ہم پر رسول اللہ ﷺ کے حقوق

رسول اللہ ؐسے محبت اور اطاعت کے تقاضے

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

دنیا میں جتنے بھی تعلقات ہیں ان کی نسبت سے ایک دوسرے پر حقوق عائد ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر ان گنت احسانات ہیں ۔اللہ کی ربوبیت متقاضی ہے کہ بندے اسی کی بندگی اختیار کریں ۔ بندوں پر رب کا سب سے بڑا حق یہ ہے صرف اسی کی بندگی کی جائے اور اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ یعنی ربوبیت ، الوہیت کا تقاضا کرتی ہے۔والدین کا حق اولاد پر یہ ہے کہ وہ ان کی خدمت کریں ،ان کا احترام کریں ، ان کے لیے دعا کریں اور معروف میں ان کی اطاعت کریں ۔بندوں کا ایک دوسرے پر حق یہ ہے کہ کوئی کسی کی جان ،مال ، عزت وآبرو کے لیے خطرہ نہ بنیں اور ان حقوق اداکریں جو رب العالمین نے ایک دوسرے کے لیے مقرر کیے ہیں ۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے بھی کئی حقوق ہیں جوآپ کی امت پر عائد ہوتے ہیں ۔چونکہ رسول ،والدین سے بھی بڑھ کر امت کا خیرخواہ ہوتا ہے اور ان کو جہنم کے راستے سے بچاکر جنت کے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اسی لیے رسول اللہ ﷺ کی امت کے ہرفرد کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺکے ہم پر جو حقوق عائدہوتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔ان حقوق کو درجِ ذیل سطورمیں پیش کیا جارہا ہے:
۱۔اللہ کے رسول پرایمان لانا:مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ۔ محمدؐ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں ، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ (سورۃ الاحزاب ۴۰)
ایمان کا لازمی جز یہ ہے کہ ایک مسلمان ،توحید کے بعد رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لائے ۔آپ نہ صرف رسول ہیں بلکہ اللہ کے آخری رسول ہیں ۔جو کوئی آپ کو خاتم النبیین تسلیم نہیں کرتا اور آپ کے بعد بھی کسی کو نبی یا رسول مانتا ہے تو ایسا شخص مسلمان نہیں ہو سکتا ۔یہ بھی ایمان کا جز ہے کہ صدقِ دل سے یہ تسلیم کیا جائے کہ آپ پر دین کی تکمیل ہوئی ہے۔ اس لیے دینی امور میں نہ کسی چیز کا اضافہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کمی کی جاسکتی ہے۔یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے سارے انسانی مسائل کا حل رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت میں پیش کیا گیا ہے۔یہ بھی ماننا ایمان بالرسالت کا حصہ ہے کہ آپ نے بشر ہوکر رسالت کے عظیم الشان فریضہ کو ادا کیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش فرمایا ۔یہ بھی ایمان کا حصہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی سے نہ پڑھنا سیکھا اور نہ لکھنا سیکھا بلکہ آپ نے براہِ راست خالقِ کائنات سے سیکھا اور پھر معلم انسانیت بنادیے گئے (سورۃ الجمعہ ۲، سورۃ علق ۱ تا ۵) یہ بھی ماننا لازم ہے کہ کرۂ ارض پر ہدایت کا واحد ذریعہ دین اسلام اور شریعت ِ محمدی ہے۔ اس لیے کہ اب روئے زمین پر قرآن کے سوا کوئی دوسری الہامی کتاب اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں ہے۔یہ بھی ایمان بالرسالت کا حصہ ہے کہ حضرت جبرائیلؑ کے ذریعے سے قرآن آپ کے قلبِ مبارک پر نازل کیا گیا ہےاور اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خودلے لیا ہے ۔اب قرآن قیامت تک کتابِ محفوظ کی شکل میں باقی رہے گا۔یہ سب باتیں ایمان بالرسالت میں شامل ہیں ۔
