
حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کی 400 ایکڑ زمین کا تنازعہ
کیا یہ صرف زمین کا مسئلہ ہے یا ایک نظریے سے غداری کی داستان؟
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
علیحدہ ریاست کی مستقل جدوجہد کے بعد اسی کے مفادات سے کھلواڑ۔حکومت سوالات کے گھیرے میں
31 مارچ کو رات کے اندھیرے میں بلڈوزر کی ایک بڑی تعداد پولیس کی نفری میں حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہوئی تاکہ چار سو ایکڑ جنگلاتی زمین کو صاف کیا جاسکے، جیسے ہی بلڈوزر جھاڑوں کو کاٹنے کے لیے داخل ہوئے تو یونیورسٹی کے طلبہ اور پولیس کے درمیان مباحثہ شروع ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بحث کشیدگی کا رخ اختیار کرگئی اور پولیس احتجاجی طلبہ کو وہاں سے گرفتار کر کے لے گئی۔ حیدرآباد یونیورسٹی کی اس چار سو ایکڑ زمین کا معاملہ تلنگانہ میں متنازعہ سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس کی اہمیت کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس کے تاریخی پس منظر اور اس کے موجودہ مضمرات دونوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
تاریخی پس منظر
1970 کی دہائی میں جب علیحدہ تلنگانہ کا ایجی ٹیشن اپنے عروج کے پر تھا، 1969 میں ضلع کھمم سے شروع ہونے والی یہ تحریک تیزی سے پوری ریاست میں پھیل گئی۔ سینکڑوں طلبہ نے علیحدہ تلنگانہ ریاست اور تلنگانہ کے مفادات کے تحفظ کی لڑائی میں اپنی جانیں قربان کیں۔ اس ایجی ٹشن کا ایک اہم مطالبہ 1956 میں کیا گیا جنٹلمینز ایگریمنٹ کا نفاذ بھی تھا۔
1956 کے جنٹلمین ایگریمنٹ ایک ایسا معاہدہ تھا جو تلنگانہ اور آندھرا کے اتحاد کے وقت طے پایا تھا اور اس معاہدے کی خلاف ورزی نے ہی تلنگانہ تحریک کو جنم دیا۔
1948 میں حیدرآباد ریاست، جس میں تلنگانہ شامل تھا، انڈین یونین میں شامل کرلیا گیا۔ اسی دوران 1953 میں آندھرا کا علاقہ، ریاست مدراس سے الگ ہو کر علیحدہ ریاست بنا۔
1956 میں ایک منصوبہ کے تحت آندھرا اور تلنگانہ کو ملا کر ایک نئی ریاست آندھرا پردیش بنائی گئی، اس وقت تک یہ دو ریاستیں علیحدہ ہی تھیں۔ لیکن تلنگانہ کی عوام کو خدشہ تھا کہ آندھرا کے لوگ ان کی زمینیں، پانی، روزگار اور ثقافت پر قبضہ کر لیں گے، حیدرآباد جیسے ترقی یافتہ شہر میں غلبہ حاصل کر لیں گے۔ اسی لیے 1956 میں دونوں خطوں کے لیڈروں کے درمیان ایک زبانی معاہدہ ہوا، اسی معاہدے کو "جنٹلمین ایگریمنٹ” کہا جاتا ہے۔
جنٹلمین ایگریمنٹ کے اہم نکات
نوکریوں میں تحفظ
تلنگانہ کے باشندوں کو مقامی ملازمتوں میں ترجیح دی جائے گی۔
وسائل کا منصفانہ استعمال
تلنگانہ کی آمدنی کو صرف تلنگانہ کی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
حیدرآباد کو مشترکہ دارالحکومت بنایا جائے گا
مگر تلنگانہ کو خاص انتظامی اختیارات دیے جائیں گے۔
وزیر اعلیٰ اور کابینہ میں توازن
دونوں علاقوں کے نمائندوں کو مساوی حیثیت دی جائے گی۔
زبان اور ثقافت کا تحفظ
تلنگانہ کی اردو اور دیگر ثقافتی اقدار کا احترام کیا جائے گا۔
ریاستی اسمبلی میں تلنگانہ کے لیے تحفظ
کوئی بھی قانون جو صرف تلنگانہ پر اثر انداز ہو تبھی پاس ہوگا، جب تلنگانہ کے ممبران اسمبلی اکثریت سے اس کی حمایت کریں۔
لیکن بعد میں کیا ہوا؟ اس معاہدے کی خلاف ورزیاں ہوئیں
آہستہ آہستہ تلنگانہ کے وسائل آندھرا کے علاقوں میں منتقل کیے گئے۔
ملازمتوں پر آندھرا کے افراد کو ترجیح دی جانے لگی۔
حیدرآباد پر آندھرا بیوروکریسی کا غلبہ ہو گیا۔
اردو کو سرکاری حیثیت سے بے دخل کیا گیا۔
1969 میں "جئے تلنگانہ” تحریک کا آغاز ہوا، جس کی بنیاد یہی دھوکہ اور معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔
جب جئے تلنگانہ تحریک زور پکڑتی گئی، اسی کے متوازی 1972 میں آندھرا والے بھی الگ ریاست کی مانگ کرنے لگے۔ فسادات، احتجاج اور خونریزی کے بعد مرکز نے ثالثی کرتے ہوئے ایک فارمولا تجویز کیا، اسی فارمولے کو 6-پوائنٹ فارمولا کہا جاتا ہے۔
6-پوائنٹ فارمولا کے نکات
علاقائی ترقیاتی بورڈز کا قیام
تلنگانہ، ساحلی آندھرا اور رائلسیما میں علیحدہ بورڈ بنائے جائیں گے تاکہ ہر خطے میں تعلیم، روزگار اور ترقی پر برابر توجہ دی جا سکے۔
مقامی ملازمتوں میں تحفظ
ہر علاقے کے افراد کو اپنے ہی علاقے میں سرکاری نوکریوں میں ترجیح دی جائے گی (یعنی "لوکل کیڈر سسٹم”)
تعلیمی اداروں میں ریزرویشن اور مقامی افراد کو ترجیح
ہر علاقے میں تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے مقامی طلبہ کو ترجیح دی جائے گی۔
تلنگانہ کی علیحدہ ریاست یا سپریٹ سیٹ اپ یعنی علیحدہ کوئی انتظام نہیں ہوگا
واضح کیا گیا کہ اب کوئی علیحدہ ریاست یا علاقائی خود مختاری کا مطالبہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
تمام شکایات کے لیے شکایتی کمیٹیاں بنائی جائیں گی تاکہ مقامی سطح پر مسائل حل ہوں اور احتجاج کی نوبت نہ آئے۔
آئینی تحفظ ( پریسیڈنشل آرڈر) دیا جائے گا، اس فارمولے کو آئین کے تحت صدرِ جمہوریہ کی منظوری سے تحفظ دیا گیا، تاکہ اس پر عمل یقینی ہو۔
– 6-پوائنٹ فارمولا وقتی طور پر تلنگانہ تحریک کو روکنے میں کامیاب تو ہوگیا لیکن معاہدے پر حقیقی عمل درآمد نہیں کیا گیا، خاص طور پر روزگار اور ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے معاہدے کی پاس داری نہیں کی گئی۔ یہی ناکامیاں دوبارہ تلنگانہ تحریک کے احیاء کا سبب بنیں۔
1975 میں اندرا گاندھی نے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے قیام کے لیے تقریباً 2,300 ایکڑ زمین مختص کی تاکہ علم و تحقیق کا ماحول یہاں پروان چڑھے، لیکن آج اس 400 ایکڑ زمین کو ریاستی حکومت نیلام کرنا چاہتی ہے تاکہ یہاں آئی ٹی پارکس، کمرشل کمپلیکس اور اربوں روپیوں کا رئیل اسٹیٹ بزنس ہو۔ کیا یہ صرف ایک زمین کے ٹکڑے کا مسئلہ ہے؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ سوال ہے عوامی وسائل کا، ماحولیاتی تحفظ کا اور سب سے بڑھ کر تلنگانہ تحریک کے وعدوں کا۔
2003-04 میں چندرا بابو نائیڈو نے دو ہزار تین سو ایکڑ زمین میں سے 400 ایکڑ زمین کنچا گچی باؤلی کے علاقے میں آئی ایم جی اکیڈمیز بھارت پرائیویٹ لمیٹڈ کو اسپورٹس سہولیات کی ترقی کے لیے دے دی، کانچہ گچی باؤلی چار سو ایکڑ زمین محض پچاس ہزار روپے فی ایکڑ کی قیمت پر دی گئی۔ لیکن، کمپنی کی جانب سے معاہدے کی شرائط پوری نہ ہونے پر، وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی حکومت نے 2006 میں یہ الاٹمنٹ منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد ایک طویل قانونی جنگ چلی جس میں مارچ 2024 میں ہائی کورٹ اور مئی 2024 میں سپریم کورٹ نے حکومت کے حق میں فیصلہ دیا جس سے اس زمین کی ملکیت حکومت کو واپس مل گئی۔
تلنگانہ حکومت نے اس زمین کو تلنگانہ اسٹیٹ انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن (TSIIC) کے ذریعے آئی ٹی اور مخلوط استعمال کے منصوبوں کے لیے ترقی دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف 13 مارچ 2025 کو یونیورسٹی کے طلبہ، عملہ، اساتذہ، اور ماحولیاتی کارکنوں نے احتجاج کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ زمین ایک شہری جنگلاتی علاقہ ہے جہاں مختلف اقسام کے پرندے اور جانور پائے جاتے ہیں اور اس کی ترقی سے مقامی ماحولیاتی نظام کو زبردست نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس زمین کی نیلامی فوری طور پر روک دی جائے۔
