ہم نے بھی لہو دے کر گلشن کو سنوارا ہے

چندریان۔3کی کامیابی میں مسلم سائنس دانوں کا کردار ناقابل فراموش

ابو حرم ابن ایاز عمری

خلائی دوڑ میں وشوگرو بننے کی جانب بھارت کا ایک مضبوط قدم
تمام سائنس دانوں کی ستائش اور ہمت افزائی ہونی چاہیے نہ کہ’ لائم لائیٹ‘ صرف کسی ایک شخص کے گرد گھمائی جائے
عیسوی تقویم کا آٹھواں مہینہ ’اگست ‘ پچھلی سات دہائیوں سے اپنے پندرہویں دن حاصل شدہ بھارت کی آزادی کے حوالے سے خاصا اہمیت کا حامل رہا ہے لیکن سال رواں یہ مہینہ ایک اور تاریخ ساز دن کی وجہ سے اتّہاس کے سنہرے اواراق میں اپنا نام درج کرواچکا ہے جو کہ اس ماہ کا تیئیسواں دن ہےیعنی 23اگست 2023ء ملک کی تاریخ کا ایک ایسا یادگار دن تھا جب خلائی دوڑ میں ترقی یافتہ ممالک کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے چاند کے جنوبی قطب پر دنیائے انسانیت کا پہلا کامیاب مشن بنام چندریان۔3بھارتی خلائی تحقیقی ادارہ (ISRO) کے تحت مکمل کامیابی کے ساتھ انجام دیا گیا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس نے عالمی پیمانے پر بھارت کی شبیہ کو ایک انفرادی اہمیت دی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق چونکہ چندریان۔1نے چاند پر پانی کے ہونے کی خبر دی تھی اور اب یہ اسی سلسلے کا تیسرا مشن چاند کے جنوبی قطب پر مٹی کے نمونوں کی شناخت کرے گا اور چاند پر آثارِ زیست کے متعلق بھی انکشافات کر سکتا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ مذکورہ کارنامہ بھارتی سائنس دانوں کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہے جس میں کسی ایک فرد کا کمال نہیں بلکہ یہ بلا تفریق مذہب ایک پورا ٹیم ورک تھا۔ گروپ میں شامل ہر فرد نے اپنی بساط بھر ہر ممکن تعاون پیش کیا تاکہ بھارت کو ایک انفرادی مقام حاصل ہو اور وہ دیگر خلائی محققین کے لیے ایک اہم کڑی کے طور پر اپنا کردار پیش کرسکے۔ اسی لیے ISRO کے سربراہ ایس سومناتھ نے بھی میڈیا کے روبرو واضح الفاظ میں اقرار کیا کہ یہ مشن کسی فرد واحد کا کارنامہ نہیں بلکہ اس میں کئی نسلوں کی کاوشوں اور محنتوں کے ساتھ ان کا خون پسینہ بھی شامل ہے۔
اب اس صورتحال میں تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ ملک کا مرکزی میڈیا اور حکومت کے چھوٹے بڑے کارندے سائنس دانوں کو ان کی کامیابی پر سراہتے، ان کی ہمت افزائی کرتے اور مستقبل میں مزید کارناموں کے لیے ان کی راہ ہموار کرتے لیکن منافقت کی انتہا یہ ہے کہ ایسے موقع پر اس مشن کے حقیقی ہیروز کی محنت کا اعتراف کرنے کی بجائے کسی اور کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں اور ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ جیسی باتیں بھی سر عام ہو رہی ہیں، جبکہ بعض ایسے تلخ حقائق بھی ہیں جنہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ یہ کہ اِسی مودی حکومت کی ایماء پر سال 2023ء اور 2024ء کے لیے ISRO کے لیے جو فنڈ فراہم کیا گیا وہ پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ ہونے کے بجائے کئی فیصد کم کردیا گیا تھا لیکن اب جبکہ مشن غیر معمولی کامیابی حاصل کر چکا ہے تو کریڈیٹ لینے کے لیے حکومت کا کوئی کارندہ پیچھے نہیں ہے اور تمام کے تمام سیاست داں واہ واہی بٹورنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اس تاریخی مشن کے ضمن میں ایک اور قابل افسوس پہلو یہ رہا کہ ہندو مسلم تعصب کی آگ میں جھلستے ہوئے بعض نام نہاد میڈیا کے کارندوں نے اس ملکی خوشی کے موقع پر بھی رنگ میں بھنگ ڈالنے کا کام کیا۔ اپنے کارٹونوں اور زہر آلود بیانات کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ کارنامہ وزیر اعظم مودی کا مرہون منت ہے جس میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ بلکہ مسلمان اس مشن کے سخت مخالف رہے ہیں اور ان کی مخالفت کے باوجود یہ مشن بہترین طریقے سے کامیاب رہا جو کہ مسلمانوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ISRO کی جس ٹیم نے کامیابی کے ساتھ چندریان-3 کو بلندیوں پر پہنچایا اس میں کئی مسلمان سائنس داں ہیں جنہوں نے اپنی انتھک محنتیں اس مشن کے لیے کی ہیں۔
مشتے نمونہ از خروارے کے تحت چند مسلم سائنس دانوں کا تذکرہ حسب ذیل ہے جنہوں نے اس مشن کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
اریب احمد، مظفر نگر
اریب احمد، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے میکانیکل انجینئرنگ میں بی ٹیک کی تعلیم حاصل کرچکے ہیں جو کہ سال 2015ء تا 2019ء بیاچ کے طالب علم تھے۔ ان کا تعلق یو پی کے ضلع مظفر نگر میں واقع تعلقہ کھٹولی سے ہے۔ سال 2021ء میں انہیں ISRO کے ’ستیش دھون خلائی سنٹر، سری ہری کوٹا میں پوسٹ کیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسے نوجوان سائنس داں ہیں جنہوں نے چندریان-3 کی کامیابی میں بہت زیادہ رول ادا کیا۔ اریب احمد اس کامیابی میں مرکزی شخصیت کے طور پر ابھرے۔ 14 جولائی 2023ء میں چندریان-3 کے لانچ ہونے سے پہلے وہ ایک معائنہ ٹیم کا اہم حصہ بھی رہ چکے ہیں۔ اسی طرح مشن کے ایک اہم رکن کے طور پر اریب احمد نے چندریان-3 کے لانچ سے لے کر اس کی کامیاب لینڈنگ تک کلیدی کردار ادا کیا۔
اریب احمد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں چندریان-3 کی ٹیم کا حصہ بننے پر دلی مسرت کا احساس ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مشن ہمیشہ سے میرے دل میں بسا ہوا تھا اور اس کی کامیابی کے لیے میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے۔
خوشبو مرزا، امروہہ
خوشبو مرزا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سال 2006ء میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں بی ٹیک کی سند یافتہ ہیں جو اتر پردیش کے ضلع امروہہ سے تعلق رکھتی ہیں اور فی الحال گریٹر نوئیڈا میں واقع ISRO سنٹر میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ ایک تجربہ کار سائنس داں ہیں جو ArcGIS مصنوعات میں مہارت رکھتی ہیں۔ ArcGIS کلائنٹ، سرور، اور آن لائن جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (GIS) سافٹ ویئر کا ایک مکمل خاندان ہے جسے ESRI (Environmental Systems Research Institute) نے تیار کیا ہے جو ایک امریکی کمپنی ہے۔
خوشبو مرزا اس سے قبل چندریان-1 اور چندریان-2 دونوں پروجیکٹوں کی ٹیم کا حصہ رہ چکی ہیں اور اب چندریان-3 کے مشن میں بھی شامل رہیں۔ ISRO میں ان کی نمایاں کارکردگیوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ تقریباً 8 سال قبل اپریل 2015ء میں خوشبو مرزا کو اسرو ٹیم ایکسیلنس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
خوشبو مرزا کا کہنا ہے کہ چندریان-1 مشن کے بعد جب سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے ساتھ ان کی تصویر مقامی اخبار میں چھپی تھی تو سب نے ان کی اور اس کی والدہ کی خوب تعریف کی تھی۔ پورا قصبہ گھر والوں کو مبارکباد دینے آیا تھا۔ خوشبو مرزا اب امروہہ کی لڑکیوں کے لیے خصوصی طور پر خلائی سائنس میں ایک بڑی تحریک بن چکی ہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی اسکول جائے اور ان جیسی بنے۔

یاسر عمار، گورکھپور
یاسر عمار مشرقی اتر پردیش کے ضلع گورکھپور میں واقع مدن موہن مالویہ یونیورسٹی آف ٹکنالوجی سے الیکٹرانکس اور کمیونیکیشن انجینئرنگ میں بی ٹیک (2006-2010) کی تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور وہ بھی اس چندریان-3 پروجیکٹ ٹیم میں شامل تھے۔ یاسر عمار اسرو کی موہالی سہولت میں بھی کام کرتے ہیں۔ وہ تقریباً 2010ء سے ISRO کے ساتھ کام کر رہے ہیں، انہوں نے آج تک کئی تحقیقی مقالے لکھے ہیں جن میں سے ایک "Silicon Photomultiplier for Photon Counting Applications کے ڈیزائن اور ترقی پر مشتمل ہے جو کہ ISRO کی طرف سے شائع ہونے والے ایک معتبر تحقیقی جریدے جرنل آف سپیس کرافٹ ٹکنالوجی میں شائع ہو چکا ہے۔
ثناء فیروز، مؤناتھ بھنجن
ثناء فیروز نے بھی مشرقی اتر پردیش کے ضلع گورکھپور میں مدن موہن مالویہ یونیورسٹی آف ٹکنالوجی سے الیکٹرانکس اور کمیونیکیشن انجینئرنگ میں سال 2006-2010 بیچ سے ہی بی ٹیک کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا تعلق اعظم گڑھ کے پڑوسی شہر مؤ سے ہے اور یہ تقریباً 2013ء سے موہالی میں اسرو کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ یہ بھی ان 54 خواتین سائنس دانوں اور انجینئروں میں شامل ہیں جنہوں نے چندریان-3 کی کامیابی میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔
یاد رہے کہ ثنا فیروز اور یاسر عمار دونوں باہمی رشتہ ازدواج میں منسلک ہیں۔ ان میاں بیوی دونوں نے اپنی زندگیاں اسرو کی خدمت میں لگادی ہے اور انہوں نے حالیہ مشن چندریان-3 میں استعمال ہونے والے کیمرے اور سنسر بنانے میں بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ آج جو چاند کی تصاویر ساری دنیا دیکھ رہی ہے وہ انہی کی رہین منت ہے۔
محمد صابر عالم، کٹیہار
محمد صابر عالم، جنہوں نے انڈین انسٹیٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹکنالوجی، ترواننتا پورم (کیرالا) سے ایرو اسپیس، ایروناٹیکل اور ایسٹروناٹیکل انجینئرنگ کے ساتھ بی ٹیک کی ڈگری حاصل کی۔ دراصل وہ ضلع کٹیہار کے بارسوئی بلاک کی چاہا کھور پنچایت کے چھوگڑا کے رہنے والے ہیں۔ تعلیم کے اختتام کے بعد ہی اسرو کے لیے ان کا انتخاب ہو چکا تھا۔ وہ اسرو کے کئی اہم پروگراموں اور مہمات کا حصہ بھی رہے ہیں۔ انہوں نے بحیثیت انجینئر چندریان-3 مشن میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ سال 2018ء سے ISRO کے ترواننتا پورم مرکز میں کام کر رہے ہیں۔
عشرت جمال، بنگلورو
عشرت جمال نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سال 2013ء میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں بی ٹیک کے ساتھ گریجویشن کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے IIT کانپور سے پاور اینڈ کنٹرول میں ایم ٹیک بھی کیا ہے۔ وہ پچھلے چھ سالوں سے اسرو کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ابھی فی الحال بنگلورو میں اسرو کے تحقیقی مرکز میں تعینات ہیں۔ وہ بھی اس شان دار مشن کا حصہ تھے۔ ISRO میں ان کی لیب الیکٹرانک پاور کنڈیشنر (EPC) کو ڈیزائن اور تیار کرنے کے لیے ذمہ داری تھی جو اہم RF اور ڈیجیٹل سب سسٹمز کو طاقت دیتی ہے۔ یہ مشن کی کامیابی کا ایک اہم جزو تھا۔
عشرت جمال کا کہنا ہے کہ وہ ایک پاور الیکٹرانکس انجینئر ہیں اور اسپیس کوالیفائیڈ الیکٹرانک پاور کنڈیشنرز (EPCs)/ مختلف ریڈیو فریکوئنسی (RF) سب سسٹمز جیسے سالڈ اسٹیٹ پاور ایمپلیفائرز (SSPAs) اور ٹریولنگ و یوٹیوب ایمپلیفائرز کے لیے پاور سپلائیز کے ڈیزائن اور ڈیولپمنٹ کا تجربہ رکھتے ہیں۔
اقتدار عباس، گونڈا
اقتدار عباس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹیک (2006-2010) اور موتی لال نہرو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، الہ آباد سے ایم ٹیک کی سند حاصل کرچکے ہیں۔ یہ مشرقی اتر پردیش کے ضلع گونڈا کے رہنے والے ہیں اور ابھی کیرالا میں واقع اسرو کے مرکز ترواننتا پورم میں تعینات ہیں۔ وہ مارچ 2015ء سے ISRO کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ISRO میں شامل ہونے سے پہلے انہوں نے DIT یونیورسٹی دہرادون میں بطور پروفیسر بھی کام کیا ہے، ساتھ ہی انڈین آئل کارپوریشن لمیٹڈ میں آپریشنز مینیجر کے بطور بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اسرو کے مذکورہ کامیاب مشن میں بھی ان کی شراکت داری رہی ہے۔
محمد کاشف، اعظم گڑھ
محمد کاشف جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دلی سے مکینیکل انجینئرنگ میں بی ٹیک ہیں۔ ان کا تعلق اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ سے ہے۔ انہوں نے دسمبر 2021ء میں ISRO کے بنگلورو مرکز میں میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی یہ اہم خصوصیت رہی ہے کہ انہوں نے سائنس داں/انجینئر کے عہدے کے لیے ISRO کے سنٹرلائزڈ ریکروٹمنٹ بورڈ 2019 کے امتحان میں کوالیفائی کیا جبکہ امتحان کا نتیجہ ستمبر 2021ء میں آیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ محمد کاشف نے امتحان میں اول مقام حاصل کیا تھا، انہیں سائنٹسٹ/انجینئر ‘SC’-میکینیکل پوسٹ کے لیے منتخب کیا گیا اور اس کے بعد سے ہی وہ چندریان مشن کا حصہ بنے رہے اور نمایاں کارکردگی دکھائی۔
شیخ مزمل علی، کاغذ نگر
شیخ مزمل علی نے حیدرآباد کے جے این ٹی یو سے بی ٹیک کیا۔ پھر کالی کٹ، کیرالا میں واقع یونیورسٹی سے ایم ٹیک کی تعلیم حاصل کی۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سال 2016ء میں ISRO کا امتحان پاس کیا، جس کے نتیجے میں 2017ء میں ان کی بحیثیت ’سائنٹسٹ گروپ گزیٹیڈ آفیسر‘ تقرری ہوئی۔ ان کا تعلق تلنگانہ کے ضلع کاغذ نگر سے ہے۔ یہ بھی چندریان-3 مشن میں ایک قابل قدر شراکت دار کے طور پر ابھرے ہیں۔
نواب احمد، بریلی
نواب احمد کا تعلق اتر پردیش کے بریلی سے ہے۔ انہوں نے چندریان-3 کے مشن میں سب سے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس مشن کا جو اسٹرکچر اور ڈیزائن تیار کیا گیا اس میں نواب علی کا نہایت ہی اہم اور کلیدی کردار رہا ہے۔ بنیاد اگر بہترین ہو تو پھر عمارت خود بخود احسن ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے نواب علی کی یہ حسن کاوش لائق تحسین ہے۔
یہ تو بطور نمونہ چند مسلم سائنس دانوں کا مختصر تعارف تھا جنہوں نے ISRO کے ساتھ مل کر اس بے مثال مشن کو کامیاب بنایا۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی ایسے مسلم نام ہیں جو ISRO کے ساتھ منسلک ہیں اور ملک کے لیے اپنی مخلصانہ خدمات پیش کر رہے ہیں جیسے محمد اظہر الدین، بنگلورو، رومان حسن، تمل ناڈو، شمشاد حسین، کولکاتا، نذیر احمد، بنگلورو، سید شاداب حیدرآباد، سہیل احمد جموں و کشمیر، عظیم الدین شیخ بنگلورو، عزیر مجیب شاد انصاری بنگلورو، اظہر کے غلام سرور، بنگلورو اور محمود ظفر پنجاب وغیرہ۔
ان تمام کا تذکرہ اسی لیے ضروری سمجھا گیا کیونکہ ملک میں ابھی بھی کئی دشمنِ امن عناصر مسلم سماج کو متہم کرتے ہوئے تصویر کچھ اس طرح پیش کر رہے تھے گویا اس مشن میں صرف ہندو سائنس دانوں کا ہی ہاتھ رہا ہے۔ اگرچہ ان کی بھی ایک بڑی تعداد اس مشن سے وابستہ رہی لیکن مسلم سائنس دانوں کا حصہ بھی ناقابل فراموش ہے جس کا سلسلہ سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام سے ملتا ہے جن کی ملک کے لیے کی گئیں خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
یاد رہے کہ انہی تمام بھارتی سائنس دانوں کی وجہ سے ہمارا ملک اب امریکہ، روس اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ شمار ہو رہا ہے۔ یہ ایسے ممالک ہیں جو خلائی جہاز کی ٹکنالوجی میں یدِ علیا رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت خلائی سائنس میں وشو گرو کے طور پر ابھر رہا ہے۔
اس ضمن میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا سائنس دانوں کے کارنامے نوجوان مسلمانوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے اور انہیں جدید شعبوں میں کریئر بنانے کی ترغیب دینے کی اہمیت کو بھی واضح کرتے ہیں۔ ان کی شراکتیں نہ صرف ملک کی سائنسی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں بلکہ دوسروں کو بھی مشکلات کے باوجود بہترین کارکردگی کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ان تمام افراد کی یہ کامرانی ملک کے ہر شہری کے لیے امید کی کرن کا کام کرتی ہے۔ یہ مشن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عزم لگن اور علم کی پیاس کے ساتھ ہم ستاروں سے آگے تک پہنچ سکتے ہیں۔ صحیح ذہنیت اور عزم مصمم کے ساتھ آگے بڑھا جائے تو پھر آسمان بھی کوئی حد نہیں ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023