۲۔رسول اللہ ﷺ کی اطاعت :مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۔جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔ اور جو مُنہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بناکر تو نہیں بھیجا ہے۔(سورۃ النساء ۸۰)
رسول دنیا میں اللہ کا نمائندہ ہوتا ہے۔اللہ کی مرضی کو معلوم کرنے کا واحد ذریعہ رسول کا قول و عمل ہے۔اس لیے رسول کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات قانون کا درجہ رکھتے ہیں ۔اس لیے رسول کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قراردیا گیا ۔منکرینِ حدیث رسول اللہ کے اس حق کو پامال کرتے ہیں ۔ صرف ایک فیصدموضوع احادیث کی وجہ سے ۹۹فیصد احادیث صحیحہ کا انکار دراصل رسول کی اطاعت کے انکار کا حیلہ ہے۔حضرت عمرؓ نے ابوموسیٰ اشعری کو خط لکھا تھا کہ موضوع احادیث کو جانچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان احادیث کو قرآن پر پیش کیا جائے ۔جواحادیث قرآن پر پوری اتریں ان کو لیا جائے۔
۳۔رسول اکرم ﷺسے شدید محبت رکھنا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد اور والدین سے بڑھ کر محبوب نہ بن جاؤں۔(نسائی)
اس حدیث میں فرمایا گیا کہ ایمان کی شرط یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺسے محبت اپنی اولاد اور والدین سے بھی زیادہ ہونا چاہیے اس لیے کہ آپ ہمارے سب سے بڑھ کرخیرخواہ ہیں یہاں تک کہ ہم خود اپنے لیے اتنے خیرخواہ نہیں ہیں جتنے کہ آپ ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔(سورۃ التوبہ ۱۲۸)
رسول اللہ ﷺ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اصحابِ رسول سےاور اہلِ بیت سے بھی سچی محبت رکھیں جن میں امہات المومنین شامل ہیں ۔
۴۔رسول اللہ ﷺ کی عزّت و توقیر کی جائے :اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔(سورۃ الحجرات ۲)
رسول اللہ ﷺکی آوازسے اپنی آوازاونچی کرنا بھی گستاخی میں شمار کیا گیا ہے۔اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام نے اللہ سے ڈرکر اپنی آوازوں کو بہت پست کردیا تھا (سورۃ الحجرات ۳) رسول اللہ ﷺ کی عزت و توقیر میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ کی ذات پر کسی دوسری شخصیت کو مقدم نہ رکھا جائے( سورۃ الحجرات ۱)۔آپ کے کلام پر کسی کی رائے کو مقدم رکھنا دراصل آپ کی شان میں بے ادبی ہے۔
۵۔رسول اللہ ﷺ کی حمایت اور دفاع: رسول اللہ ﷺ کے مقاصدِ بعثت کو اور رسول اللہ سے اہلِ ایمان کے تعلق کی بنیادوں کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا : الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۔جو اس پیغمبرنبی اُمّی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر اُنہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔(سورۃ الاعراف ۱۵۷)
اس ایک آیتِ مبارکہ کے آخر میں رسول اللہ ﷺکے ہم پر چارحقوق بیان کیے گئے ہیں :آپ کی رسالت پر ایمان لانا، آپ کا دفاع کرنا ، آپ کی نصرت کرنا اور قرآن کی اتباع کرنا ۔
رسول اللہ ﷺکی زندگی میں صحابہ کرام نے غزوات میں آپ ﷺ کا بھر پور دفاع کیا تھا بالخصوص غزوۂ احد میں ۱۱ انصاری صحابہ آپ کادفاع کرتے ہوئے شہید ہوگئے تھےاور طلحہؓ بن عبیداللہ رسول اللہ ﷺ کے آگے سینہ سپر ہوکر آپ ؐ کا دفاع کرتے ہوئے شدید زخمی ہوگئے تھے ۔ان کے جسم پر ۷۰سے زیادہ زخم لگ چکے تھے۔آپ نے فرمایا جس نے زندہ شہید کو دیکھنا ہوتو طلحہؓ کو دیکھ لے۔اسی طرح حسان بن ثابت ؓ شعر کہہ کر آپ کا دفاع کرتے تھے جب کفارآپ کا شاعری کی شکل میں استہزا کیا کرتےتھے۔
آج کے دورمیں رسول اللہ ﷺ کا دفاع کیا ہے؟ اسلام دشمن لوگوں کے اعتراضات کا دلائل کی روشنی میں جواب دینا اور غیر مسلموں کے سامنے رسول اللہ کی حقیقی تصویر کوپیش کرتے ہوئے آپ کا دفاع کرنا ہے۔بالخصوص حضرت عائشہؓ کی کم عمر میں نکاح و رخصتی ،تعدد ازواجِ رسول اورآپ کا منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح ، بنی قریظہ کے مردوں کاقتل وغیرہ پر مدلل جواب دینا غیور مسلمانوں پر فرض ہے۔
۶۔ رسول اللہ ﷺ کے مشن کو اختیار کرکے آپ کی نصرت کرنا :قرآن میں مختلف مقامات پر رسول اللہ ﷺ کے منصبِ رسالت کے فرائض کو پیش کیا گیا ہے۔کہیں آپ کو شاہد ،مبشر ،نذیر،داعی الی اللہ اورسراجِ منیر کے مناصب کے ساتھ آپ کے مشن کو واضح کیا گیا (سورۃ احزاب ۴۵، ۴۶)۔کہیں معلم اور مزکی کی حیثیت سے آپ کے پیغمبرانہ رول کو پیش کیا گیا (سورۃ الجمعہ ۲)۔کہیں دین کے غلبہ کے لیے جدوجہد کرنے والی ہستی کے طورپر آپ کو پیش کیا گیا (سورۃ الصف۹)۔رسالت کے جتنے بھی فرائض قرآن میں بیان کیے گئے ہیں وہ فرائض اب امتِ مسلمہ کی طرف منتقل کردیے گئے ہیں تاکہ امتِ مسلمہ کے ذریعے اسلام کا پیغام ساری انسانیت تک پہنچتا رہے(سورۃ البقرۃ ۱۴۳)۔صحابہ کرام نے اپنے مقام و منصب کو رسول اللہ کے مشن سے جوڑا اور رسول کے مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنایا اور دنیا کے مختلف براعظموں میں پھیل گئے اور اسلام کی روشنی سے دنیا کے مختلف حصوں کو منورکرنے کا ذریعہ بنے۔آج رسول اللہ ﷺ کی نصرت سے یہی مراد ہےکہ آپ کے مقاصدِ بعثت کو امتِ مسلمہ اپنا مقصدِ وجود بنالے۔ بالخصوص دعوت الی اللہ کے فریضہ کو اپنا مقصدِ وجود بنا کر دنیا کی رہنمائی کرے اورجہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ان کی زندگی کا مقصدیہ ہونا چاہیے کہ وہ دین کو اپنی ذات پر ،اپنے معاشرہ میں اور اپنے ملک میں قائم کریں جس طرح رسول اللہ نے مدینے میں اسلامی ریاست کو قائم کرکے اس میں شریعت کا نفاذکیا تھا ۔ دین کا قیام دراصل اللہ کی اور اللہ کے رسول کی نصرت ہے(سورۃ محمد۷)۔
۷۔ رسول اللہ ﷺ پر نازل کردہ کلام (قرآن ) کی اتباع کرنا :قرآن کو نور کہا گیا ہے ۔قرآن ہی وہ روشنی ہے جو کائنات کی غیبی سچائیوں پر روشنی ڈالتی ہے اوران کو اجاگر کرتی ہے۔جب تک خارج سے روشنی نہ ملےتو تاریکی میں انسان کی بصارت بھی فائدہ نہیں دیتی ۔اسی طرح جب تک ہدایت کی روشنی نہ ملے،انسان چاہے کتنی ہی اندرونی بصیرت رکھتا ہو وہ ہدایت یافتہ نہیں بن سکتا ۔آج قرآن کے نورِہدایت سے استفادہ کرنے کے بجائے قرآن کی محض حصول ثواب کے لیے تلاوت کی جاتی ہے تو کیسے امتِ مسلمہ صراط مستقیم پر قائم رہ سکتی ہے۔اسی لیے فرمایا گیا کہ قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنایا گیا ہے(سورۃ القمر)اور اس کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس کی آیات پر تدبّر کیا جائے اور اس سے نصیحت حاصل کی جائے(سورۃ ص ۲۹)۔ حدیث میں فرمایا گیا کہ اللہ اس قرآن کے ذریعے (اس کے مطابق عمل کرنے کے نتیجے میں ) اقوام کو اٹھاتا ہےاور اس قرآن کے ذریعے(اس کی تعلیمات کو فراموش کرنے کے نتیجے میں ) اقوام کو گراتا ہے(مسنداحمد)
