ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

مسلمانوں کا بی جے پی کو ووٹ نہ دینے پر شکوے کرنا منافقت کی انتہا

دعوت نیوز بیورو

فلاحی اسکیموں کے نام پر مسلمانوں کو طعنہ دیناغیر جمہوری مزاج کا عکاس
لوک سبھا انتخابات کے نتائج کومنظر عام پر آئے ہوئے ایک مہینہ مکمل ہو چکا ہے اور مرکزمیں تیسری مرتبہ نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کی تشکیل بھی ہوچکی ہے ۔
تاہم انتخابات کے نتائج پر تجزیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ٹی وی چینلوں پر بالخصوص بی جے پی حامی نیوز اینکرز پوری شدو مد کے ساتھ مسلم ووٹروں کے رجحانات پر سوالات اٹھارہے ہیں ۔ان کے مطابق گزشتہ دو انتخابات 2014اور 2019میں مسلم ووٹ بینک جوکافی حد تک بے اثر ہوگیا تھا اس نے 2024کے انتخابات میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ مودی حکومت کی مسلمانوں تک رسائی اور فلاحی اسکیموں کے باوجود مسلمانوں نے انہیں ووٹ کیوں نہیں دیا ۔مسلم ووٹ کے اثر انداز ہونے کے موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے مگر دوسرے سوال پر انصاف پسندتجزیہ نگاروں نےبھی توجہ نہیں دی ہے۔نتائج کے بعد جنتادل یو کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے دیویش چند ٹھاکر نے کہا کہ چوں کہ مسلمانوں اور یادو نے انہیں ووٹ نہیں دیا ہے اس لیے وہ ان کا کوئی ذاتی کام نہیں کریں گے۔دیویش چندٹھاکر اپنے اس بیان پر ہنوز قائم ہیں اور نتیش کمار نے بھی اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا ہے ۔ٹھاکر کے اس بیان کی حمایت میں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر گری راج بھی سامنے آئے اور انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ہمیں ووٹ نہیں دیتے ہیں ۔اس کے بعد سے ہی نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا پر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ فلاحی اسکیموں اور مودی کی کوششوں کے باوجود مسلمان بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے ہیں؟المیہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر ٹی وی چینلوں پر جو مباحثے ہورہے ہیں وہ معروضیت سے خالی ہیں۔2002میں گجرات مسلم قتل عام کے بعدپہلے مودی کی مخالفت میں اور اس کے بعد مودی کی حمایت میں مورچہ سنبھالنے والے ظفر سریش والا کا انڈیا نیوز کو دیا گیا ایک انٹرویو بہت ہی وائرل ہورہا ہے۔بی جے پی کے دوسری صف کے لیڈروں کی بیان بازی کی وجہ سے مسلمانوں نے بی جے پی کوووٹ نہیں دیا۔وہ یہ کہتے ہیں کہ مودی کی کوششوں پر بی جے پی کے دوسری صف کے لیڈروں اور سوشل میڈیا کے کارکنان نے پانی پھیر دیا ہے۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 2012کے گجرات اسمبلی انتخابات میں30فیصد مسلمانوں نے مودی کو ووٹ دیے تھے ۔سریش والا یہ دعویٰ کن بنیادوں پر کررہے ہیں اس کا ہم آگے تجزیہ کریں گے۔تاہم یہ سوال اہم ہے کہ اس ملک کے ووٹرس صرف فلاحی اسکیموں کے استفادہ کی بنیاد پر ووٹنگ کرتے ہیں یا پھر علاقائی، سماجی اور ذاتی بنیاد پر ووٹنگ کرتے ہیں۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کی شکست صرف مسلم ووٹروں کی وجہ سے ہوئی ہےیا حقیقت کچھ اور بھی ہے ؟
