حُسن کردار سے نورِ مجسّم ہو جا۔۔

اخلاقی محاسن: داخلی خوبصورتی کی ضمانت

شیریں رحمانی ، جبل پور

اچھے اخلاق سے ہی اچھے سماج کی تعمیر ممکن
اخلاق عربی زبان کے لفظ "خلق” سے مل کر بنا ہے، جس کا مطلب ہے عدم سے وجود میں لانا۔ "خَلَقَ” کے معنیٰ ہیں عدم سے وجود میں لانا اور "خَلُقَ” کا معنیٰ عادت اور ظاہری شکل و صورت ہے، جو کہ پرانا ہونا یا بوسیدہ ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح عادات ایک چیز کو بار بار کرنے سے بنتی ہیں، اور جب وہ چیزیں ہمارے اندر راسخ ہو جاتی ہیں تو ہم سے بے اختیار ہو جاتی ہیں، ہماری سوچ ہماری ذات کا حصہ بن جاتی ہے، اور یہ سب اخلاق کہلاتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، انسان کی وہ عادات اور مزاج جو مسلسل ایک عمل کے بعد پختہ ہو جاتا ہے اخلاق کہلاتا ہے۔ "خلق” اندر کی اس کیفیت کو کہتے ہیں جس کے مطابق ہمارے اعمال ہوتے ہیں، یعنی ہمارے رویّے ہماری اندر کی کیفیت کے تابع ہوتے ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص خوبصورتی پسند کرتا ہے۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا شخص ملے جسے خوبصورتی پسند نہ ہو، خواہ وہ خوبصورتی کسی کی صورت میں ہو، پھولوں میں ہو یا کائنات میں ہو، جو بھی اسے پسند آتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی شکل و صورت یا اپنی ذات کے لیے بہت محتاط رہتے ہیں اور اس کو سجانے سنوارنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں، اور اس کے لیے مال بھی خرچ کرتے ہیں۔ چونکہ ظاہری شکل و صورت سبھی کو نظر آتی ہے، اس لیے ہم اس کی صفائی کا بھی خیال رکھتے ہیں اور صرف صفائی ہی نہیں بلکہ میک اپ بھی کرتے ہیں اور استری کیا ہوا لباس بھی پہنتے ہیں۔ ان سب چیزوں میں ہماری توجہ مرکوز رہتی ہے، لیکن یہ یاد رکھیں کہ کوئی بھی انسان ظاہری شکل و صورت میں خوبصورت نہیں بن سکتا۔ ظاہری شکل و صورت دوسروں کے لیے کشش کا باعث بن سکتی ہے لیکن انسان کی اصل خوبصورتی اس کی اچھی عادات، اخلاق، معاملات، رویّے اور اس طرزِ عمل میں ہے جو وہ دوسروں کے ساتھ اختیار کرتا ہے، اور یہ چیزیں ایک دن میں نہیں بنتیں۔
گویا اچھا اخلاقی محاسن کا حامل بننے کے لیے صرف مصنوعی، ظاہری اور وقتی کوششیں فائدہ نہیں دیں گی، جب تک کہ ہمارے اندر یہ چیزیں نہیں سنور جاتیں، جب تک ان کی بنیاد ہمارے اندر نہیں بنتی اور جب تک ہم انہیں بار بار نہیں کرتے۔ خلق کو امام غزالی نے فرمایا: ’’خلُق اندر کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے جس کے مطابق ہمارے اعمال ہوتے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنانے کے ساتھ ساتھ حق اور باطل کا فرق بتانے والی کتاب عطا کی اور صحیح اور غلط کی تمیز دی۔ اور اسے زمین میں اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ مسخر کر دیا اور یہ آزادی دی کہ وہ چاہے تو اس آزادی کا استعمال شریعت کے بتائے ہوئے طریقے پر کرے اور سماج اور معاشرے میں امن و سکون قائم کرے، یا بے لگام آزادی کی روش اختیار کر کے انسانی معاشرہ کو نقصان پہنچائے، جس کا نقصان سماج اور معاشرے کے ساتھ ساتھ اس کی ذات کو بھی ہوتا ہے۔
آج کے دور میں جہاں فحاشی اور عریانیت بڑھتی جارہی ہے، بے پردگی عام ہو رہی ہے، انسان محفوظ نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو کسی بھی فیلڈ میں جانے سے منع نہیں کیا، عورت ہر فیلڈ میں جا سکتی ہے، بس اس کا طرز، اسلامی ہونا چاہیے، اس کی گفتار، کردار، حلیہ، اور کلچر اسلامی ہونا چاہیے۔ ہمیشہ اس کی نگاہیں حدود الٰہی میں رہنی چاہئیں، جہاں اللہ تعالیٰ سورۃ نور میں عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیتا ہے، وہیں سب سے پہلے مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمایا: اے نبی ﷺ مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (24:30)۔ اے نبی ﷺ مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے (24:31)
