ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آ گئی

اہل غزہ نے مزاحمت واستقامت کی تاریخ رقم کی

مسعود ابدالی

اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے نیتن یاہو پر دباو۔ حماس سے بالواسطہ مذاکرات!
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قیام امن کی قرارداد منظور لیکن قوت نافذہ سے محروم عالمی ادارے کے فیصلے کی اہمیت ریکارڈ سے زیادہ کچھ نہیں
غزہ میں جنگ بندی کی آخری قانونی امید بھی سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو سے ختم ہوگئی۔ اتمام حجت کے طور پر اقوام متحدہ کے معتمد عام (سکریٹری جنرل) انتونیو گوتریس نے بربنائے عہدہ ملنے والے ہنگامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سلامتی کونسل سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔ دستورِ اقوام متحدہ کے باب 15 (ChapterXV) دفعہ 99 کے تحت سکریٹری جنرل سلامتی کونسل کی توجہ کسی ایسے معاملے کی جانب مبذول کرا سکتے ہیں جو ان کی رائے میں بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ سلامتی کونسل کے نام خط میں جناب گوتریس نے لکھا کہ خراب حالات کی وجہ سے عوامی نظم و نسق بکھر چکا ہے، جس سے محدود انسانی امداد بھی اب ممکن نہیں، لہٰذا وہ سلامتی کونسل سے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ دستور کی پاسداری کرتے ہوئے کونسل کے صدر نے قیامِ امن کی قرارداد ایوان کے روبرو پیش کردی ہے۔
قرارداد کے پیش ہوتے ہی یورپی یونین کے سکریٹری برائے خارجہ امور جوزف بوریل نے اعلان کیا کہ یونین، سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی حمایت کرے گی۔ اسپین کے وزیر اعظم پیدرو سنچیز نے دوٹوک انداز میں کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ ناقابل برداشت ہے۔ میں انتونیو گوتریس کی آرٹیکل 99 کے تحت جنگ بندی کی تجویز کی مکمل حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔ سکریٹری جنرل نے اپنی درخواست میں جو وجوہات بیان کی ہیں ان سے میں پوری طرح متفق ہوں۔ جب 8؍ دسمبر کو رائے شماری ہوئی تو فرانس نے یونین کے فیصلے کے مطابق قرارداد کی حمایت کی اور چین و روس سمیت سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے تیرہ ارکان نے جنگ بندی کے حق میں ہاتھ بلند کیے۔ برطانیہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ حسب توقع امریکہ بہادر نے ویٹو کرکے مسودے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ قرارداد کے مسودے پر اقوام متحدہ کے 97 ارکان نے تجویز کنندہ کی حیثیت سے دستخط کیے تھے۔ اس کے چار دن بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہی قرارداد 10 کےمقابلے میں 153 ووٹوں نے منظور کرلی۔ آسٹریا اور چیک ریپبلک نے یورپی یونین کی سفارشات کو پس پشت ڈالتے ہوئے قرارداد کی مخالفت کی۔
یونین کے رکن ممالک، جرمنی، نیدرلینڈ، رومانیہ، سلووانیہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد کی بھاری اکثریت سے منطوری امریکہ کی سفارتی شکست تو ہے کہ اس کے اتحادی آسٹریلیا، کنیڈا، جاپان اور فرانس نے امن تحریک کی حمایت کی لیکن جنرل اسمبلی کے فیصلے قوت نافذہ سے محروم ہیں لہٰذا ریکارڈ سے زیادہ اس قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں۔
غزہ امن کے بارے میں مغربی رہنماوں کے بیانات محض مبہم ہی نہیں سفارتی منطق سے بھی محروم نظر آتے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون اور ان کی جرمن ہم منصب محترمہ انالینا بئر بک Annalena Baerbock نے برطانوی جریدے سنڈے ٹائم میں ایک مضمون لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں دیرپا امن وقت کی ضرورت ہے لیکن ہم فوری جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کرتے۔
