!اسپتال کی آگ سے نفرت کی آگ تک۔ سرکاری ڈراموں میں عوامی زندگیوں کا سودا

خود کو نظرانداز کرکے انسانیت کی بے لوث خدمت کا روشن نام ۔ یعقوب منصوری

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

جھانسی کی آگ؛ گجرات اور دہلی کے حادثات سے سبق سیکھا جاتاتو بچوں کی بلی نہیں چڑھتی!
جھانسی میں واقع مہارانی لکشمی بائی میڈیکل کالج کے این آئی سی یو میں لگنے والی خوفناک آتشزدگی نے گیارہ بچوں کو لقمہ اجل بنا دیا۔ فی زمانہ اگر رانی لکشی بائی زندہ ہوتیں تو پہلی فرصت میں اپنے وزیر با اختیار کو برخواست کردیتیں لیکن ملک کا وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور ریاست کا وزیر اعلیٰ سب کے سب انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ ان تینوں اہم ذمہ داروں میں سے ایک نے بھی جھانسی جانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ یوگی نے کم از کم کچھ زبانی جمع خرچ کیا مگر باقی دونوں نے تو ایکس پر ایک پیغام لکھ کر پسماندگان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار تک نہیں کیا۔ پندرہ نومبر کو دیر رات گئے جب یہ تکلیف دہ حادثہ رونما ہوا تو اس وقت وارڈ میں انچاس بچے زیر علاج تھے ان میں سے اڑتیس بچوں کو نکالا جاسکا جبکہ تین کی حالت نازک تھی۔ بعد ازاں ایک بچے کی دوران علاج موت ہوگئی تو اس کے والدین کو سرکاری امداد سے محروم کرنے کے لیے کہہ دیا گیا کہ وہ موت جھلسنے سے نہیں ہوئی۔
آگ لگنے کی وجوہات کے حوالے سے کانپور زون کے ADG آلوک سنگھ نے راحت کاموں کی نگرانی کرکے تصدیق کی کہ اس کا سبب الیکٹرک شارٹ سرکٹ تھا۔ جھانسی کے ضلعی مجسٹریٹ اویناش کمار نے بھی صحافیوں کو بتایا کہ ہسپتال کے نو زائیدہ بچوں کے دیکھ بھال یونٹ (این آئی سی یو) میں رات پونے گیارہ بجے ممکنہ طور پر شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگ گئی۔ اس سرکاری بیانیہ سے ہٹ کر ابتدائی طور پر آکسیجن مشین میں چنگاری سے آگ لگنے کا شبہ ظاہر کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے ڈی جی ہیلتھ کی نگرانی میں چار رکنی کمیٹی تشکیل دے کر سات روز میں پورے معاملہ کی جانچ کا حکم دے دیا۔ اس کے علاوہ تین مزید جانچ کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ ان میں سے پہلی جانچ محکمہ صحت کی جانب سے کی جا رہی ہے، اس میں فائر بریگیڈ کے افسران بھی شامل ہیں۔ دوسری جانچ ضلعی سطح پر انتظامیہ کروا رہا ہے جبکہ تیسری مجسٹریٹ کی زیر نگرانی تفتیش ہوگی۔ ایک کام کے لیے تین مختلف ادارے وقت اور توانائی کا ضیاع ہے لیکن یہ ساری نوٹنکی لوگوں کو یہ تاثر دینے کے لیے کی جا رہی ہے کہ حکومت بہت فکر مند ہے حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو یکے بعد دیگرے اس طرح کے واقعات رونما ہی نہیں ہوتے۔
ماضی قریب میں گجرات میں دو اور دہلی میں ایک بڑا حادثہ ہو چکا ہے۔ جولائی 2024 میں راجکوٹ میں ٹی آر پی گیم زون کے اندر آگ لگنے سے اٹھائیس لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس وقت بھی ابتدا میں آگ لگنے کی وجہ شارٹ سرکٹ بتایا گیا مگر بعد میں پتہ چلا کہ گیم زون والوں نے بلدیہ کے آگ بجھانے والے شعبے سے اجازت تک نہیں لی تھی۔ اس کے باوجود دھڑلّے سے کاروبار چل تھا کیونکہ ان لوگوں کے سیاسی تعلقات مضبوط تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گیم زون کے مالک کو بچانے کے لیے شروع میں غلط وجہ بتائی گئی لیکن بعد میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔ مئی 2024 میں مشرقی دہلی میں وویک وہار کے ایک بے بی کیئر یونٹ میں آگ لگ گئی جس نے سات بچوں کو نگل لیا۔ اس وقت بھی شارٹ سرکٹ کے سبب آکسیجن سیلنڈر کے آگ پکڑنے کی بات سامنے آئی تھی۔ دھماکے اس قدر شدید تھے کہ آس پاس کے مکانات دہل گئے۔ اس حادثے سے اگر سبق سیکھا جاتا تو جھانسی کے حادثے کو ٹالا جا سکتا تھا لیکن سیاست دانوں کو انتخاب سے اور انتظامیہ کو ان کی چاپلوسی سے فرصت ہی نہیں ہے۔ اس لیے بقول حفیظ میرٹھی:
ایسی آسانی سے قابو میں کہاں آتی ہے آگ
جب بھڑکتی ہے تو بھڑکے ہی چلی جاتی ہے آگ
مئی 2019 میں سورت کے ایک زیر زمین کوچنگ سنٹر کی آگ نے بائیس طلباء کی جان لے لی لیکن وہ معاملہ بھی آیا گیا ہوگیا۔ کیونکہ بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار بے قصور لوگوں کو سزا دینے میں جتنی دلچسپی لیتی اتنی محنت اپنے چہیتے مجرموں کو سزا دلوانے میں نہیں کرتی۔ ملک بھر کے ہسپتالوں میں پچھلے پندرہ سالوں میں چھ سو ساٹھ آتش زنی کے سانحات ہوچکے ہیں۔ان میں دو سو جانیں گئی ہیں۔ آتش زنی کے ہر واقعہ کے بعد سیفٹی آڈٹ کی بات کی جاتی ہے مگر اس پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔ جھانسی کے معاملے میں ایک چشم دید گواہ نے بتایا کہ اس نے نرس کو آکسیجن کی ٹیوب کو جوڑنے کے لیے دیا سلائی جلاتے دیکھا تھا۔ یہ ٹریننگ کی کوتاہی ہے اور اس کے لیے بھی انتظامیہ ذمہ دار ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ وارڈ بوائے نے جب آگ بجھانے والے سیلنڈر کو چلانے کی کوشش کی تو وہ نہیں چلا کیونکہ وہ چار سال قبل ہی ایکسپائر ہوچکا تھا۔ اس سے زیادہ لاپروائی کیا ہوسکتی ہے کہ جو کام ہر چھ ماہ کے وقفہ سے ہونا چاہیے اسے چار سالوں تک ٹالا گیا۔
ایسی مجرمانہ کوتاہی کا ارتکاب کرنے والے چونکہ سرکاری داماد ہوتے ہیں اس لیے انتظامیہ انہیں بچانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ وطن عزیز میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اس واقعہ کے دوسرے دن کانپور کے ایک دیہات کی ایک فیکٹری میں آگ لگنے سے چھ مزدوروں کی موت ہوگئی۔ اسی دن ممبئی کے چیمبور علاقہ میں ایک گھر کی خوفناک آتشزدگی نے سات افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس سلسلے کے دراز تر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت وقت آ گ سے تحفظ کی بابت بنیادی سہولیات پر توجہ دینے کے بجائے صرف لیپا پوتی میں یقین رکھتی ہے۔ اس طرح کا کوئی حادثہ رونما ہو جاتا ہے تو عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لیے نا اہل وزیر اعلیٰ یوگی مہلوکین کے ورثاء کو پانچ پانچ لاکھ روپے اور زخمیوں کو فی کس پچاس ہزار روپے کا معاوضہ دینے کا اعلان کرکے اپنے آپ کو ہریش چندر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ خود نہیں جاتے تو اپنے نائب ڈاکٹر برجیش پاٹھک کو میڈیکل کالج کا دورہ کرنے اور اس کے بعد مگر مچھ کے آنسو بہانے کے لیے روانہ کر دیا جاتا ہے۔ وہ انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت اس سانحے کی مکمل جانچ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ مشکل کی اِس گھڑی میں متاثرہ خاندانوں کو تعاون کا یقین دلایا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان اعلانات سے وہ بچے لوٹ آئیں گے جن کو آگ نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے؟ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی ضلع انتظامیہ کو راحت کاموں کو جنگی پیمانے پر انجام دینے کی ہدایت دے کر جھانسی ڈویژنل کمشنر اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس سے بارہ گھنٹوں کے اندر واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہیں لیکن وہ معاملہ بھی ٹائیں ٹائیں فش ہوجاتا ہے۔ اس معاملے کا ایک شرمناک پہلو یہ بھی ہے کہ نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک اور پرنسپل سکریٹری صحت ومیڈیکل کا جائے وارادات کا دورہ ہو یا میڈیکل اور ضلع انتظامیہ کا وہاں جانا ہر ایک کو وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یعنی ان میں سے کوئی بھی از خود اپنی ذمہ داری محسوس کرکے اسے ادا کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ بادلِ ناخواستہ وزیر اعلیٰ کے احکامات کی بجا آوری کرتا ہے۔ یہ چاپلوسی کی بدترین شکل نہیں تو اور کیا ہے؟
تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ یو پی کی یوگی حکومت نے آٹھ ماہ قبل اس ہسپتال کے بارے میں ڈینگ مارتے ہوئے اسے عالمی معیار کی سہولت والا ادارہ قرار دے کر اپنی پیٹھ تھپتھپائی تھی۔ کھوکھلی تشہیر میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہاں بچوں کے لیے بہت عمدہ سہولیات مہیا کی گئی ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ ہسپتال کے اندر نصب کردہ آگ بجھانے والے آلات نے 2020 سے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے اسے غفلت کی انتہا قرار دے کر کہا کہ اس سے سمجھا جا سکتا ہے اتر پردیش میں عام لوگوں، خاص کر بچوں کی صحت اور زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو ہر معاملے پر نفرت کی آگ میں جھونکا جاتا ہے اور ہر معاملے پر انہیں تقسیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یو پی کی حکومت اپنا ظالمانہ رویہ چھوڑ کر، اپنی لاپروائی تسلیم کرے اور متاثرین کے اہل خانہ کو کم از کم ایک کروڑ روپے کا معاوضہ دے نیز، اس واقعے کے لیے ذمہ داروں پر سخت کارروائی کرے۔
کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے اس دل دہلا دینے والے واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "یہ انتہائی افسوسناک خبر ہے۔ اس وقت الفاظ بے معنی ہیں، لیکن ہم ان خاندانوں کے غم میں شریک ہیں جنہوں نے اپنے معصوم بچوں کو کھو دیا ہے۔” اتر پردیش میں حزب اختلاف سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے بھی جھانسی میڈیکل کالج میں آگ لگنے کے واقعہ کو تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو مشورہ دیا کہ سب ٹھیک ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے بجائے طبی شعبے کی بدحالی پر توجہ دیں ۔انہوں نے مذکورہ سانحہ کو بے حد تکلیف دہ اور تشویش ناک بتایا۔ یادو نے آکسیجن کانسنٹریٹر میں آگ لگنے کے لیے ہسپتال انتظامیہ کی لاپروائی کو ذمہ دار ٹھیرایا۔ اکھلیش یادو نے خراب معیار کے آکسیجن کنسنٹریٹر مہیا کرنے والے افسروں پر تادیبی کاروائی کا مطالبہ کیا اور وزیر اعلیٰ کو انتخابی مہم کے بجائے صحت و طبی شعبے کی بدحالی پر دھیان دینے کی تلقین کی۔
اکھلیش یادو نے نائب وزیر اعلی برجیش پاٹھک پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ ’رہی بات اتر پردیش کے’ہیلتھ اور میڈیکل وزیر’ کی تو ان سے کچھ نہیں کہنا ہے کیوں کہ طبی سہولیات کی بدحالی انہیں کے سبب سے ہے۔ یادو نے اپنے بیان میں تنگ نظر فرقہ وارانہ سیاست کرنے والے وزیر صحت کے بارے میں بتایا کہ ان کے پاس نہ کوئی طاقت ہے اور نہ ہی قوت ارادی، بس نام کی تختی ہے۔ تمام مغموم اہل خانہ کو فی کس ایک کروڑ روپے مالی مدد کے طور پر دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ گورکھپور نہ دہرایا جائے۔ یہ نہایت لطیف اشارہ ڈاکٹر کفیل احمد کی جانب ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے انہیں اپنا حریف سمجھ کر بغض و حسد کے تحت جیل بھیج دیا تھا۔ وہ کئی ماہ بغیر کسی کے قصور جیل میں رہے اور بالآخر عدالت نے یو پی حکومت کو پھٹکار سنا کر انہیں رہا کر دیا۔
