
حکومت تلنگانہ کا طلبہ کو منشیات سے دور رکھنے کے لیے اہم قدم
’’ایگل فورس‘‘ کا قیام۔ اب تعلیمی ادارے بھی جواب دہ ہوں گے
حیدرآباد: ( دعوت نیوز ڈیسک)
منشیات کے بڑھتے ہوئے جال نے صرف شہری اور تعلیمی فضا کو آلودہ نہیں کیا بلکہ نوجوان نسل کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ آئے دن اسکولوں اور کالجوں کے اطراف منشیات کی دستیابی، طلبہ کی بگڑتی ہوئی نفسیات اور والدین کی بے بسی جیسے مناظر ایک عام حقیقت بنتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ریاستی حکومت محض اعلانات پر اکتفا نہ کرتے ہوئے عملی، واضح اور جواب دہی پر مبنی اقدامات کرتی ہے تو یہ قابلِ ستائش ہی نہیں بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔
تلنگانہ کے چیف منسٹر اے ریونت ریڈی نے 26 جون کو ’’منشیات اور غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف عالمی دن” کے موقع پر دو اہم فیصلوں کا اعلان کیا، جنہیں ایک قومی ماڈل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
تعلیمی ادارے اب براہ راست جواب دہ ہوں گے
چیف منسٹر نے صاف لفظوں میں کہا کہ اگر کسی تعلیمی ادارے کے کیمپس یا اطراف میں منشیات کی سرگرمی پائی گئی تو اس ادارے کی انتظامیہ کو براہ راست ذمہ دار مانا جائے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ لا علمی کا بہانہ اب قابلِ قبول نہیں ہوگا اور قانون کے تحت کارروائی سے ادارے نہیں بچ سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ طلبہ اپنا زیادہ وقت اسکولوں اور کالجوں میں گزارتے ہیں جب کہ والدین اکثر معاشی مجبوری کے تحت بچوں کی تعلیم کے لیے دونوں ملازمت کرتے ہیں۔ ایسے میں اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صرف تعلیمی نصاب ہی نہیں بلکہ ایک محفوظ، اخلاقی اور منشیات سے پاک ماحول بھی فراہم کریں۔
’’آپ لاکھوں روپے فیس لیتے ہیں، صرف تعلیم کا بہانہ بنا کر ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے‘‘۔
چیف منسٹر نے یہ بھی اعلان کیا کہ تلنگانہ اینٹی نارکوٹکس بیورو (TGANB) کو تحلیل کرکے ایک نئی فورس EAGLE (Elite Action Group for Drug Law Enforcement) تشکیل دی جا رہی ہے جو گانجہ کی کاشت، منشیات کی اسمگلنگ اور سپلائی چین کو توڑنے کے لیے خصوصی اختیارات اور جدید وسائل کے ساتھ کام کرے گی۔ یہ محض نام کی تبدیلی نہیں بلکہ نشہ مخالف جنگ کو نئے مرحلے میں داخل کرنے کی ایک عملی پہل ہے۔ اس طرح ایک منظم، تربیت یافتہ اور متحرک فورس کے ذریعے نشے کے کاروبار کی جڑ پر ضرب لگائی جائے گی۔
اس وقت ملک بھر میں منشیات کے خلاف حکمت عملی زیادہ تر پولیس یا نارکوٹکس کنٹرول بیوروز تک محدود ہے اور تعلیمی اداروں کو اس دائرے سے بالکل باہر رکھا گیا ہے۔ ریونت ریڈی کا یہ اعلان کہ تعلیمی ادارے بھی جواب دہ ہوں گے، دراصل اس سماجی خلاء کو پُر کرنے کی ایک جرأت مندانہ کوشش ہے۔ برسوں سے یہ شکایت رہی ہے کہ تعلیمی ادارے فیس وصولی کے بعد طلبہ کے کردار، رویے اور ذہنی نشوونما سے غافل رہتے ہیں۔ اب جب کہ انہیں باقاعدہ قانون کی گرفت میں لانے کی بات ہو رہی ہے، یہ احتساب کا ایک نیا دائرہ قائم کرے گا۔
تلنگانہ میں اٹھایا گیا یہ قدم اگرچہ مقامی سطح پر لیا گیا فیصلہ ہے لیکن اس کی معنویت اور افادیت قومی سطح پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ دیگر ریاستی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنے تعلیمی، سماجی اور قانونی ڈھانچے کا جائزہ لیتے ہوئے اسی نوعیت کے احتسابی اقدامات اختیار کریں تاکہ ملک بھر میں نوجوان نسل کو منشیات کے چنگل سے بچایا جا سکے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025