اقوام متحد ہ میں امریکہ کی سکھا شاہی کے باوجود دنیا، خوفناک قوتِ قاہرہ کے سامنے اہلِ غزہ کے عزم اور صبر و ثبات پر اپنے جذبات کا اظہار کر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل نواز عناصر کی طرف سے شدید اعتراض کے باوجود امریکی ریاست کیلیفورنیا کی فرینسو کاونٹی Fresno County کے ایوانِ بلدیات المعروف سٹی ہال پر فلسطین کے پر چم لہرا دیے گئے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ آئرلینڈ میں ہوا جہاں دارالحکومت ڈبلن میں بلدیاتی اسمبلی پر قومی اور بلدیہ کے جھنڈوں کے ساتھ ایک ہفتے تک فلسطینی پرچم لہراتے رہے۔ اس وحشت کے خلاف مختلف علاقوں اور حلقوں سے جو ردعمل ظاہر ہو رہا ہے وہ بھی اسرائیل کے لیے اچھا نہیں ہے۔ دنیا کی دو بڑی جہاز راں کمپنیوں، ڈنمارک کی MEARSK اور جرمنی کی Hapag- Lloyd نے بحر احمر (RedSea) کے ذریعہ سفر معطل کردیا ہے۔ غزہ جنگ چھڑنے کے بعد سے یمن کی ایران نواز حوثی ملیشیا اسرائیل سے آنے اور جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ان حملوں کی وجہ سے جنوبی بحر احمر، آبنائے باب المندب اور خلیج عُمان کا علاقہ جہاز رانی کے لیے غیر محفوظ ہوگیا ہے اور بیمہ کمپنیاں اضافی خطرے کے تناظر میں بھاری پریمیم وصول کررہی ہیں۔
امریکہ کی غیر مشروط حمایت، اسلحے کی فراوانی اور میڈیا کا گلا گھونٹ دینے کے باوجود، جانی و مالی نقصانات کی جو خبریں آرہی ہیں وہ اسرائیلوں کے لیے مایوس کن ہیں۔ غزہ حملے کے آغاز سے ہی اسرائیلی حکومت نے براہ راست رپورٹنگ پر پابندی لگا دی ہے۔ قانونِ زباں بندی یا Gag order کے تحت صرف جنگی کونسل (WarCouncil) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار ہی میڈیا والے شائع کرسکتے ہیں۔ تاہم سچ کے متلاشی صحافیوں نے مدفون حقائق کی بازیابی کے لیے فوجی قبرستانوں کا رخ کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں روسی ٹی وی (RT) نے جب 18 نومبر کو تل ابیب کے قریب ماونٹ ہرزی عسکری قبرستان Mount Herzi) Military Cemetery) کے ڈائریکٹر ڈیوڈ اورن باروخ (David Oren Baruch) سے رابطہ کیا تو ڈائریکٹر صاحب نے کہا ہم اوسطاً ہر گھنٹہ ایک نئی قبر کھود رہے ہیں۔ ریکارڈ دیکھ کر جناب باروخ نے بتایا کہ 48 گھنٹوں کے دوران ہم نے 50 میتیں دفنائی ہیں۔ یہ وسط نومبر کی بات ہے جب مزاحمت میں شدت نہیں آئی تھی۔ اب اسرائیلی نقصان فی گھٹہ ایک سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دھمکیوں اور اہل غزہ کو فنا کر دینے کے عزم کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کا ڈول ڈال دیا گیا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین خبر یہ ہے اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ برنی David Barnea نے ناروے میں قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے 17؍ دسمبر کو ملاقات کی۔ ملاقات قطر کے بجائے ناروے میں رکھنے کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ ہم حماس سے ملنے قطر نہیں گئے بلکہ ایک غیر جانبدار جگہ بات چیت ہو رہی ہے۔
غزہ قتل عام کا ایک بڑا محرک ان لوگوں کو چھڑانا ہے جنہیں اہل غزہ نے 7؍ اکتوبر کو قیدی بنالیا تھا۔ جنگی قیدیوں میں کچھ جنرلس بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج کا خیال تھا کہ خوفناک بمباری سے فلسطینی مزاحمت کار تتربتر ہو جائیں گے اور تل ابیب کا انتہائی تربیت یافتہ چھاپہ مار دستہ اپنے قیدی بازیاب کروالے گا۔ اس آپریشن میں اسرائیل کو امریکہ اور برطانیہ کی مکمل حمایت حاصل تھی جن کے جاسوس ڈرونوں نے غزہ کا چپہ چپہ سونگھ کر اسرائیلی سراغ رساں اداروں کے مطابق قیدیوں کے ٹھکانے معلوم کرلیے تھے۔ لیکن مستضعفین نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ آٹھ دسمبر کو جب پہلی کارروائی ہوئی تو مزاحمت کار اسرائیلی چھاپہ ماروں کے استقبال کو موجود تھے۔ فائرنگ کے تبادلے میں دو اسرائیلی کمانڈو زخمی ہوگئے اور قید سپاہی 24 سالہ سعر بروش (Saar Baruch) بے موت مار اگیا۔ ایک ہفتے بعد شجاعیہ میں ہونے والی کارروائی مزید مہلک ثابت ہوئی اور مستضعفین کے اچانک حملے سے گھبرا کر اپنے تین قیدیوں کو اسرائیلی فوج نے خود ہی گولی مار دی۔ اس واقعہ کے خلاف اسرائیل میں شدید رد عمل ظاہر ہوا اور کچھ لوگوں نے ان جوانوں کے قتل کا پرچہ فوج کے سربراہ کےخلاف کاٹنے کا مطالبہ کردیا۔ اسی شام تل ابیب میں ایک بہت بڑے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے لواحقین کی نمائندہ محترمہ نوم پیری Noam Perry نے اپنے جذباتی خطاب میں کہا ہم صرف لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ حکم رانو! جنگ بند کرکے بامقصد مذاکرات کرو تاکہ ہمارے پیارے بخیریت واپس آجائیں۔ تم طاقت کے ذریعے ہمارے قیدی نہیں چھڑا سکے، اب امن کو ایک موقع دو۔ اسی دباو کا نتیجہ ہے کہ 17؍ دسمبر کو قوم سے خطاب میں وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو المعروف بی بی نے شروع میں طوطے کی طرح جنگی منتر دہرایا کہ غزہ حملہ اسرائیلی بقا کی جنگ ہے جو دباؤ، جانی نقصانات اور اخراجات کے باوجود مکمل فتح تک لڑی جائے گی۔ پھر خود ہی بولے کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے انہوں نے سراغ رساں ادارے موساد کو بات چیت کا اختیار دے دیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بی بی کے اعلان سے پہلے ہی موساد کے سربراہان مذاکرات کے لیے ناروے پہنچ چکے تھے۔
سوال یہ ہے کہ نقصانات اور عوام کا دباو اسرائیلی حکومت کو معقولیت کی طرف مائل کرنے میں اب تک ناکام کیوں ہے تو امریکی محکمہ سراغ رسانی کا خیال ہے کہ بی بی جنگ کی طوالت کو اپنی سیاسی بقا کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کے خلاف کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ بی بی اپنے منصب اور اب ہنگامی صورتحال کا بہانہ کرکے معاملہ ٹال رہے ہیں۔ جنگ ختم ہونے کی صورت میں انہیں پیشیاں بھگتنی ہوں گی۔ اعصاب کی اس جنگ میں اہلِ غزہ کا پلہ بھاری لگتا ہے۔ 70 دن کی مسلسل بمباری، 9 ہزار سے زیادہ بچوں کی شہادت اور سارے غزہ کو کھنڈر بنا دینے کے باوجود اسرائیلی اپنا ایک بھی قیدی بزور قوت رہا نہیں کرواسکے۔ اور دوسری طرف قیدیوں کے عزیزو اقارب کے لیے جدائی ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔ اسرائیل کے تجارتی مراکز اور چوراہوں پر Neon Sign کی شکل میں گھڑیاں آویزاں کرکے لواحقین نے اپنے پیاروں کی حراست کے لمحات گننے شروع کر دیے ہیں۔ اہل غزہ نے ایک بیان میں اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ عارضی نہیں بلکہ اسرائیل کی جانب سے مکمل، دیرپا اور غیر مشروط جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کی رہائی ناممکن ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اسرائیلی سپاہ 7؍ اکتوبر کی پوزیشن پر واپس جائے اور جب تک جارحیت ہمیشہ کے لیے بند نہیں ہو جاتی، کوئی قیدی رہا نہیں ہوگا۔ قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہونے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر دوبارہ حملہ نہ کرنے کی تحریری ضمانت بھی ان کی شرائط میں شامل ہے۔
مزاحمت کاروں کا اعتماد ان کی برجستگی سے بھی ظاہر ہو رہا ہے۔ اسرائیلی فوج حماس قائدین کی گرفتاری میں اہل غزہ کے تعاون کے لیے اپنے طیاروں سے بڑٖے پیمانے پر پمفلٹ گرا رہی ہے۔ پمفلٹ میں رہنماوں کے سروں کی قیمت کے ساتھ طنز کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حماس کی کمر ٹوٹ چکی ہے، اب ان کے رہنما انڈے بھی نہیں تل سکتے۔ اس کا جواب یہ آیا کہ انڈے فرائی کرنے کا وقت کس کے پاس ہے؟ ہمارے مزاحمت کار MERKAVA (اسرائیلی ٹینک) بھوننے میں مصروف ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)

 

***

 مزاحمت کاروں کا اعتماد ان کی برجستگی سے بھی ظاہر ہو رہا ہے۔ اسرائیلی فوج حماس قائدین کی گرفتاری میں اہل غزہ کے تعاون کے لیے اپنے طیاروں سے بڑٖے پیمانے پر پمفلٹ گرا رہی ہے۔ پمفلٹ میں رہنماوں کے سروں کی قیمت کے ساتھ طنز کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حماس کی کمر ٹوٹ چکی ہے، اب ان کے رہنما انڈے بھی نہیں تل سکتے۔ اس کا جواب یہ آیا کہ انڈے فرائی کرنے کا وقت کس کے پاس ہے؟ ہمارے مزاحمت کار MERKAVA (اسرائیلی ٹینک) بھوننے میں مصروف ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023