ہنگامی چناؤ سے الگ میزورم نے صاف و شفاف الیکشن کی پیش کی نظیر
منی پور سانحہ اور نوجونوں کے مسائل میزروم کی سیاست پر غالب رہے
شبانہ جاوید ،کولکاتہ
انوکھے انداز میں چلائی گئی الیکشن مہم میں ووٹروں کے سامنے دولت و طاقت کا مظاہرہ ندارد !
میزورم بھارت کے نارتھ ایسٹ کی ایک ایسی ریاست ہے جو اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے بھارت کے seven sisters کہی جانے والی ریاستوں میں سے ایک ریاست میزورم کی راجدھانی (Aizawl) ایزوال ریاست کا سب سے بڑا شہر ہے ۔یہ ملک کی پانچویں سب سے چھوٹی ریاست اوردوسری سب سے کم آبادی والی ریاست ہے۔ 2024 میں جہاں ملک میں ہونے والے لوک سبھا الیکشن سے پہلے کئی ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہورہے ہیں ۔ ان میں ایک اہم نام میزورم کا بھی ہے لیکن ملک کے دیگر ریاستوں کے مقابلے میزورم میں سیاسی ہلچل بالکل الگ طرح کی نظر آتی ہے سیاسی سرگرمیاں ایسی ہیں جو اپنے آپ میں ایک مثال پیش کرتی ہیں ساتھ ہی دوسری ریاستوں کے سیاسی لیڈران اور عام لوگوں کو ایک نیا سبق بھی سکھاتی ہیں کہ کس طرح صاف و شفاف اور لوگوں کے دلوں میں گھر بنا کر الیکشن لڑا جا سکتا ہے کیونکہ میزورم میں الیکشن کا ماحول پرامن رہا نہ کوئی ہنگامہ دیکھنے کو ملا نہ کوئی تناؤ سامنے آیا ۔امن و سکون کے ماحول میں لوگوں نے فخریہ انداز میں اس امید پر ووٹ ڈالے کہ انہوں نے جس امیدوار کو بھی چنا ہے وہ ان کی امیدوں پر پورا اترے گا ۔
جمہوری ملک میں ووٹنگ کی طاقت اس ملک کے شہریوں کے لیے ایک بڑا ہتھیار مانا جاتا ہے ووٹنگ کا اختیار ایک ایسا حق ہے جس کے تحت لوگ اپنے مسائل کے حل کی امید لئے ہوئے استعمال کرتے ہیں امیدواروں کو بھی عوام کے ووٹنگ پاور کا احساس ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ امیدوار بھی اپنے ووٹروں کے قریب رہ کر ان کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی دکھاتے ہیں ۔ ملک کی کسی بھی ریاست میں الیکشن ہوتا ہے تو انتخابات کے آغاز میں جو گونج سنائی دیتی ہے وہ انتخابی دنگل کے نام سے سنائی دیتی ہے۔ دنگل یعنی ایک ہنگامہ شروع ہوتا ہے مختلف پارٹیوں کے امیدوار نہ صرف میدان میں ہوتے ہیں بلکہ ان پارٹیوں کے اراکین بھی ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار رہتے ہیں الیکشن کا موقع آتے ہی ہر جگہ انتخابی جلسے جلوس کے ساتھ ساتھ ریاست بھر میں بڑے بڑے جھنڈے لگائے جاتے ہیں یہاں تک کہ گھروں کی دیواروں کو بھی انتخابی نعروں سے سجایا جاتا ہے ساتھ ہی ساتھ الیکشن کے موقع پر مار پیٹ اور خون خرابہ بھی عام بات ہوتی ہے ہزاروں لوگ سیاسی دنگل میں اپنی جانیں گنواتے ہیں ایسا نہ صرف اسمبلی اور لوک سبھا کے الیکشن کے دوران دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ ایک معمولی پنچایت الیکشن کے موقع پر بھی ملک کی مختلف ریاستوں میں ایسی ہی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے ہر پارٹی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ان کے ورکروں کو مارا گیا ہے ان کے اراکین کا قتل بھی کیا گیا ہے وغیرہ ۔کبھی کبھی تو حالات اتنے خراب ہوتے ہیں کہ کئی لوگ الیکشن کے موقع پر گھر چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں لوگوں کے گھروں کو جلا دیا جاتا ہے پولیس کا پہرہ بٹھا دیا جاتا ہے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ لوگوں میں ڈر اور خوف کا ماحول ہوتا ہے لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ بوتھ تک جانے سے بھی کتراتے نظر آتے ہیں ۔ ایسے میں سیاسی لیڈران سمیت الیکشن کمیشن بھی ووٹروں سے اپیل کرتا نظر آتا ہے کہ وہ بے خوف ہو کر ووٹ ڈالنے کے لیے جائیں لیکن ہمارے ملک کی ان تصویروں کے ساتھ حال ہی میں ایک ایسی تصویر بھی دیکھنے کو ملی جس سے ہر ریاست اور ہر پارٹی کے لیڈروں کو سبق لینا چاہیے۔ جی ہاں وہ ریاست میزرم ہی ہے کیونکہ وہاں اسمبلی الیکشن کے لیے سات نومبر کو ووٹ ڈالے گئے ہیں ووٹنگ کے دن نہ صرف ماحول پرا من رہا بلکہ انتخابی مہم کے دوران بھی اس ریاست کو دیکھ کر نہیں لگا کہ یہاں 40 سیٹوں کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں بالکل انتخابی شور شرابے سے بالکل الگ اس ریاست نے صاف اور شفاف الیکشن کی ایک انوکھی نظیر پیش کی ہے۔ 40 سیٹوں کے اسمبلی حلقے والے ریاست میزورم میں میزو نیشنل فرنٹ (MNF) برسر اقتدار جماعت ہے ساتھ کانگریس ، بی جے پی سمیت زوزم پیپلز موومنٹ( ZPM ) بھی انتخابی میدان میں ہے پہلی بار عام آدمی پارٹی نے بھی یہاں 4 اسمبلی حلقوں کے لئے اپنے امیدوار نامزد کیے ہیں مختلف پارٹیوں کے تقریباً 174 امیدوار انتخابی میدان میں ہیں جن میں 16 خواتین ہیں جبکہ 851895 ووٹر امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے میزورم کی کل آبادی 1,091,014 ہے جن میں 87.16 فیصد عیسائی 8.51 فیصد بودھ2.75فیصد ہندو اور 1.36 فیصد مسلم ہیں انتخابی مہم کے دوران جب میزورم کا جائزہ لیا گیا تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ یہاں کسی بھی موڑ ، کسی بھی علاقے اور چوک پر ایک بھی پارٹی کا کوئی سیاسی جھنڈا یا بینر نظر نہیں آیا نہ ہی کسی علاقے میں کوئی انتخابی جلسے و جلوس منعقد کیے گئے ۔ایسالگ ہی نہیں رہا تھا کہ میزورم میں الیکشن ہورہے ہیں یہاں امیدواروں کی جانب سے ووٹروں کے گھر گھر جا کر ووٹنگ کے لیے اپیل کرنے کی روایت بھی دیکھنے کو نہیں ملی نہ ہی کسی مکان کے در و دیوار انتخابی نعروں سے سجے ملے نہ ہی کسی ووٹر کے دروازے پر کوئی امیدوار کھڑا ملا لیکن ان سب کے باوجود یہاں ووٹنگ ہوئی اور اس ووٹنگ میں مختلف پارٹیوں کے امیدواروں نے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے جو جیت کی امید کے ساتھ جی جان سے محنت کر رہے تھے لوگوں سے وعدے کر رہے تھے ان کے وعدوں کو پورا کرنے کی امید دلارہے تھے اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نہ کوئی جھنڈا نہ کوئی بینر نہ کوئی جلسہ نہ کوئی جلوس ایسے میں کہاں یہ وعدے کیے گئے اور کہاں لوگوں کو امید دلائی گئی کہ وہ ان کے مطالبات کو پورا کریں گے ساتھ ہی ساتھ اکثریت عیسائی آبادی والی اس ریاست میں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر بھی نعرے بازی دیکھنے کو نہیں ملی یہاں شام کے وقت کمیونٹی ہال میں ہر پارٹی کے لیڈر اورامیدوار ووٹروں کے روبرو ہوتے ہیں اور ان کے سوالوں کے جوابات دیتے ہیں اب آپ اسے انتخابی مہم سمجھیں یا انتخابی جلسہ ! بس یہی ایک انتخابی ہلچل تھی جو کمیونٹی سینٹر کے اندر ہی محدود تھی اور اس کمیونٹی سینٹر میں ہونے والے وعدے ووٹروں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں اور صرف یہی ایک میٹنگ ہی پورے الیکشن پر چار کا حصہ رہتی ہے اور یادرہے کہ یہ میٹنگ بھی کوئی سیاسی پارٹی منعقد نہیں کرتی بلکہ وہاں کی مقامی سول سوسائٹی آرگنائز کرتی ہے۔ میزورم کے لوگ کافی ایماندار ہوتے ہیں الیکشن میں پیسے کی طاقت کا استعمال نہ ہو اسکے لیے میزورم کی تمام انتخاباتی پارٹیوں نے مل کر باقاعدہ ایک معاہدہ کیا ہوا ہے جس کے تحت انتخابات کے دوران کسی بھی قسم کے عام پرچار کی اجازت امیدواروں کو حاصل نہیں ہے۔ سول سوسائٹی کی مشترکہ تنظیم میزو نیشنل فورم کو لوگوں کی حمایت حاصل ہے یہی فورم ہر پارٹی کے امیدواروں کو لیکر عام لوگوں کی میٹنگ کمیونیٹی ہال میں منعقد کرتی ہے جہاں تمام لوگوں کے سامنے ہر پارٹی کے امیدوار ہوتے ہیں اور انکے سوالوں کا جواب دیتے ہیں اور اسی ایک میٹنگ کو سامنے رکھ کر ووٹراپنے پسند کے امیدواروں کو ووٹ ڈالتے ہیں ۔
