ایچ ایم پی وی: حقیقت یا افواہ

سردی، زکام اور ایچ ایم پی وی کی علامات مشابہ۔ گھبرانے کے بجائے احتیاطی تدابیر لازمی

0

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

بھارت یا چین کہیں بھی کوئی غیر معمولی کیس نہیں۔ افواہوں کو نظرانداز کریں عافیت سے رہیں
پھر ایک عالمی وبا پھیلانے کی تیاری شروع ہوچکی ہے، 2019 میں جس طرح کورونا وائرس پھیلا تھا اور جو تباہ کاریاں اس عالمی وباء سے ہوئی تھیں لوگوں کو پھر ایک بار اسی وبا کا خوف دلایا جا رہا ہے۔ کورونا کی جو بھی شدت رہی ہو لیکن یہ بات تو طشت ازبام ہوگئی کہ اس کے نام سے بنائی جانے والی ویکسین سے کمانے والوں نے کھربوں روپے کی کمائی کی۔ لوگ ماضی کی وہ ساری ہول ناکیوں کو پھر سے اپنے ذہن میں تازہ کر رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی یادوں کو تازہ کر کے ہیبت میں مبتلا ہو رہے ہیں کہ کہیں یہ وبا پھر اسی طرح کے مسائل نہ پیدا کردے۔ خاص طور پر میڈیا اس وبا کے خوف کو پھیلانے میں پیش پیش ہے۔ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وبا کی حقیقت کیا ہے۔ HMPV کا مطلب ہے ہیومن میٹا نیومو وائرس، جو ایک سانس کے ذریعہ پھیلنے والا وائرس ہے اور عام طور پر بچوں، بوڑھوں اور کم زور مدافعتی نظام والے افراد کو متاثر کرتا ہے۔ یہ وائرس پہلی بار 2001 میں دریافت ہوا تھا اور اکثر نزلہ، زکام اور دیگر سانس کی بیماریوں کی علامات پیدا کرتا ہے۔ اس وائرس کی وہی علامات ہیں جو عام طور پر موسم سرما کی وجہ سے لوگوں میں پیدا ہوتی ہیں، جیسے بخار، کھانسی، ناک بند ہونا یا بہنا، گلے کی سوزش اور سانس لینے میں دشواری وہ بھی شدید صورتوں میں، بچوں یا کم زور مدافعتی نظام والے افراد میں نمونیا یا برونکائٹس ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی نئی وبا نہیں ہے، اس بیماری کو 2001 ہی میں دریافت کیا گیا تھا، جو علامات بیان کی گئی ہیں اگر کسی شخص میں پائی جاتی ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسے ایچ ایم پی وی وائرس ہوگیا ہے، بلکہ یہ علامات تو عام طور پر سردی زیادہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ ایچ ایم پی وی کا خاص علاج بھی نہیں ہے، اس کے لیے کوئی خاص اینٹی وائرل دوا بھی نہیں ہے۔ عام طور پر علامات کو کم کرنے والی دوائیاں دی جاتی ہیں، یعنی بخار یا درد کو کم کرنے والی دوا، ہائیڈریشن (پانی کی مقدار بڑھانا) آکسیجن تھراپی (اگر سانس کی تکلیف ہو تو) یہ طریقے اپنائے جاتے ہیں۔
مرکزی حکومت اور دیگر ریاستی حکومتوں کے ذمہ داروں نے کہا ہے کہ اس وبا کا ہمارے ملک میں کوئی کیس اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ہیلتھ سروسز کے ڈاکٹر اتل گوئل نے عام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ تادم تحریر کوئی بھی کیس ایچ ایم پی وی کا درج نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کوئی نیا وائرس نہیں ہے، یہ وائرس 2001 میں پہلی بار دریافت کیا گیا تھا۔
تیسری بات یہ کہ ہر ریسپیٹری وائرسوں میں یعنی تنفس وباؤں میں ایک ہی طرح کی علامات ظاہر ہوتی ہیں مثلاً سانس لینے میں دشواری، کھانسی وغیرہ لہٰذا عوام کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ سانس میں دشواری یا بخار کھانسی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے ایچ ایم پی وی ہوگیا ہے۔ عام طور پر فلو کی بھی ایسی ہی علامات ہوتی ہیں جو چھ سے سات دن میں ختم بھی ہو جاتی ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق چین میں بھی اس وبا سے کوئی غیر معمولی کیسیز سامنے نہیں آئے ہیں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ موسم سرما میں عام طور پر سانس لینے میں دشواری کی شکایات ہوتی ہیں، بخار اور کھانسی میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن حکومتی اداروں کے مطابق اس میں بھی کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں دیکھا گیا ہے، اگر وبا پھیلتی تو اس میں اضافہ ہونا چاہیے تھا، لیکن اس طرح کے کیسوں میں بھی کوئی اضافہ نہیں دیکھا گیا ہے۔
سنٹر فار ڈیسیز کنٹرول اینڈ پرونشن ایک ایسا ادارہ جس کی ہر بات کرونا وبا کے موقع پر ہم مان رہے تھے، اس نے بھی کہا ہے کہ اس وبا سے پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ اب تک ایک بھی اس سے متاثر ہونے کی خبر نہیں آئی ہے۔ اسی لیے عوام کو کسی قسم کے خوف و ہراس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
اب کچھ عالمی سطح کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی خواہش ہوگی کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ لوگ خوف وہراس میں مبتلا ہو جائیں تاکہ پھر ایک بار انہیں عوام کو لوٹنے اور اپنی جیبیں بھرنے کا موقع مل جائے، اسی لیے وہ نت نئے طریقے ایجاد کرتے رہتے ہیں، لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرتے ہیں۔ میڈیا کا بھی رویہ عوامی صحت کو لے کر مثبت ہونا چاہیے، غیر ضروری عوام کو پریشان نہیں کرنا چاہیے، جو حقیقت نہیں ہے اس کو پڑھا چڑھا کر نہیں پیش کرنا چاہیے، خبروں کو لے کر سنسنی پیدا کرنا کہ چین میں ایک نئی وبا پھیل رہی ہے، پھر ایک بار لاک ڈاؤن ہونے والا ہے، عالمی سطح پر یہ بیماری پھیل رہی ہے وغیرہ وغیرہ، اس طرح کی اشتعال انگیزی سے میڈیا کو پرہیز کرنا چاہیے۔
عوام سے بھی گزارش ہے کہ یوٹیوب کے نامعقول تھم بنیلس (اشتہاری تصاویر) کو حقیقت نہ سمجھ بیٹھیں۔ نامعقول خبروں کو دیکھ کر اپنے آپ کو خوف میں مبتلا نہ کریں اور اپنے عزیزوں کو بھی خوف و ہراس سے بچائیں، احتیاطی تدابیر اسی طرح اختیار کریں جس طرح موسم سرما میں عام طور پر کیا جاتا ہے۔گزارش یہی ہے کہ امن و امان قائم رکھیں، پریشان نہ ہوں اور ہر قسم کی وبا اور بالخصوص افواہوں سے خود کو دور رکھیں۔
***

 

***

 مرکزی حکومت اور دیگر ریاستی حکومتوں کے ذمہ داروں نے کہا ہے کہ اس وبا کا ہمارے ملک میں کوئی کیس اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ہیلتھ سروسز کے ڈاکٹر اتل گوئل نے عام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024