حکومت کی پالیسیاں: اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے آئینی و مذہبی حقوق پر حملہ

مظلوم طبقات کے مسائل مشترک، ملک گیر متحدہ جدوجہد، وقت کی اہم ضرورت

0

ضمیر احمد خان، ناندیڑ

بدھ مت، سکھ اور مسلمان، حکومت کی مداخلت کے خلاف یکساں احتجاج کی گونج۔ ہفت روزہ دعوت کی ایکسکلیوزیو پیشکش
ملک کے مختلف حصوں سے ایک ہی صدا بلند ہو رہی ہے اور وہ ہے ناانصافی اور مداخلت کے خلاف مزاحمت۔ بدھ مت کے ماننے والے ہوں یا سکھ سماج یا پھر مسلمان—تینوں طبقات اس وقت حکومت کی پالیسیوں سے براہِ راست متاثر ہیں۔ یہ مضمون انہی آوازوں کو سامنے لانے کی ایک کوشش ہے تاکہ واضح ہو کہ مسئلہ صرف کسی ایک قوم کا نہیں بلکہ ایک وسیع تر سماجی بحران کا ہے۔
بودھ برادری کے ساتھ ناانصافیاں
حال ہی میں پٹنہ میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے گھر کے قریب بودھ مت کے راہبوں اور اساتذہ کے امیدواروں نے منگل کو احتجاجی مظاہرہ کیا۔ راہبوں نے بودھ گیا ٹیمپل مینجمنٹ کمیٹی (BTMC) میں دیگر مذاہب کے افراد کی شمولیت کے خلاف دھرنا دیا، جبکہ بعد میں ایک وفد نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کر کے 1949 کے بودھ گیا ٹیمپل ایکٹ کو ختم کرنے اور مہا بودھی مندر کے انتظامی حقوق بدھ مت کے پیروکاروں کو دینے کا مطالبہ کیا۔ وفد کے ایک رکن نے کہا کہ ’’وزیر اعلیٰ کو 12؍ مئی بدھا پورنیما سے پہلے یا اسی دن اس ایکٹ کے خاتمے کا اعلان کرنا چاہیے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’عیسائی اپنے گرجا گھروں، مسلمان اپنی مساجد اور سکھ اپنے گردواروں کا انتظام خود کرتے ہیں تو پھر مہا بودھی مندر کے انتظام میں غیر بدھوں کو کیوں شامل کیا جاتا ہے؟‘‘
بودھ گیا ٹیمپل ایکٹ 1949 کے تحت 8 رکنی مینجمنٹ کمیٹی میں بدھ مت اور ہندو مذہب کے چار چار ارکان شامل ہوتے ہیں، جبکہ ضلع مجسٹریٹ اس کا ایگزوفیشیو چیئرپرسن ہوتا ہے۔ بدھ مت کے پیروکار طویل عرصے سے اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ بودھ گیا بدھ مت کے چار اہم زیارتی مقامات میں سے ایک ہے جہاں گوتم بدھ کو بودھی درخت کے نیچے روشن ضمیری حاصل ہوئی تھی۔ لومبینی، سارناتھ اور کشی نگر دیگر اہم مقامات ہیں۔
1990 کی دہائی میں سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے بودھ گیا مہا وہار بل پیش کیا تھا لیکن یہ نافذ نہ ہو سکا۔ 1991 کے پلیسز آف ورشپ ایکٹ کے تحت 15 اگست 1947 کے بعد عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا جس کی وجہ سے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیرِ بحث ہے۔ فروری سے سو سے زائد بدھ راہب مہا بودھی مندر کے قریب دھرنا دے رہے ہیں۔ مارچ میں مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے نے بھی وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے ملاقات کر کے بدھ مت کے پیروکاروں کو مندر کا کنٹرول دینے کی اپیل کی تھی۔
مہاراشٹر میں بودھ مت کے ماننے والوں کی جانب سے منظم احتجاج جاری ہے۔ ناندیڑ سمیت ریاست کے کئی اضلاع میں بدھ مت کے ماننے والوں کے بڑے بڑے مظاہرے ہو چکے ہیں۔ بودھ گیا ٹیمپل کے مسئلے پر جاری احتجاج اور کمیٹی میں دیگر مذاہب کی نمائندگی کی مخالفت کے بارے میں بدھ بھنتے پیا بودھی تھیرو نے ہفت روزہ دعوت سے بات کی اور کہا کہ بودھ گیا ٹیمپل بدھ مت کے ماننے والوں کا مقدس مقام ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہاں کے تمام انتظامی امور بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھ میں ہوں، لیکن حکومت ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے اس مسئلے پر احتجاجی تحریک شروع کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مہا بدھ کے مہا بودھی مہا وہار پر مکمل کنٹرول کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکز کو اس سلسلے میں نوٹس جاری کیا ہے۔ موصولہ تفصیلات کے مطابق، یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل مہا بودھی مہا وہار کے انتظام و انصرام پر مکمل کنٹرول کا یہ طویل عرصے سے زیرِ التواء معاملہ جسے بدھ مت کے ایک طبقے کی جانب سے بار بار اٹھایا جاتا رہا ہے، اب امید کی کرن نظر آ رہا ہے۔
سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے بدھ مت کے پیروکاروں کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے 1949 کے بودھ گیا ٹیمپل ایکٹ کو ختم کرنے کی اپیل پر غور کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس این کوٹیشور سنگھ کی بینچ نے مرکز اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا ہے۔ اس سے قبل 30 جون کو سپریم کورٹ نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار کو متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
بودھ مت کے پیروکاروں کے اہم مطالبات میں 1949 کے ایکٹ کو ختم کر کے اس کی جگہ ایک مرکزی قانون نافذ کرنا، مہا وہار کمیٹی کے تمام ارکان کو بدھ مت کا پیروکار بنانا اور مہا وہار کیمپس کے ارد گرد غیر قانونی قبضے ختم کرنا شامل ہیں۔ بدھ مت کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ ’’عیسائی، مسلمان اور سکھ اپنی عبادت گاہوں کا انتظام خود کرتے ہیں، تو پھر بدھ مت کی سب سے مقدس جگہ کا انتظام غیر بدھوں کے ہاتھ میں کیوں ہے؟‘‘ یہ معاملہ 1991 کے پلیسز آف ورشپ ایکٹ سے بھی منسلک ہے جو 15 اگست 1947 کے بعد عبادت گاہوں کے مذہبی کردار میں تبدیلی پر پابندی عائد کرتا ہے۔
سکھ سماج کے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں
سکھ سماج گزشتہ ایک دہائی سے مہاراشٹر حکومت کی اس ترمیم کے خلاف برسرِ احتجاج ہے جو 1956 کے ’’گردوارہ ایکٹ‘‘ کی دفعہ 11 میں کی گئی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے گردوارہ بورڈ کے صدر کے انتخاب کا طریقہ براہِ راست ووٹنگ سے بدل کر حکومت کی نامزدگی پر منحصر کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مقامی سکھ برادری کی آواز کمزور پڑ گئی اور بورڈ پر حکومتی اثر و رسوخ بڑھ گیا۔
ابتدا میں یہ تبدیلی محض ایک انتظامی ترمیم کے طور پر دیکھی گئی لیکن وقت کے ساتھ صاف ظاہر ہوا کہ حکومت نے نہ صرف بورڈ کے فیصلوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے بلکہ اپنی پسند کے افراد کو بورڈ میں شامل کر کے سکھ سماج کے مذہبی اداروں کو براہِ راست اپنے زیرِ اثر لے لیا ہے۔ سکھ نمائندوں کا الزام ہے کہ حکومت کی جانب سے نامزد کردہ بعض افراد مذہبی اہلیت سے محروم ہیں، حتیٰ کہ ان پر بد کرداری اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات بھی ہیں۔ اس رویے نے سکھ برادری کے اندر شدید بے چینی اور اضطراب پیدا کر دیا ہے۔
یہ تنازع ناندیڑ کے گردوارہ ’’سچکھنڈ شری حضور صاحب‘‘ سے جڑا ہے جو سکھ مذہب کے پانچ اہم ترین مقدس مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ ہر سال لاکھوں یاتری یہاں آتے ہیں اور اس کا بجٹ ڈیڑھ سو کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ اس کے زیرِ انتظام کئی تعلیمی ادارے، ہسپتال اور سیکڑوں ایکڑ اراضی ہے۔ سکھ سماج کے مطابق حکومت دراصل اسی دولت اور ادارہ جاتی طاقت پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سکھ سماج نے اس ترمیم کے خلاف مسلسل آواز بلند کی ہے۔ مقامی سطح سے شروع ہونے والے احتجاج نے رفتہ رفتہ ریاستی اور قومی پیمانے پر زور پکڑ لیا ہے۔ ناندیڑ میں ’’گردوارہ بچاؤ ایکشن کمیٹی‘‘ کی قیادت میں زنجیری احتجاج اور غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال کی گئی۔ اس کے بعد ممبئی کے آزاد میدان اور دہلی کے جنتر منتر پر بھی بڑے مظاہرے ہوئے، جن میں بڑی تعداد میں سکھ مرد و خواتین شریک ہوئے۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے ان مظاہروں کی حمایت کی لیکن حکومت نے مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا۔
یہ معاملہ عدالت میں بھی زیرِ سماعت ہے۔ ہائی کورٹ نے اس دوران نئی کمیٹی کے انتخابات کرانے کا حکم دیا تاہم، دفعہ 11 میں کی گئی ترمیم کو منسوخ کرنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ تاحال نہیں ہوا۔ سکھ رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ جب تک دفعہ 11 کی ترمیم واپس نہیں لی جاتی سکھ سماج کی مذہبی آزادی اور خود مختاری خطرے میں رہے گی۔
