حسن کا مقابلہ یا حیا سوزی کا تماشا؟

فرزانہ ناہید

یہ خبر آپ کے کانوں تک بھی پہنچی ہوگی کہ حیدرآباد میں 31 مئی کو "مس ورلڈ 2025” کا خطابی عالمی مقابلہ حُسن منعقد ہونے جا رہا ہے۔گویا تہذیب و ثقافت کا یہ تاریخی شہر اب حُسن کے بین الاقوامی میلے کی میزبانی کرے گا۔بہت سے گوشے اس خبر کو فخریہ طور پر پیش کر رہے ہیں اور پرجوش انداز میں پھیلا بھی رہے ہیں۔ لیکن اس تحریر کو پڑھ کر آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ ہمارے لیے فخر و عزت کی بات ہے یا فکر مندی کی؟ اور کیا یہ وقت نہیں کہ ہم اصلاحِ حال کی طرف متوجہ ہوں؟
حیدرآباد دنیا میں صرف بریانی اور شیروانی کے لیے ہی معروف نہیں، بلکہ یہ شہر صدیوں پر محیط اپنی تہذیبی عظمت، شرافت، علمی وقار، دینی اقدار اور اخلاقی معیار کی ایک پہچان رکھتا ہے۔ یہ وہی شہر ہے جس کی فضاؤں میں علماے دین کی بصیرتوں کا نور اور اہلِ علم و ادب کے افکار کی خوشبو رچی بسی ہے۔ یہاں عورت کو ہمیشہ حیا کا پیکر سمجھا گیا، عفت اس کا وقار رہی، اور پردہ اس کی شناخت کا استعارہ۔ لیکن آج اسی شہر میں، جہاں تہذیب سانس لیتی تھی، "مس ورلڈ 2025” جیسے بے حیا مقابلے کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ یہ صرف ایک شو نہیں بلکہ ہماری اقدار، ہماری تہذیب اور ہماری نسلوں کے ذہن و دل پر ایک فکری حملہ ہے۔ یہ وہ منظر ہے جہاں عورت کو اس کے علم، کردار یا خدمت کے بجائے صرف جسم، ناز و ادا، اور فیشن کی بنیاد پر پرکھا جا رہا ہے۔
109 ممالک کی حسیناؤں کی موجودگی، جلوہ نمائی، فیشن شو اور حسن کے معیار پر عورتوں کی درجہ بندی — یہ سب کچھ صرف ایک عالمی تقریب نہیں بلکہ عورت کی عزت و وقار کی نیلامی کا منظر ہے۔
اسلامی تعلیمات میں عورت کو حیا، عفت اور پردے کا پیکر قرار دیا گیا ہے۔ اسے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے مقدس رشتوں میں دیکھا جاتا ہے، نہ کہ مقابلہ حسن میں "نمائش کی چیز” کے طور پر؟
مگر مغربی تہذیب نے عورت کو اشتہار، فیشن شوز اور مارکیٹنگ کے میدان میں محض جسمانی کشش کی علامت بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ رجحان صرف بصری فتنہ نہیں بلکہ دل و دماغ کو آلودہ کرنے والا ایک زہر ہے جو رفتہ رفتہ معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
جب بازارِ حسن کی ان تتلیوں کو دیکھ کر صرف نظروں کی حیا ہی نہیں جاتی بلکہ دل و دماغ میں شہوت کی آندھیاں چلنے لگتی ہیں، تو یہ محض تصور تک محدود نہیں رہتی بلکہ عمل کی دنیا میں جنسی جرائم، خواتین کے خلاف درندگی اور اخلاقی بگاڑ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔
اور جب ہماری بچیاں یہ دیکھتی ہیں کہ دنیا کی نظر میں عورت کا مقام اس کے جسم کی نمائش اور لباس کی قلت سے طے ہوتا ہے تو وہ بھی اسی راہ کو کامیابی کا زینہ سمجھنے لگتی ہیں۔ "میرا جسم میری مرضی” جیسے گمراہ کن نعروں سے متاثر ہو کر وہ اپنے وقار اور حیا کی چادر کو خود ہی تار تار کرنے لگتی ہیں۔ خاندان بکھرنے لگتے ہیں، قدریں ٹوٹنے لگتی ہیں اور اخلاقی توازن تباہ ہونے لگتا ہے۔
سوچیے کہ کون سی عورت قابلِ فخر ہے؟ وہ جو اپنا جسم بیچ کر داد وصول کرے یا وہ جو کردار، علم، حیا اور غیرت کے زیور سے آراستہ ہو کر اپنے خاندان، قوم اور دین کی عزت بڑھائے؟
یاد رکھیے! عورت صرف دکھانے اور سجانے کی چیز نہیں، بلکہ وہ شرم و حیا کی مجسم تصویر، عزت و وقار کی علم بردار اور معاشرے کی بنیاد ہے۔ اس کا اصل مقام ماں کی محبت، بیٹی کی معصومیت، بہن کی وفا اور بیوی کی رفاقت میں ہے، نہ کہ بازارِ حسن کی زینت یا اشتہارات کی شوپیس بننے میں؟
یاد رکھیے! یہ صرف ایک مقابلہ حسن نہیں بلکہ تہذیبوں کا ٹکراؤ ہے، ایک فکری یلغار ہے۔ اگر آج ہم نے خاموشی اختیار کی تو کل ہمارے گھروں کی دیواریں گریں گی، ہمارے بچوں کے خواب چکنا چور ہوں گے اور ہمارا ضمیر ہمیشہ کے لیے مردہ ہو جائے گا۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف سوشل میڈیا پر تبصرے کرنے والے نہ رہیں، بلکہ:
• علمی سطح پر گفتگو کریں
• دینی حلقوں میں شعور پیدا کریں
• تعلیمی اداروں میں اخلاقی قدروں کو عام کریں
• ثقافتی سطح پر ایسے ایونٹس کا متبادل پیش کریں
یہ ہماری تہذیبی جنگ ہے۔ اگر ہم آج خاموش رہے تو کل ہمارے بچوں کی معصوم نگاہوں سے حیا، ادب، غیرت سب کچھ چھن چکا ہوگا۔ آئیے! ہم سب اجتماعی شعور کے ساتھ اس طوفان بدتمیزی کے خلاف آواز بلند کریں۔

 

***

 یاد رکھیے! عورت صرف دکھانے اور سجانے کی چیز نہیں، بلکہ وہ شرم و حیا کی مجسم تصویر، عزت و وقار کی علم بردار اور معاشرے کی بنیاد ہے۔ اس کا اصل مقام ماں کی محبت، بیٹی کی معصومیت، بہن کی وفا اور بیوی کی رفاقت میں ہے، نہ کہ بازارِ حسن کی زینت یا اشتہارات کی شوپیس بننے میں؟
یاد رکھیے! یہ صرف ایک مقابلہ حسن نہیں بلکہ تہذیبوں کا ٹکراؤ ہے، ایک فکری یلغار ہے۔ اگر آج ہم نے خاموشی اختیار کی تو کل ہمارے گھروں کی دیواریں گریں گی، ہمارے بچوں کے خواب چکنا چور ہوں گے اور ہمارا ضمیر ہمیشہ کے لیے مردہ ہو جائے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025