ان تینوں سوالات کے تجزیے میں ہی اس سوال کا جواب بھی پوشیدہ ہے کہ مسلمان مودی اور بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے ہیں ؟دراصل بھارت متنوع تہذیب و ثقافت اور زبان اور مذاہب کے ماننے والوں کا ملک ہے۔چنانچہ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک بھارت کے شہریوں کے ووٹ دینے کا رجحان علاقائی،گروہی اور سماجی وجوہات کی بنیاد پر ہی رہا ہے ۔جنوبی ہند کے ووٹرس جن بنیادوں پر ووٹنگ دیتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ شمالی ہند کے ووٹروں کا رجحان وہی ہو۔اس کے علاوہ بھارت کے ووٹرس برادری اور گروہی بنیاد پر بھی ووٹ دیتے ہیں اور ہرایک ذات سے تعلق رکھنے والے اپنے مفادات کی بنیاد پر ووٹنگ دیتے ہیں ۔بلاشبہ بی جے پی نے 2014کے بعد مذہب کی بنیاد پرہندو ووٹروں کو قریب لانے کی کوشش کی ہے اور اس میں اسے کامیابی بھی ملی ہے ۔چنانچہ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 2022کے اسمبلی انتخاب میں کہا تھا کہ اس مرتبہ 80مقابلہ 20فیصد ہے ۔یعنی 80فیصد ہندوؤں کے بالمقابل 20فیصد مسلمان ۔اسی طرح مغربی بنگال میں 2019کے پارلیمانی اور 2021کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے دلت برادری متوا اور راج ونشی کو ووٹ بینک بنانے کی کوشش کی اور اس کا انہیں فائدہ بھی ملا۔ہر فرد ووٹ دیتے وقت مختلف عوامل کو ترجیح دیتاہے ۔جس میں سماجی اصلاحات اور روزمرہ کے مسائل بھی شامل ہوتے ہیں ۔کبھی کبھی ووٹرس وقار کی بنیاد پر بھی ووٹ دیتے ہیں۔بھارت کی آزادی کے بعد مسلمانوں کے سامنے کئی بنیادی سوالات رہے ہیں جس میں مذہبی شناخت، سیکیورٹی اور ترقی کے یکساں مواقع اہم ایشوز رہے ہیں ۔پولیٹیکل سائنٹسٹ ہلال احمد نے بھارت میں مسلم ووٹروں کے رحجانات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مذہبی شناخت کے تحفظ کا ایشو ہمیشہ سے غالب رہا ہے۔اس صورت حال میں یہ سوال ہی غیر اہم ہے کہ فلاحی اسکیموں کے باوجود مسلمانوں نے بی جے پی ووٹ کیوں نہیں دیے؟یہ اس لیے بھی غیر اہم ہے کہ صرف مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ ملک کی بڑی اکثریت نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا ہے کیونکہ ان کے سامنے بہت سارے بنیادی ایشوز تھے تو پھر صرف مسلمانوں پر ہی اس کا الزام کیوں ہے؟بی جے پی لیڈروں کے بیانات کی بنیاد پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اب حکومتیں وفاداری کی بنیادی پر اسکیمیں چلائیں گی۔ تو پھر آئین کے نام پر حلف کی کیا معنویت باقی رہ جائے گی؟کیوں کہ آئین غیر جانب داری کے ساتھ کام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی سوچ غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے۔ فلاحی اسکیمیں جن کا بی جے پی اور ان کے حامی بار بار حوالہ دے رہے ہیں اس کا بھی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی ہندو اور مسلم کی سیاست کریں یا نہ کریں ہم تو کرتے ہیں اور لگاتار مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کر بھی رہے ہیں۔اس کے بعد بھی انہیں امید ہے کہ مسلمان انہیں اس لیے ووٹ دیں کہ حکومت کی فلاحی اسکیموں سے وہ بھی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ہفت روزہ دعوت کے انہی شماروں میں ہم نے سرکاری اسکیموں میں آسام کے مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے امتیازی سلوک پر تفیصلی رپورٹ شائع کی تھی۔اسی طرح مودی کی حکومت نے 2008 میں اقلیتوں کے لیے شروع کی گئی اسکالرشپ اسکیم میں جو کٹوتی کی ہے اس پر بھی ہم گزشتہ شماروں میں تفصیل قارئین کے سامنے رکھ چکے ہیں۔
تعلیم کسی قوم کی سماجی و اقتصادی ترقی کا سب سے طاقتور ذریعہ ہوتی ہے۔زندگی کے بیشتر شعبوں میں پسماندگی کے شکار اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے تعلیمی ترقی سب سے اہم ہے۔چناں چہ 2017 میں مرکزی حکومت کے تحت چلنے والے نیتی آیوگ نے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے لیے تعلیمی پالیسی دستاویز جاری کرتے ہوئے موجودہ پروگراموں کے نفاذ کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی سفارش کی تھی۔