سکھ نمائندوں کا کہنا ہے کہ یہ جدوجہد صرف ایک برادری کا مسئلہ نہیں بلکہ مذہبی اداروں کی خود مختاری اور آئینی حقوق کے تحفظ کی جنگ ہے۔ ان کے مطابق اگر حکومت کسی ایک مذہب کے ادارے میں مداخلت کر سکتی ہے تو مستقبل میں دوسرے مذاہب کے ادارے بھی اسی خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ ملک کے دیگر مظلوم طبقات بھی ان کی آواز میں آواز ملائیں تاکہ یہ تحریک زیادہ طاقت کے ساتھ آگے بڑھے۔
مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں
اسی طرح کی صورتحال مسلمانوں کے ساتھ بھی پیش آ رہی ہے۔ 2014 کے بعد سے بی جے پی نے مسلمانوں کو سماجی، تعلیمی اور معاشی طور پر کمزور کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ این آر سی اور سی اے اے کے ذریعے مسلمانوں کی شہریت چھیننے کی کوشش کی گئی جس کے خلاف شاہین باغ سے ملک گیر تحریک شروع کی گئی جس کی وجہ سے یہ معاملہ وقتی طور پر ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔
اس کے بعد تین طلاق پر پابندی کے لیے قانون لا کر مسلمانوں کی شریعت میں مداخلت کی گئی۔ مسلمانوں نے عملی طور پر اپنے معاملات کو شرعی عدالتوں اور پنچایتوں میں حل کروانے کو ترجیح دیتے ہوئے تین طلاق کے قانون کے غلط استعمال کی بہت کم گنجائش رکھی۔
پہلے بھی کئی معاملات آتے رہے اور اب معاملہ وقف ترمیمی قانون کی شکل میں ایک بڑی مصیبت بن کر سامنے آیا ہے۔ وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اس پر عمل آوری کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ وہیں دوسری طرف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت ملک کی تمام ملی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے وقف ترمیمی قانون کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے اور اس قانون کو کسی بھی صورت میں ناقابلِ قبول قرار دے کر اس کی شدت کے ساتھ مخالفت کی جا رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ اس سے مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوگا، ان کی معیشت بہتر ہوگی اور اوقافی جائیدادوں کے انتظامی معاملات درست ہوں گے۔ ان چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے مسلمانوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وقف ترمیمی قانون سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور اس سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نیشنل سیکریٹری مولانا عمرین محفوظ رحمانی نے ہفت روزہ دعوت سے کہا کہ حکومت کے ان خوش کن دعوؤں پر ہمیں بھروسہ نہیں ہے کیونکہ بھروسہ ایسے لوگوں پر کیا جاتا ہے جن کے ماضی اور حال کے اعمال میں صداقت اور دیانت داری دکھائی دے۔ مودی حکومت نے پچھلے دس سالوں میں ایک بھی ایسا فیصلہ نہیں کیا جس سے مسلمانوں کو فائدہ ہوا ہو، بلکہ وہ مسلمانوں پر ظلم کرنے کا کام کر رہی ہے۔
مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے مسلمانوں کو سیاست میں کوئی نمائندگی نہیں دی گئی۔ انتخابات میں ٹکٹ دینا تو دور کی بات کسی ایم ایل اے یا ایم پی کو نامزد کرنے کے معاملے میں بھی تنگ نظری سے کام لیا جاتا ہے۔ مسلم طلبہ کی اسکالرشپ اسکیمیں بند کر کے ان کو تعلیمی اعتبار سے پسماندہ بنایا جا رہا ہے۔
وقف ترمیمی قانون کے ذریعے بھی حکومت مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں پر کنٹرول حاصل کر کے اپنے پسندیدہ کارپوریٹ گھرانوں کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ وقف ترمیمی بل اپنی موجودہ شکل میں نافذ ہو جائے تو مسلمانوں کی مذہبی شناخت اور ان کے مذہبی و تعلیمی اداروں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس قانون میں وقف بورڈ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کو بھی نمائندگی دینے کی بات کی گئی ہے جو کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔
وقف کا معاملہ صرف انتظامی امور کا مسئلہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد سے جڑا ہوا ہے اور یہ قانون دستور نے اقلیتوں کو جو آزادی دی ہے اس کی کھلی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔ اس لیے ہم اس قانون کو کسی صورت میں قبول نہیں کر سکتے۔
یہی وجہ ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس قانون کے خلاف منظم احتجاجی تحریک شروع کر دی ہے اور یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ حکومت وقف ترمیمی قانون کو واپس نہیں لے لیتی۔
