہ یہ ہے کہ کریانے کی دکانوں کا کیا بنے گا؟ یہ اہم سوالات ہیں جنہیں حل کرنا ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ قیمتوں پر کنٹرول کرے، اس بات کو یقینی بنائے کہ اشیاء کی طے شدہ قیمت سے زیادہ کوئی نہ بیچے اور نہ اصل قیمت سے کم کوئی بیچے۔ اس سے معیشت کو بہت نقصان پہنچتا ہے، اس سے بازار میں عدم توازن پیدا ہوگا، پریڈیٹری پرائسنگ سے مونوپولی کا بازار گرم ہوگا، نتیجے میں قیمتیں بڑھیں گی۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ یہ لوگ پہلے قیمتیں گھٹا کر فروخت کرتے ہیں پھر جب کسٹمر بیس بڑھ جاتا ہے تو قیمتیں اچانک بڑھا دیتے ہیں، جیو کمپنی اس کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کو توازن برقرار رکھنے کے لیے قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنا ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان دکان داروں کے لیے انفراسٹرکچر فراہم کرے، جس طرح کارپوریٹ کمپنیوں کا قرض معاف کیا جاتا ہے اسی طرح چھوٹے دکان داروں کی بھی مدد کرے۔ اس ضمن ہم پر بھی کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ ہم کم قیمت پر سامان خریدنے کی جستجو میں ان چھوٹے دکان داروں کو نہ بھولیں، کیونکہ ان بے چاروں کی زندگی کا انحصار اسی پر ہوتا ہے، اس سے جو کمائی ہوتی ہے اسی سے ان کا گھر چلتا ہے۔ جبکہ ای کامرس، کیو کامرس یا کارپوریٹ دکانوں کا معاملہ ان سے مختلف ہوتا ہے، وہ اپنی ویلیو بڑھانے اور دولت جمع کرنے کے لیے کاروبار کرتے ہیں، اس فرق کو ہمیں محسوس کرنا ہوگا۔ ایک طرف زندگی کی بقا ہے تو دوسری طرف دولت کمانے کا جنون، اس فرق کو ہمیں ملحوظ رکھنا ہوگا۔
***

 

***

 گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً دو لاکھ کریانے کی دکانیں بند ہوئی ہیں، ان میں سے صرف میٹرو شہروں میں بند ہونے والی دوکانوں کی تعداد نوے ہزار ہے، یعنی تقریباً آدھی دکانیں میٹرو شہروں میں ہی بند ہوئی ہیں، پھر اسی طرح ٹائیر ٹو (دوسرے درجے کے) شہروں میں ساٹھ ہزار اور ٹائیر تھری (تیسرے درجے کے) شہروں میں پچاس ہزار کریانے کی دکانیں بند ہوئیں ہیں۔ یہ وہ دکانیں ہیں جو رجسٹر شدہ ہیں، جبکہ کروڑوں غیر رجسٹرڈ دکانیں ہیں جن کا کوئی حساب نہیں ہے، ان چھوٹی دکانوں کے مالکین کی زندگیاں ان ہی دکانوں سے ہونے والی آمدنی پر منحصر ہیں، یہ اعدادوشمار آل انڈیا کنزیومر پروڈکس، ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کے پیش کردہ ہیں۔ چھوٹی کرانے کی دکانیں بند ہونے کی کیا وجوہات ہیں یہ جاننا بہت ضروری ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024