۸۔ رسول اللہ ﷺ کی باتوں کی تصدیق: آپ کے اقوال و افعال کو بغیر کسی شک و تردّد کے صدقِ دل سے ماننا ۔جب رسول اللہ ﷺنے اسراء و معراج کے واقعے کی تفصیلات کو لوگوں کے سامنے پیش کیا تو کفارو مشرکین نے آپ کا خوب مذاق اڑایا ۔جب یہ واقعہ حضرت ابوبکرؓ کے سامنے اس انداز میں پیش کیا گیا کہ راتوں رات آپ آسمانوں کی سیر کرکے آئے ہیں تو ان کو یہ امید تھی کہ ابوبکرؓ شک و تردّد کا اظہار کریں گے۔لیکن انہوں نے کہا کہ اگر واقعی محمد رسول اللہ ﷺ نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے تو یقیناً یہ سچ ہے اور اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی ۔اسی بنا پر آپ کو صدیق ؓ کا لقب دیا گیا ۔مزید یہ کہ ابوبکرؓ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہیں ۔جب آپ کے سامنے اسلام پیش کیا گیا تو آپ نے فوراً قبول فرمایا ۔رسول اللہ کے کسی قول و عمل کو دل سے تسلیم نہ کرنا ایمان کو خطرہ میں ڈالنا ہے۔
۹۔ رسول اللہ ﷺ کو فیصلہ کرنے والا جج اور حکم تسلیم کرنا : ارشادِ باری تعالیٰ ہے:فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا ۔نہیں، اے محمدؐ !تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔(سورۃ النساء ۶۵)
۱۰۔آپ پر درود بھیجا جائے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐپر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔(سورۃ الاحزاب ۵۶)
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر درود و سلامتی بھیجتا ہے ۔اس کے بعد فرشتے آپ پر درود بھیجتے ہیں ۔پھر فرمایا کہ اے مومنو!تم بھی رسول اللہ پر درود و سلام بھیجو۔یہ ایک اہم حق ہے جو مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے۔وہ شخص بخیل ہے جو رسول کے ذکر پر آپ پر درود نہ بھیجے ۔ دوسرے مقام پر ایسے شخص پر لعنت بھیجی گئی جو آپ کے نام کا ذکر سن کر درودنہ بھیجے ۔دراصل یہ اللہ کا وعدہ ہے رسول اللہ ﷺ سے کہ اس نے آپ کے ذکر کا آوازہ بلند کیا (سورۃ انشراح ۴)۔اس لیے امتِ مسلمہ پر یہ فرض کردیا گیا ہے کہ ہرمسلم نماز میں اور اذکار میں درود کا اہتمام کرے۔اس میں سراسر ہمارا ہی فائدہ ہے۔حدیث میں ہے :جو آپ پر ایک مرتبہ درود بھیجے اس پر اللہ تعالی ٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتےہیں ،دس خطائیں معاف فرمادیتےہیں اور جنت میں دس درجات بلند کیے جاتے ہیں ۔
یہ ہیں وہ حقوق جو ہم پر رسالت مآب محمد ﷺ کی نسبت سے ہم پر عائد ہوتے ہیں، ان کو اداکرکے ہی ہم اس دنیا میں سرخ رو ہوسکتے ہیں اور آخرت میں جنت کے مستحق ہوسکتےہیں ۔حوضِ کوثر پر آپ کے ذریعے سیراب ہوسکتے ہیں اور قیامت میں آپ کی شفاعت کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو رسول اللہ ﷺ کی محبت سے سرشار ہوکر ان حقوق کو ادا کریں گے۔
کی محمدؐسے وفا تو نےتوہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرےہیں
***

 

***

 صرف ایک فیصدموضوع احادیث کی وجہ سے 99فیصد احادیث صحیحہ کا انکار رسول کی اطاعت کا انکار ہے۔حضرت عمرؓ نے ابوموسیٰ اشعری کو خط لکھا تھا کہ موضوع احادیث کو جانچنے کے لیے ان احادیث کو قرآن پر پیش کیا جائے ۔جواحادیث قرآن پر پوری اتریں ان کو لیا جائے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024