حسنِ اخلاق اور ہمارے نوجوان

نئی نسل کی اسلامی تربیت کا آغاز گھروں سے ہو

ساجدہ ابواللیث فلاحی

اخلاق، خُلق کی جمع ہے جس کے معنی عادت کے ہیں۔اس میں حسن کا اضافہ انسان کے عادات و اطوار میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ حسن کا سہ حرفی لفظ ذہن میں آتے ہی ہر شئے کی خوبصورتی کا تصور اس طرح نظروں کے سامنے آجاتا ہے کہ اس کے سرور کو دل و دماغ بھی محسوس کرنے لگتے ہیں اور انسان ایک انجانی خوشی سے معمور ہو جاتا ہے۔یقیناً حسن انتہائی عظیم شئے ہے اور اس کا وجود کائنات کی ہر شئے میں موجود ہے جس سے انسانیت ہر آن بہرہ مند ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بلا شبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات و دن کے ہیر پھیر اور پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے جانے میں، ان کشتیوں اور جہازوں میں جو انسانوں کے فائدے کی چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے پانی میں جسے آسمان سے برساتا ہے پھر اس سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان تابع فرمان بناکر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں اور غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘
جس طرح قرآن مجید کی متعدد آیات کائنات کے حسن کو ثابت کررہی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی ظاہری و باطنی حسن سے نوازا ہے بشرطیکہ انسان اس جوہر کی قدر و قیمت کو پہچانے اور اپنی شخصیت کو اس باطنی حسن سے مزین کرلے۔ نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: ’’میں اس لیے بھیجا گیا ہوں تاکہ اخلاق کی تکمیل کروں۔‘‘
آپ کی بعثت کا مقصد ہی مکارم اخلاق کی تکمیل ہے، یعنی بندگان خدا کے اندر اخلاق حسنہ اور افعال مستحسن، مروت، شرم و حیاء، عفت و پاک دامنی کی صفات پیدا کی جائیں اوربرائیوں سے دور کیا جائے، آپ نے اس ذمہ داری کو بطریق احسن پورا کیا اور خود بھی اعلی اخلاق پر فائز رہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کے اخلاق حسنہ کی گواہی دی، فرمایا:’’بے شک تم اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز ہو‘‘ حضرت عائشہؓ سے جب آپؐ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا ’’آپ کا اخلاق قرآن کے مطابق تھا‘‘
اخلاق کے قرآن کے مطابق ہونے کا مطلب واضح ہے کہ قرآن مجید میں جن فضائل اعمال کا تذکرہ ہے اور جن اعمال صالحہ کا مطالبہ کیا گیا ہے،جن امور کی تعلیم دی گئی جو کچھ احکام و شرائع دیے گئے ہیں،آپ کی ذاتِ مبارک ان تمام کا مجموعہ تھی۔اس تفصیل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حسن اخلاق محض نرمی اور حسن و سلوک سے پیش آنے کا نام نہیں ہے۔ اسی طرح حسن اخلاق صرف مسکرا کر خندہ پیشانی سے ملنے کا نام نہیں ہے۔ اخلاق صرف جملہ رذائل اعمال سے دوری اختیار کر لینے کا نام نہیں ہے،اگرچہ یہ اور اس جیسی تمام چیزیں حسن اخلاق کے زمرے میں آتی ہیں لیکن حسن اخلاق کا دائرہ درج بالا حدیث کے مطابق قدرے وسیع ہے اور زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کرتا ہے، مثلاٌ انسان اپنے قول و عمل میں سچا ہو، تضاد سے دور ہو، عبادات کے علاوہ دیگر فرائض و واجبات کو کما حقہ بجا لانے والا ہو، معاملات میں بہترین ہو، عمل میں سچائی اور خلوص ہو، ضبط نفس کی بھی طاقت ہو، فیصلوں میں عدل و انصاف ہو، اظہار حق میں بہادری اور بے باکی ہو، اس کے ساتھ انتہائی عظیم صفت، حق پر جمنے اور خیر و بھلائی پر قائم رہنے کا جذبہ ہو۔ اخلاقیات کا دائرہ اتنے ہی تک محدود نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے ساتھ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے ہمت و حوصلہ، جرأت و جذبہ فطرت میں کار فرما ہو اور نیکی و تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے تعاون کی روح موجود ہو، تو ان سب صفات کا مجموعہ اخلاق کہلاتا ہے۔ ان صفات کے حصول کے ذرائع قرآن و سنت ہیں جن کا فہم اور علم انسان کو صحیح راستے پر ڈال سکتا ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘
حدیث ’’کان خلقہ القرآن‘‘ میں بھی اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ کی ذات گرامی قرآن مجید کے مطابق تھی اور احادیث مبارکہ اس کی عملی تعبیر و تشریح ہیں، ان دونوں ذرائع کا باریک بینی سے مطالعہ، فہم دقیق اور پھر عمل آوری کی کوشش کسی بھی مسلمان کو ان اوصاف حمیدہ سے متصف کر سکتی ہے۔ امام حسن البناء نے اس بات کو اپنے لفظوں میں اس طرح کہا ہے:’’اپنے دلوں پر اسلام کی حکومت قائم کرلو تو تمہاری سرزمین پر خود بخود قائم ہو جائے گی۔‘‘