اکھلیش یادو کی یہ تنبیہ اس لیے بھی اہم ہے کہ ہندو جاگرن منچ کے ایک رہنما نے ایکس پر سوال کیا کہ ’کہیں حکومتِ وقت کو بدنام کرنے کے لیے تو کسی نے ہسپتال میں آگ نہیں لگائی‘۔ اتر پردیش کی بدنام ترین حکومت کی نیک نامی پر چار چاند لگانے کے لیے شک و شبہ پیدا کرنے کی یہ مذموم کوشش ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس بار بھی اپنی جان پر کھیل کر بچوں کی جان بچانے والا یعقوب منصوری مسلمان ہے۔ اس نے پانچ بچوں کو بچایا مگر اپنی جڑواں بیٹیوں کو نہیں بچا سکا۔ اسے کہتے ہیں بے لوث جذبہ خدمت۔ ہندو جاگرن منچ کا مذاق اڑاتے ہوئے کئی لوگوں نے لکھا کہ اندھ بھکتو اور گالیاں دو۔ یہ بھی لکھا گیا کہ کہیں اسی کو ماسٹر مائنڈ نہ بتا دینا۔ ہمیر پور کا یہ نوجوان اپنی پہلی نوزائیدہ جڑواں بیٹیوں کا انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں علاج کروا رہا تھا۔ یعقوب اور اس کی بیوی ناظمہ باری باری سے جڑواں بچیوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ جمعہ کی رات کو جب آگ بھڑکی تو وہ کھڑکی توڑ کر آئی سی یو میں داخل ہوا اور جتنے نو زائیدہ بچوں کو بچا سکتا تھا بچایا۔ اس وقت بھارت ماتا کی جئے اور جئے شری رام کا نعرہ لگوا کر جعلی دیش بھکت دم دبا کر فرار ہوچکے تھے ۔
یعقوب منصوری اور ان کی اہلیہ ناظمہ کے علاوہ اپنے پہلے بچے کو جنم دینے والی سنجنا کماری نےکہا کہ ’میرا بچہ میری آنکھوں کے سامنے جل کر مر گیا اور میں بے یار و مددگار کھڑی دیکھتی رہ گئی۔ ہسپتال کی غفلت نے میرے خوابوں کو تباہ کر دیا۔ سنتوشی دیوی کے مطابق جب اس نے چیخوں کی آوازیں سنی تو اس وقت تک اس کا بچہ مر چکا تھا۔ اس غم و اندوہ کے عالم میں بھی وزیر اعلیٰ ’بٹیں گے اور کٹیں گے‘ کی سیاست کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے نائب اور وزیر صحت کو جھانسی جانے حکم دیا تو انتظامیہ پر بجلی گر گئی۔ ہسپتال کا انتظامیہ ان روتے بلکتے والدین کے آنسو پونچھنے کے بجائے نائب وزیر اعلیٰ کے شایانِ شان استقبال کی تیاری میں جٹ گیا۔ ان کے راستے کی صفائی شروع ہوگئی اور دیواروں پر چونا لگانے کے کام کا آغاز ہوگیا۔ یہ ڈرامہ بازی اس جائے واردات پر ہوئی جہاں بھگوان داس نامی چشم دید گواہ نے ایک نرس کو دیکھا تھا جبکہ وہ ٹیوب کو دیا سلائی جلا کر جوڑ رہی تھی۔ جہاں آکسیجن کنسنٹریٹر کی دیکھ بھال کا مناسب اہتمام نہیں تھا اور آگ بجھانے والے آلات کی عمر چار سال قبل ختم ہو چکی تھی۔ کیا اس طرح کی لیپا پوتی سے ان کے سارے عیوب چھپ جائیں گے؟ آگ کے حوالے سے یوگی حکومت کی سست روی پر حفیظ میرٹھی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
پاسباں آنکھیں ملے انگڑائی لے آواز دے
اتنے عرصے میں تو اپنا کام کر جاتی ہے آگ
حکومت کا دعویٰ ہے کہ جون میں موک ڈرل ہوئی لیکن سیلنڈر پر تاریخ کو نہیں دیکھا گیا اور چشم دید گواہ بتاتے ہیں کہ آگ لگنے پر الارم نہیں بجا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ موک ڈرل عملاً نہیں بلکہ صرف کاغذ پر ہوئی۔ اب یہ تمام باتیں تفتیش کے دائرے میں ہیں اور یہ بھی پتہ چلایا جا رہا ہے کہ چونا لگانے کا حکم کس نے دیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس خوشامدی تہذیب و روایت کو پروان چڑھایا گیا ہے اس کے تحت یہ نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ سرکاری تیاری کا یہ عالم تھا کہ فائر بریگیڈ کو بلانے میں بیس منٹ لگ گئے۔ اس کی چھ گاڑیاں آگ بجھانے میں ناکام ہوگئیں تو فوج کو بلانا پڑا اور وہ آدھے گھنٹے بعد اس میں کامیاب ہوسکے۔ اس طرح تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد جاکر آگ بجھی۔ یہ آگ تو خیر بجھ گئی لیکن سنگھ پریوار جو نفرت کی آگ ملک میں لگا رہا ہے اس کو بجھنے میں کتنا عرصہ لگے گا یہ کوئی نہیں جانتا۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 نومبر تا 30 نومبر 2024