مودی حکومت نے ان سفارشات پر عمل کرنے کا وعدہ بھی کیا مگر دوسری مدت 2019 میں اقتدار میں آنے کے بعد مودی حکومت نے وزارت اقلیتی امور کو غیر اہم بنانا شروع کر دیا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں مذہبی اقلیتوں کے لیے دو اہم تعلیمی اسکیموں کو بند کر دیا گیا ہے، ایک اسکیم کا دائرہ کم کر دیا گیا ہے اور اقلیتی امور کی وزارت کے متعدد پروگراموں کے اخراجات کو آہستہ آہستہ کم کر دیا گیا ہے۔اس کے نتیجے میں 2019 اور 2022 کے درمیان مرکزی اسکیموں سے فائدہ حاصل کرنے والے افراد میں کمی آئی ۔پارلیمنٹ میں پیش کردہ تازہ ترین اعداد و شمار سے انکشاف ہوتا ہے کہ آخری بجٹ میں مذہبی اقلیتوں کے لیے چھ تعلیمی اسکیموں پر حکومت کے اخراجات میں تقریباً 12.5 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے، جب کہ مستفید ہونے والوں کی تعداد میں 7 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔2023-24کے بجٹ میں اقلیتی امور کے وزارتی بجٹ میں 5,020.5کروڑ روپے سے3, 790کروڑ روپے تک کمی دیکھی گئی۔ خاص طور پر 2022-23 کے تخمینوں پر نظر ثانی کر کے 2,612,66 کروڑ روپے کردیا گیا جو کہ تقریباً 48 فیصد فنڈز کے کم استعمال کی نشان دہی کرتے ہیں۔
گزشتہ 20 سالوں میں، مرکزی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کو تعلیمی بااختیار بنانے کے لیے تقریباً دس اسکیمیں شروع ہوئیں اور آج صورت حال یہ ہے کہ بیشتر اسکیموں کے فنڈز بڑے پیمانے پر کٹوتی کرکے بے اثر کردیے گئے ہیں۔ اقلیتی امور کی وزارت کی طرف سے نافذ کیے گئے پہلے مرکزی سیکٹر پروگراموں میں سے ایک پری میٹرک اسکالرشپ ابتدائی طور پر پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت کے اقلیتی طلباء کے لیے شروع کی گئی تھی۔اس اسکیم کے تحت منتخب امیدوار کو ایک ہزار روپے سے 10,700 کے درمیان رقم دی جاتی تھی اور اس اسکالر شپ کا 30 فیصد لڑکیوں کے لیے مختص تھا۔گزشتہ سال اسکیم کو کلاس ایک سے آٹھ تک بند کر دیا گیا ہے، اس کی نظر ثانی شدہ شکل میں صرف کلاس نو اور دس کے طلبا کو اس اسکیم کےتحت اسکالر شپ دی جاتی ہے۔مرکزی حکومت کے مطابق چوں کہ پہلی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت تک آر ٹی ای ایکٹ احاطہ کرتی ہے۔وزارت خزانہ نے مرکزی بجٹ 2023-24 میں اسکالرشپ کے فنڈز میں 900 کروڑ روپے سے زیادہ کی کمی کر دی ہے جو گزشتہ سال کے 1,425 کروڑ روپے سے 433 کروڑ روپے کر دی گئی۔ سابقہ یو پی اے حکومت کے دوران مولانا آزاد نیشنل فاؤنڈیشن کی شروعات کی گئی تھی ۔اس کے تحت ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے ریسرچ اسکالرز کو پانچ سال کے لیے مالی امداد فراہم کی جاتی تھی۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے ذریعہ تسلیم شدہ اداروں سےاسکیم کے تحت، جونیئر ریسرچ فیلوز (JRF) کو پہلے دو سالوں کے لیے 31,000 روپے کی گرانٹ ملتی تھی جبکہ سینئر ریسرچ فیلوز (SRF) کو بقیہ مدت کے لیے35,000وپے ماہانہ ملتے تھے ۔مگر اس پروگرام کو بند کردیا گیا ۔ یونین پبلک سروس کمیشن (UPSC) اسٹاف سلیکشن کمیشن (SSC) اور اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن (SPSCs) کے ذریعہ منعقدہ ابتدائی امتحانات کی تیاری کرنے والے اقلیتی طلباء کی مدد کے لیے اڑان اسکیم شروع کی گئی تھی مگر آخری بجٹ میں نئی اڑان اسکیم کے لیے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے گئے تھے۔اسی طرح مودی کے دور حکومت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی جہاں بڑی تعداد میں اقلیتی طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں بھی فنڈ میں کٹوتی کی گئی ہے۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ مودی حکومت آخر کن فلاحی اسکیموں کی بات کر رہی ہے۔جب کہ تعلیم، جو ترقی کی اساس ہے اسی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے تو اب اس کے بعد کونسی فلاحی اسکیمیں بچ جاتی ہیں جس کی بنیاد پر مسلمانوں کو بی جے پی کے حق میں ووٹ دینا چاہیے؟ ایک دہائی قبل انسٹیٹیوٹ آبجیکٹیو اسٹڈیز نے اپنے خصوصی مطالعے میں بتایا تھا کہ سرکاری اسکیموں سے استفادہ کرنے والوں میں سب سے کم تعداد مسلمانوں کی ہے ۔اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی گئی تھی ۔
مذہبی شناخت کا سوال ہمیشہ سے مسلمانوں کے لیے حساس رہا ہے۔چناں چہ گزشتہ چند سالوں میں مودی حکومت نے مسلمانوں کے مذہبی شناخت کو بے حد مجروح کرنے کی کوشش کی ۔مذہبی و لسانی اقلیتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے ہمیشہ فلاحی اسکیموں پر مذہبی شناخت کے تحفظ کے سوال کو ترجیح دی ہے۔اس لیے یہ سوال تو کیا ہی جانا چاہیے کہ مودی حکومت نے مسلمانوں کا دل جیتنے کے لیے کیا کیا اقدمات کیے ہیں؟ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کی تنگ دلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں اس نے صرف مالاپورم سے مسلم امیدوار کو کھڑا کیا۔مسلم اکثریتی سیٹوں پر بھی مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیا ۔دوسرے یہ کہ پورے انتخابات میں مسلمانوں کے خلاف بیانات سے ماحول کو گرم رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس میں وزیر اعظم مودی سب سے آگے تھے۔ان کے بیشتر انتخابی تقاریر میں مسلمان نشانے پر رہے ہیں ۔جب سردار ہی نفرت انگیز تقاریر کرے گا تو پھر دوسرے لیڈروں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ چناں چہ امیت شاہ سے لے کر راج ناتھ سنگھ، یوگی آدتیہ ناتھ اور ہیمانت بسوا سرما ہر ایک مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا رہا ہے۔تو پھر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں کیا ووٹ نہ دینے پر بی جے پی اور میڈیا کو لعن طعن کرنے کا کیا حق ہے؟
ووٹ ہر ایک شہری کا بنیادی حق ہے وہ اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیتا ہے اس کے پیش نظر نفرادی، اجتماعی، گروہی اور طبقاتی مفادات ہوتے ہیں۔ بلاشبہ فلاحی اسکیمیں ووٹروں کا اعتماد جیتنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔بنگال اس کی سب سے بڑی مثال ہے لیکن فلاحی اسکیمیں ہمیشہ کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔مثال کے طور پر فلاحی ماڈل پر طویل مدت تک اقتدار میں رہنے والے نوین پٹنائک کی بیجو جنتا دل اقتدار سے باہر ہو چکی ہے اور لوک سبھا میں اس کا ایک ممبر بھی کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔بی جے پی نے ہندتو کی سیاست کے ذریعہ نوین پٹنائک کی فلاحی ماڈل کو شکست سے دوچار کردیا ہے۔ اس انتخاب کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کسی بھی کمیونیٹی کے وجود اور اس کی شناخت پر حملہ کرکے اس کی حمایت حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو طعنہ دینے کے بجائے بی جے پی اور اس کے حامیوں کو اپنے اپنے گریبانوں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کا کیا سلوک رہا ہے۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کو اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ دس سالوں تک وزارت عظمیٰ جیسے عہدہ پر فائز شخص کس طرح ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو دشمن ثابت کرنے کے لیے تابڑ توڑ کوشش کر رہا تھا۔ظفر سریش جیسے خود ساختہ دانشوروں کو مسلمانوں کو مشورہ دینے کے بجائے اپنے سیاسی گرو کو آئینہ دکھانا چاہیے۔ گجرات کے 30 فیصد مسلمانوں نے 2012 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دیے تھے تو پھر اس کے بعد کیا مودی کے رویے میں تبدیلی آئی تھی؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک مودی وزیر اعلیٰ رہے گجرات میں اقلیتی طلبا کے لیے اسکالرشپ پروگرام نافذ نہیں کیا جاسکا، لہٰذا صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ:
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024