میزورم کی سیاست میں نوجوانوں کا مدعا ابھر کر سامنےا یا۔وہاں کے نوجوانوں میں بھی بیروزگاری کو لے کر ناراضگی دیکھنے کو ملی ساتھ ہی ساتھ پڑوسی ریاست منی پور میں پچھلے دنوں ہوئے ہنگامے کا اثر بھی میزورم کی سیاست میں واضح طور پر دیکھنے کو ملا اور بی جے پی ان حالات پر سوالوں کے جواب دینے میں بھی ناکام نظر آئی ۔حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ مرکز میں حکومت ہونے کے باوجود بی جے پی میزورم جیسی صرف 40 اسمبلی سیٹوں والی ریاست میں بھی تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے میں ناکام رہی ساتھ ہی ساتھ یہ جو سمجھا جا رہا تھا کہ برسراقتدار جماعت ایم این ایف شاید بی جے پی کے ساتھ الائنس کرے گی وزیراعلی زورمتھنگا (zoramthanga) کو سامنے آکر یہ کہنا پڑا کہ منی پور کے حالات سے وہ اور ان کی ریاست کے لوگ افسردہ ہیں ان حالات میں منی پور سے آنےوالے متاثرین کی مدد کے لیے ان کی پارٹی تیار رہے گی ۔بتادیں کے منی پور کے لگ بھگ 12 ہزار متاثرین میزورم میں پناہ لئے ہوئے ہیں جبکہ یہاں میانمار کے متاثرین بھی موجود ہیں بنگلہ دیش و میانمار کی سرحد کے قریب آباد میزورم ہمیشہ سے ہی میانمار کے لوگوں کی مدد کرتا آرہا ہے ۔ساتھ ہی ساتھ وزیر اعلیٰ میزورم نے یہ بھی کہا کہ منی پور میں بی جے پی کے اقدامات مایوس کن رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی پارٹی بی جے پی کے ساتھ الیکشن سے پہلے نہ الیکشن کے بعد کسی بھی اتحاد میں شامل نہیں ہوگی 40 اسمبلی سیٹوں والے میزورم میں بی جے پی کی صرف ایک سیٹ ہے بی جے پی نے یہاں جیت حاصل کرنے کے لئے پوری طاقت لگائی ہے لیکن منی پور کے سیاسی ہنگامے نے یہاں بی جے پی کو سب سے زیادہ پست کیا ہے عام لوگوں میں بی جے پی کو لیکر ناراضگی ہے جبکہ بی جے پی کو امید ہے کہ وزیر اعظم کی اپیل کا فائدہ بی جے پی کو ملے گا بی جے پی لیڈر نے کہا کہ بی جے پی کے خلاف غلط پروپگنڈہ کیا جارہا ہے اس لیے یہاں کے دیہی علاقے کے لوگوں میں بی جے پی کے خلاف ناراضگی ہے لیکن وزیر اعظم کی اپیل اور انکے وعدے لوگوں کو بی جے پی کی جانب متوجہ کریں گے جبکہ سیاسی ماہرین کے مطابق بی جے پی یہاں بڑی طاقت نہیں ہے جسے لوگوں کا ساتھ نہیں ملے گا ریسرچ اسکالر کے لال رومپائی کے مطابق ہندو تو اور بی جے پی کے ایجنڈے کے لئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے جبکہ یہاں کے عام لوگوں میں منی پور کے واقعے کو لیکر سخت ناراضگی پائی جاتی ہے میزورم یونیورسیٹی کے پروفیسر جے ڈونگل کے مطابق یہاں کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ مقامی نوجوانوں کو نوکری کے مواقع فراہم کئے جائیں ۔روزگار کی تلاش میں میزورم سے باہر گئے مقامی لوگ واپس آنا چاہتے ہیں لیکن یہاں نوکری نہیں ہے ایک اور مقامی خاتون سلیمہ نے کہا کہ وہ بھی اپنے بچوں کو آئی اےایس افسر او رڈاکٹر وانجینئر بنانا چاہتی ہیں لیکن یہاں تعلیم بہت مہنگی ہے انکے شوہر ٹیکسی چلاتے ہیں انکے لئے بہترین اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلانا ممکن نہیں ہے جبکہ سرکاری اسکول معیاری نہیں ہیں اسلئے سرکار کو چاہئے کہ وہ تعلیم سستی کرے۔
میزورم کے نتائج کیا ہوں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن جو بھی ہو یہاں کے لوگوں نے آپسی اتحاد کے تحت سیاست کو آلودہ ہونے سے بچا کر رکھا ہے وہ لائق ستائش ہے ۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 نومبر تا 18 نومبر 2023