لہذا ہر مسلمان کو عموماً اور تحریک کے افراد کو خصوصاً، ان صفات کو اختیار کرنے کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ تحریک تمام ہی صفات کا مطالبہ کرتی ہے، راستے دشوار اور پیچیدہ ہوتے ہیں، کبھی حرص و طمع اپنے جال پھیلاتی ہے، کبھی اہل خانہ اور عوام الناس کا طرز عمل آزردہ کرتا ہے اور کبھی تکالیف و مظالم کے ذریعے آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ایسے وقت میں کسی داعی و مبلغ کو صبر و ثبات کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کو متحرک اور سرگرم رکھنے میں معاون ہو اور وہ اپنے مقصد کی آبیاری میں آگے بڑھتا رہے حتیٰ کہ اسی جدوجہد میں اپنی جان کھپا دے، ایسے ہی لوگوں کے لیے آیت ’’اور وہ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے ‘‘صادق آتی ہے ،لیکن آج کا نوجوان کسی بھی قید و بند سے آزاد اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہوئے، ہر طرح کی دنیوی لذتوں سے فیض یاب ہونا چاہتا ہے، اغیار کے طرز معاشرت سے متاثر ہو کر نوجوان مرد و خواتین مطلق طور سے مغربی تہذیب کے علم بردار بننے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ قوانین وہدایات کو نظر انداز کر کے بے لگام آزادی انہیں خوش نما نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے مغرب کے نزدیک آزادی کا مطلب اسلامی اصولوں سے آزادی ہے، اخلاقی قدروں سے آزادی ہے، حقوق کی ادائیگی سے آزادی ہے، خیر و شر کی تفریق سے آزادی ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جملہ فواحش و منکرات کے راستوں پر چلتے رہنا آزادی ہے، ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن مجید نے کہا ہے:
’’پھر کیا تم نے کبھی اُس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟‘‘
آزادی کی اس فکر کو پروان چڑھانے میں چارلس ڈارون کا نظریہ بھی گمراہ کن بنا کہ انسان پہلے بندر تھا اور کئی جنسی تبدیلیوں کے بعد انسان بنا، لہٰذا وہ بے مہار ہے جو چاہے کر سکتا ہے۔
اس تہذیب کے پروردہ تمام اخلاقی قدروں کو بالائے طاق رکھ کر لادینیت، بے حیائی حیا باختگی پر قائم ہیں، جس کی بنا پر برائیاں عام ہوتی جا رہی ہیں دین اور دینی اقدار کی پیروی کرنے والے اس تہذیب کے متاثرین کے نزدیک فرسودہ خیالات اور قدامت پسند تصور کیے جاتے ہیں۔ان کے نزدیک ’’کھاؤ، پیو اور مزے کرو‘‘ کا فلسفہ بہت ہی خوش کن اور روح پرور فلسفہ ہے۔اس فلسفے کے نتائج ظاہر ہے کہ دنیوی و اخروی دونوں لحاظ سے خطرناک ہیں ۔ناجائز جنسی تعلقات، منشیات کا استعمال، ہم جنس پرستی، شراب و جوا، فخریہ گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا رجحان یہ ساری چیزیں مسلمانوں کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ کے جال نے ان کو اپنے مفاسد کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اور اکثریت نے شرم وحیا کی ہر نوع کو بالائے طاق رکھ کر ساری حدیں پار کر لی ہیں۔ ہمارے نوجوان اسلام جیسی قیمتی نعمت کو نظر انداز کرتے ہوئے باطل کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ نوجوان لڑکیاں احکام اسلام کو ایک طرف ڈال کر مسلم اور غیر مسلم نوجوانوں سے دوستی کرنے میں کچھ بھی شرمندگی، ناپسندیدگی یا غلط روی محسوس نہیں کر رہی ہیں، بلکہ بلا کسی خوف و جھجھک کے کچھ تو غیر مسلمین سے شادی کے لیے بھی آمادہ ہوجاتی ہیں جس کا نتیجہ دنیوی واخروی تباہی و بربادی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟
ضرورت ہے کہ والدین اپنے بچوں کی صالح و پاکیزہ تربیت کی طرف متوجہ ہوں اور خود بھی ان کے سامنے عملی نمونہ پیش کریں۔گھر کے ماحول کو اسلامی تہذیب میں رنگنے کی کوشش کریں۔ قرآن و سنت کے احکام وقتاً فوقتاً ان کے سامنے پیش کیے جائیں اور انہیں عمل پر ابھارا جائے۔امہات المومنین اور صحابیات کی سیرت کے واقعات ان کے سامنے پیش کر کے ان کی روحانی تربیت کی جائے۔ آخرت کی جواب دہی کا احساس اور جزا و سزا کا تصور دلوں میں جاگزیں کر کے خشیت الٰہی پیدا کی جائے تاکہ آج کے بچے کل کے ملک و ملت کے معمار ہوں اور دنیا و آخرت دونوں میں سرخ روئی و کامیابی حاصل کر سکیں۔
(مضمون نگار شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند، یو پی مشرق کی سکریٹری ہیں)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024