اج ماڈرن کلچر اور رہن سہن لوگوں پر حاوی ہو رہا ہے۔ ہر انسان آزادی آزادی چیخ رہا ہے۔ عورتوں کو پردے سے آزادی، مردوں کو کمانے کی آزادی، بچوں کو اپنی مرضی کی آزادی وغیرہ۔ جیسے جیسے ماڈرن کلچر، ماڈرن پڑھائی، رہن سہن لوگوں پر حاوی ہو رہا ہے، ویسے ویسے ہر انسان نفس پرستی میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے، جس سے انسانی معاشرے میں جرائم اور گناہ بڑھتے جا رہے ہیں، انسان ذہنی امراض کا شکار بنتا جا رہا ہے، اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگ رہا ہے جس کے نتیجے میں لوگ نشے کی لت کا شکار ہو رہے ہیں۔ نشے کی لت، فحش ویب سائٹس اور ایپس انسانوں کو ذہنی امراض کا شکار بنا رہی ہیں، جس کی وجہ سے خود کشیاں بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ دنیا میں ہر سال آٹھ لاکھ افراد خودکشی کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ خدا پرستی سے دور ہو کر نفس کی غلامی میں گرفتار ہو کر سماج اور معاشرے میں خرابی کا سبب بنتے ہیں۔
بے لگام آزادی سے انسان اپنے فائدے کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچا رہا ہے، جس سے معاشرے میں زیادہ تر انسان بے امنی، بے چینی اور ذہنی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ وہیں لوگ سوشل میڈیا کے جال میں پھنسے جا رہے ہیں جو شیطان کا بچھایا ہوا ایک جال ہے۔ WhatsApp اور Facebook نے انسانوں کے اندر بد اخلاقی و بدتمیزی کے جال بچھا دیے ہیں جس کے نقصان سے اللہ ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، اس کی پیروی کرنے والا اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا (24:21)۔
اگر آج سے اس پر غور نہ کیا جائے اور معاشرے کو بیدار نہ کیا جائے تو اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اس کے لیے سماج کے ہر فرد کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ ہر فرد کو اپنی زندگی قرآن اور سنت کی روشنی میں گزارنے کا عہد کرنا چاہیے اور رسول اللہ ﷺ کو اپنی زندگی کا رول ماڈل بنانا چاہیے۔
اچھے اخلاق ہماری زندگی کا ایک قیمتی سرمایہ ہے جس سے ہماری زندگی ایک مثالی نمونہ بن سکتی ہے۔ اسی طرح اچھے اخلاق والے انسانوں سے ہمارا سماج ایک مثالی سماج بن سکتا ہے۔ اگر انسان میں اخلاق ختم ہو جائیں تو اس میں اور جانور میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ حسنِ اخلاق کا دوسرا نام انسانیت ہے۔ قوم یا معاشرے کی بنیاد اسی جذبے پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اور سماج خوش اخلاقی جیسی صفت نہیں اپناتی، اس کی بنیادیں کھوکھلی اور ناپائیدار ہو جاتی ہیں۔ حسنِ اخلاق خندہ پیشانی اور اچھے برتاؤ کی کیفیت کا نام ہے۔
حسن کردار سے نورِ مجسّم ہو جا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہوجائے
رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے روز میرے سب سے زیادہ نزدیک وہ ہوگا جس کے اخلاق اچھے ہوں‘‘۔
اخلاقی محاسن میں بلند انسان ہمیشہ دوسروں سے محبت اور احترام کے ساتھ پیش آتا ہے۔ جس طرح پھول خوشبو کے بغیر پھول کہلانے کا حق دار نہیں ہوتا اسی طرح انسان بھی اچھے اخلاق کے بغیر انسان کہلائے جانے کا مستحق نہیں ہوتا۔ خوش اخلاقی انسان کی فطرت میں ٹھیراؤ پیدا کرتی ہے، عاجزی اور انکساری پیدا کرتی ہے اور معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا خاتمہ کرنے میں مدد کرتی ہے۔ منفی رویّوں کا اثر زائل کرتی ہے اور صحت مند معاشرے کی تعمیر میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ انسان کے نیک اعمال میں انسانیت اور خوش اخلاقی سے تعلق رکھنے والے افعال سب سے زیادہ خوش گوار ہوتے ہیں۔ اخلاق کے بغیر انسان ایک بے جان جسم کے مانند ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن مومن کے اعمال میں سب سے زیادہ بھاری چیز جو میزان میں ہوگی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے۔
آزادی کی ضمانت انسان کو تبھی مل سکتی ہے، جب ہر شخص اپنے اندر چھپے ہوئے جوہر کو نکھارے اور اپنے اندر رحم دلی، ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرے۔ آج سے بلکہ ابھی سے ہمیں اپنے معاشرے کے سدھار کے لیے آگے آنا ہوگا اور ایک صحت مند معاشرہ بنانے کی پہل کرنا ہوگا۔ اس کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو اچھے اخلاقی محاسن کا حامل بننا ہوگا اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی تیار کرنا ہوگا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024