حکومت نے وضاحت کی کہ یہ زمین سرکاری ملکیت ہے اور یونیورسٹی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں میں مقامی چٹانوں اور جھیلوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا اور یہ کہ یونیورسٹی کی زمین پر کوئی قبضہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے کا مقصد عالمی معیار کا آئی ٹی انفراسٹرکچر تیار کرنا اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ اس کا خزانہ اس وقت خالی ہے، اندازے کے مطابق اس وقت کی ویلیو تیرہ لاکھ روپے فی ایکڑ ہے، حکومت اس کو بیچ کر اپنا خزانہ بھرنا چاہتی ہے۔ اس پورے معاملے پر سیاسی ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔
بی آر ایس پارٹی کے کارگزار صدر کے ٹی راما راؤ نے کہا ہے کہ اگر ان کی پارٹی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو وہ اس زمین کو واپس لے کر وہاں ایک بڑا ایکو پارک تعمیر کریں گے۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ یونیورسٹی کی زمین پر قبضہ کر رہی ہے اور طلبہ کے احتجاج کو نظر انداز کر رہی ہے۔
ماحولیاتی کارکنوں کا کہنا ہے کہ کنچا گچی باؤلی کا علاقہ حیدرآباد کے چند باقی ماندہ شہری جنگلات میں سے ایک ہے، جہاں 237 سے زائد اقسام کے پرندے اور دیگر جنگلی جاندار پائے جاتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس علاقے کی ترقی سے مقامی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچے گا۔
جبکہ طلبہ اور ماحولیاتی کارکنان اس کی ماحولیاتی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی حفاظت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس زمین کا ایک ثقافتی پہلو بھی ہے، اس زمین سے یہاں کی عوام کا ایک جذباتی لگاؤ ہے، یہ تلنگانہ تحریک کی ایک نشانی ہے۔ وہی تلنگانہ جس کے لیے لاکھوں نوجوان سڑکوں پر اترے۔
"نِی بھومی، نِی نیوڈُو، نِی پرابھوتوم”
(تیری زمین، تیرا آج، تیری حکومت) لیکن آج، جب حیدرآباد کی سب سے بڑی عوامی یونیورسٹی کی زمین کو سرمایہ داروں کے حوالے کیا جا رہا ہے تو سوال ہے کہ کیا یہی وہ "نئی ریاست” تھی جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟
سپریم کورٹ کہتی ہے کہ زمین حکومت کی ہے اور حکومت کہتی ہے کہ ترقی ضروری ہے۔ لیکن طلبہ اور اساتذہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں، یہ زمین ہمارا تعلیمی، ماحولیاتی، اور تہذیبی ورثہ ہے۔ کنچا گچی باؤلی کا یہ علاقہ صرف مٹی کا ٹکڑا نہیں، یہاں درخت ہیں، پرندے ہیں، خاموش جھیلیں ہیں، ماحولیاتی آلودگی میں یہ علاقہ قدرت کا انمول تحفہ ہے، جسے حکومت نے بلڈوزر سے روندنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ماحولیاتی تباہی کا خطرہ پیدا ہو جائے گا، اگر یہاں کٹائی اور کنکریٹ کاری ہوئی، تو صرف حیاتیاتی تنوع ہی نہیں بلکہ شہر کی فضائی اور زمینی ماحولیاتی توازن بھی بگڑ جائے گا۔
تلنگانہ کی قیادت میں شامل وہی لوگ جنہوں نے ایک دہائی پہلے "عوامی حق” کا نعرہ لگایا تھا آج سرمایہ کاروں کے حق میں بول رہے ہیں۔ کیا یہ سیاسی یوٹرن نہیں ہے؟ یا شاید ہمیں یہی سمجھنا چاہیے کہ تحریک صرف اقتدار تک رسائی کا ذریعہ تھی۔
آخر میں سوال:
زمین کا تنازعہ ہو یا ترقی کا منصوبہ، فیصلہ ہمیشہ یہ ہونا چاہیے کہ فائدہ کسے پہنچے گا؟ عوام کو یا سرمایہ داروں کو یا یونیورسٹی کو؟ یا مالز، فلیٹس اور آفس ٹاورز کو؟
اب اس موڑ پر حکومت سے یہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ :
کیا علیحدہ تلنگانہ کا خواب بھی بیچا جا چکا ہے؟
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025