وقف ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔ عدالت نے اگرچہ مسلمانوں کی جانب سے اٹھائے گئے بعض اعتراضات کو درست مانا ہے لیکن اب تک اس قانون پر روک لگانے کے بارے میں کوئی واضح حکم جاری نہیں کیا ہے۔ فیصلے میں تاخیر نے بے چینی کو بڑھا دیا ہے، بالخصوص اس لیے کہ حکومت نے عدالتی فیصلہ آنے کا انتظار کیے بغیر نئے وقف ترمیمی قانون پر عمل آوری شروع کر دی ہے۔ حالیہ اقدام کے طور پر "امید پورٹل” کے نام سے ایک ویب سائٹ متعارف کرائی گئی ہے جہاں وقف جائیدادوں کے رجسٹریشن کا عمل تیزی سے جاری ہے۔
مسلم قیادت کی جانب سے یہ واضح اپیل سامنے آئی ہے کہ ادارے اور تنظیمیں اپنے مذہبی اداروں کا اندراج اس پورٹل پر ہرگز نہ کرائیں۔ ان کے نزدیک یہ قدم وقف جائیدادوں کو شرعی بنیادوں سے ہٹا کر سرکاری کنٹرول میں لانے کی ایک کوشش ہے جو نہ صرف آئینی آزادی بلکہ مذہبی تشخص پر بھی حملہ ہے۔
تاہم اس پورے مسئلے میں اصل بات جو ابھر کر سامنے آتی ہے وہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے۔ بی جے پی حکومت کی پالیسیوں میں ایک واضح رجحان دکھائی دیتا ہے کہ وہ ملک کی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے آئینی حقوق کو محدود کرنے اور ان کے سماجی و مذہبی معاملات میں براہِ راست مداخلت کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
عام طور پر مسلمانوں میں یہ تاثر غالب رہتا ہے کہ نا انصافی اور ظلم صرف انہی کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دیگر مذاہب، ذاتوں اور برادریوں کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ دلت، آدیواسی، مسیحی اور کئی دیگر طبقے اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہیں لیکن انہیں بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اکثر اپنے مسائل میں اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ دوسروں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھنے اور سمجھنے سے غافل ہو جاتے ہیں۔ جبکہ اس وقت اصل ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی تنگ دائرہ بندی سے اوپر اٹھیں اور دیگر مظلوم و پسماندہ طبقات کے قریب جائیں۔ ایک مشترکہ مزاحمتی تحریک کھڑی کریں، جس میں مذہب، ذات اور زبان کے امتیازات کو پس پشت ڈال کر سبھی محروم طبقات اپنے حقوق کے لیے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں۔
اگر ایسا اتحاد قائم ہو گیا تو کامیابی کے امکانات کئی گنا بڑھ سکتے ہیں۔ ملک گیر سطح پر اس سمت میں کچھ ابتدائی کوششیں ضرور ہو رہی ہیں لیکن انہیں زیادہ مؤثر، منظم اور وسیع پیمانے پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہی وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک مظلوم طبقات اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے متحدہ جدوجہد نہیں کریں گے تب تک کسی ایک برادری کی تنہا کوششیں دیرپا کامیابی نہیں دلا سکتیں۔ اتحاد ہی وہ واحد راستہ ہے جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ پورے ملک کے پسماندہ طبقات کو حقیقی اور پائیدار کامیابی دلا سکتا ہے۔
***

 

***

 ہندوستان کے موجودہ حالات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ ناانصافی اور جبر کا شکار صرف ایک طبقہ نہیں بلکہ مختلف مذاہب اور برادریاں ہیں۔ حکومت کی پالیسیاں کبھی سکھوں کے مذہبی اداروں کو نشانہ بناتی ہیں، کبھی مسلمانوں کے شرعی قوانین میں مداخلت کرتی ہیں اور کبھی پسماندہ طبقات کو ان کے حقوق سے محروم رکھتی ہیں۔ زیر نظر مضمون میں انہی نا انصافیوں کو اجاگر کرتے ہوئے ایک مشترکہ جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025

hacklink panel |
casino siteleri |
deneme bonusu |
betorder |
güncel bahis siteleri |
cratosbet |
hititbet |
casinolevant |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
hacklink panel |
casino siteleri |
deneme bonusu |
betorder |
güncel bahis siteleri |
cratosbet |
hititbet |
casinolevant |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |