ہندتوا کا سیاسی منصوبہ، مسلمانانِ ہند کے تناظر میں

بھارت میں مسلم تاریخی ورثے پر حملے: پی این اوک کے خیالات کا اثر

0

محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی

پرشوتم ناگیش اوک جو P N Oak کے نام سے مشہور ہیں 2 مارچ 1917 کو اِندور (مدھیہ پردیش) میں پیدا ہوئے اور 4 دسمبر 2007 کو تقریباً 90 سال کی عمر میں پونے میں آنجہانی ہو گئے۔ ان کو بھارت کا جدید ’مورخ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس جہانِ فانی سے جاتے ہوئے انہوں نے ’ہندتوا‘ کے منصوبے میں رنگ بھرنے کے لیے ایسے کام کیے جس کی نظیر شاید انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ تاریخ کے تناظر میں جھوٹ کو سچ کہنے میں پی این اوک کو مہارت حاصل تھی۔ ان کی ’تاریخی تحقیق‘ کے دعوے کو اگرچہ مستند و معتبر تاریخ شناسوں نے باطل قرار دیا ہے لیکن سنگھ پریوار کے دانش وروں نے پی این اوک کے دعوے کی کبھی تردید نہیں کی۔
ملک کی موجودہ نازک اور سنگین صورت حال یہ ہے کہ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی مسجد کے نیچے مورتی ہونے کی تشہیر کی جاتی ہے اور عدالتی تحقیقات کا پروانہ بھی ہندتوا کے شیدائی حاصل کرلیتے ہیں۔ بُتوں کے نام پر بابری مسجد کو منہدم (6 دسمبر 1992) کرنے والے ہندتوا کے شیدائیوں کی جانب سے تاج محل، لال قلعہ، قطب مینار اور چار مینار جیسے تاریخی شاہ کار کے علاوہ اب شاہی جامع مسجد دہلی کے ساتھ بنارس، سنبھل، اترکاشی، بدایوں، علی گڑھ، جونپور کی تاریخی اٹالہ مسجد اور ملک کی ہزاروں مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ اجمیر کی درگاہ اور اس سے متصل تاریخی عمارتیں جو گنگا جمنی تہذیب کی علامت تصور کی جاتی ہیں، وہ بھی ہندتوا کے نشانے پر ہیں۔ ان کی مذموم حرکتوں کی وجہ سے بعض مقامات پر خطرناک فرقہ وارانہ فسادات بھی پھوٹ پڑے ہیں بلکہ فرقہ وارانہ فسادات کا یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کی صورت حال خود آر ایس ایس کے کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے۔ انگریزی کے معروف صحافی افتخار گیلانی کا ایک اہم مضمون thewireurdu.com پر آن لائن دستیاب ہے۔ انہوں نے اپنے تحقیقی مضمون کے آخر میں آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت کی طرف سے اپنی قوم کو دیے گئے اس مشورے کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ ’’ہر مسجد کے نیچے شیو مندر یا مورتی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے‘‘
اس کے بعد افتخار گیلانی لکھتے ہیں:
’’کیونکہ شاید ان کو معلوم ہے کہ اگر یہ سلسلہ شروع ہوا تو رکنے والا نہیں ہے، اس کی زد میں ہندو مندر بھی آسکتے ہیں۔ تاریخ کے وہ اوراق بھی کھل جائیں گے جو ثابت کریں گے کہ کس طرح برہمنوں نے بدھ مت کو دبایا اور ان کی عبادت گاہوں کو نہ صرف مسمار کیا بلکہ بدھ بھکشوؤں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو اذیت ناک موت دے کر اس مذہب کو ہی ملک سے بے دخل کر دیا۔‘‘
موجودہ ہندوستان کے بھگوا رنگ کو سمجھنے کے لیے آر ایس ایس کے ماضی پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ آر ایس ایس آج سے تقریباً سو سال قبل 27 ستمبر 1925 کو قائم ہوئی تھی جس کے مؤسس (Founder) کے بی ہیڈگیوار تھے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد ہندوستان میں ہندو قومیت (Hindu Nationalism) کا فروغ اور ہندتوا کا احیا تھا۔ ہندو نیشنلزم کا یہ نظریہ ڈاکٹر ہیڈگیوار نے ونایک دامودر ساورکر (28 مئی 1883 26 فروری 1966) کی ایک کتاب ‘Essentials of Hindutva’ کی روشنی میں اپنایا تھا۔ ساورکر کا تعلق ’ہندو مہا سبھا‘ کے عسکری گروپ سے تھا۔ بعد میں وہ ہندو مہا سبھا کے صدر بھی ہوئے۔ یہ کتاب ناگپور میں 1923 میں چھپی تھی۔ اس وقت ساورکر رتناگری (مہاراشٹر) جیل میں قید تھے۔ ہیڈگیوار نے جیل میں ساورکر سے ملاقات کے بعد ہی 1925 میں آر ایس ایس کی بنیاد رکھی تھی۔ آر ایس ایس کے ممبروں کی تربیت (Training) کے لیے خاکی چڈی اور سفید شرٹ بطور یونیفارم اور اس کے ساتھ لاٹھی، تلوار اور خنجر وغیرہ کو لازمی قرار دیا گیا۔ گویا تنظیم کے ساتھ تربیت میں پیرا ملٹری (Paramilitary) تکنیک کا بھرپور استعمال کیا گیا۔
واضح رہے کہ آر ایس ایس نے ہندو راشٹر کا نصب العین متحدہ ہندوستان میں طے کیا تھا۔ یعنی اسی ہندوستان میں جہاں عظیم مغل حکم رانوں کی آخری کڑی بہادر شاہ ظفر کو ملک بدر کرکے انگریزی سرکار نے رنگون (برما) میں قید کر دیا تھا اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد کو قتل کر دیا تھا۔ ابتدا سے اس بھگوا شدت پسند تنظیم کا طریقہ کار ہر طبقہ کے ہندوؤں کو اپنا ہم نوا اور شیدائی بنانا تھا۔ اسی دَور میں عام ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین منافرت کی بیج بوئی گئی۔ اب یہ بیج ایک تناور درخت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ آر ایس ایس نے اپنے نصب العین کے حصول کے لیے بعض ہندو دانش وروں کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا۔ اگرچہ ان کا با ضابطہ تعلق آر ایس ایس سے نہیں تھا۔ اس تنظیم کے افراد نے برٹش حکم رانوں کے خلاف کبھی کوئی کام نہیں کیا، وہ ہمیشہ انگریزوں کے منظور نظر بنے رہے۔ ہندو اکثریت کی نمائندہ یہ شدت پسند تنظیم اب اس قدر مضبوط ہوچکی ہے کہ اس کے ممبروں کی تعداد اس وقت پچاس لاکھ کے اوپر بتائی جاتی ہے۔ 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میں اس کی تقریباً 73,117 شاخیں ہیں۔ ملک کے ہر صوبہ میں اس کی ہزاروں سیاسی اور سماجی ذیلی تنظیمیں ہیں۔ لیکن سیاسی اعتبار سے دو گروپ وشوا ہندو پریشد (VHP) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) اس وقت ملک میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک ایم ایس گولوالکر (1973-1906) تھے۔ ان کو گروجی بھی کہا جاتا تھا۔ انہوں نے آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کے مجموعے کو ’سنگھ پریوار‘ سے موسوم کیا۔ یہ بات واضح ہو کہ اس تنظیم میں مکمل اختیارات کا حامل اس کا سرسنگھ چالک ہی ہوتا ہے۔ دیگر عہدہ داروں کی حیثیت دوسرے درجے کی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگیوار (و1940) آر ایس ایس کے مؤسس بھی تھے اور پہلے سرسنگھ چالک بھی۔ 1940 میں اپنے دیہانت سے قبل انہوں نے ایم ایس گولوالکر کو آر ایس ایس کا دوسرا سر سنگھ چالک مقرر کیا۔ مادھو سداشیو گولوالکر تا حیات یعنی 5 جون 1973 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کی پہلی کتاب ‘We or our Nationhood Defined’ 1939 میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کی دوسری کتاب ‘Bunch of Thoughts’ جب 1966 میں شائع ہوئی تو مسلم دانش وروں نے اس کے زہریلے مواد کو مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز قرار دیا لیکن کانگریسی مسلمانوں نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پی این اوک نے ‘Bunch of Thoughts’ سے متاثر ہوکر یا آر ایس ایس کی تحریک پر 1966 میں ہی اپنی کتاب ‘Some Blunders of Indian Historical Research’ شائع کی۔ تب بھی مسلم دانش وروں کے کان کھڑے نہیں ہوئے۔ اسے کسی ’دیوانے کی بڑ‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ حالانکہ یہ وہی شخص ہے جس نے 1980 میں ایک تحقیقی ادارہ ‘Institute of Rewriting Indian History’ قائم کیا۔ اس کے ساتھ ہی ’اتیہاس پتریکا‘ کے نام سے ایک رسالہ کا اجراء بھی کیا گیا۔ اسی نام نہاد ادارے کے زیر اہتمام کئی مزید کتابیں شائع ہوئیں جن میں مسلمان اور مسلم حکم رانوں کے خلاف زہریلا مواد وافر مقدار میں موجود تھا۔ دو کتابیں ورلڈ ہسٹری اور عیسائیت کے حوالے سے بھی شائع کی گئیں۔ پی این اوک کی تمام کتابوں میں درج تاریخی مواد کو اگرچہ معتبر تاریخ دانوں نے در خور اعتنا نہ سمجھا لیکن آر ایس ایس کی طرف سے پی این اوک کی کتابوں پر کوئی منفی رد عمل کبھی میڈیا میں نہیں آیا۔ اس طرح پی این اوک کی تمام کتابیں ہندو اکثریت کے درمیان گردش کرتی رہیں۔ شاید پی این اوک کی ذمہ داری یہی تھی کہ وہ آزاد ہندوستان میں انگریزی، ہندی اور مراٹھی زبانوں میں ہندو اکثریت کے ذہنوں کو مسموم کرنے والے افکار کو مسخ شدہ اور خلاف واقعہ تاریخ ہند لکھ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکے۔ تاہم اس شخص کا بنیادی مشن یہ تھا کہ مسلمانانِ ہند کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کیا جائے۔ مسلمانوں کی گردنوں میں نفسیاتی غلامی کا طوق ڈال کر ہمیشہ کے لیے انہیں ذہنی طور پر معذور کر دیا جائے۔ وہ شخص اپنے مشن میں کتنا کامیاب ہوا اس کا اندازہ آنے والا وقت کرے گا۔ لیکن آزاد ہندوستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ پر نظر ڈالیے تو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں کو اپنے حقیقی ہدف سے ہٹانے کے لیے سیاست کے تمام حربے مسلسل استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں گلوبل سطح پر بھی آر ایس ایس کو فائدہ ہوا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند کو ایسے بھنور میں ڈال دیا گیا ہے کہ ’جائے دم زدن نیست‘ یعنی اُف کرنے کی بھی گنجائش نہیں۔ عدالت کے چکر لگائیے اور عدالتی کمیشن کو جھیلتے رہیے۔ ناگفتہ بہ صورت حال تو یہ ہے کہ حقیقی دعوتِ اسلام کا کام کرنے والے پابند سلاسل کیے جا رہے ہیں۔
دارالحرب اور دارالامن کی بحث سے قطع نظر اللہ رب العزت کی یہ سر زمین اب مشرکین کی سر زمین محسوس ہوتی ہے۔ یہاں شرک کی جڑیں اتنی گہرائی تک اتر چکی ہیں کہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ کیا اب بھی ہمیں یقین نہیں ہے کہ اسلامی دعوت کے لحاظ سے بھارت مکی دور کے مشابہ ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف و ادراک نہ ہونے کے سبب ہی شاید ہم سے پے در پے ایسی غلطیاں ہوتی رہی ہیں جن کو ہم اپنی غلطی بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے مسلمان اب ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جہاں ان کے لیے کوئی چارہ نہیں کہ وہ تمام جلی اور خفی شرک کا انکار کرتے ہوئے خود کو اللہ رب العزت کے سپرد کر دیں۔ ممکن ہے کہ آنے والی حقیقی دنیا یعنی آخرت کا ادراک ہمیں ہو جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہے بشرطیکہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت خلوص اور صدق دل سے کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانانِ ہند اپنے رویے پر سنجیدگی سے غور کریں اور اجتماعی طور پر منفی طرز عمل سے گریز کرتے ہوئے مثبت اسٹریٹجی مرتب کریں۔ اللہ ہی ہمارا حامی و ناصر ہے۔
علامہ اقبال کے بقول
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الا اللہ

 

***

 ملک کی موجودہ نازک اور سنگین صورت حال یہ ہے کہ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی مسجد کے نیچے مورتی ہونے کی تشہیر کی جاتی ہے اور عدالتی تحقیقات کا پروانہ بھی ہندتوا کے شیدائی حاصل کرلیتے ہیں۔ بُتوں کے نام پر بابری مسجد کو منہدم (6 دسمبر 1992) کرنے والے ہندتوا کے شیدائیوں کی جانب سے تاج محل، لال قلعہ، قطب مینار اور چار مینار جیسے تاریخی شاہ کار کے علاوہ اب شاہی جامع مسجد دہلی کے ساتھ بنارس، سنبھل، اترکاشی، بدایوں، علی گڑھ، جونپور کی تاریخی اٹالہ مسجد اور ملک کی ہزاروں مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ اجمیر کی درگاہ اور اس سے متصل تاریخی عمارتیں جو گنگا جمنی تہذیب کی علامت تصور کی جاتی ہیں، وہ بھی ہندتوا کے نشانے پر ہیں۔ ان کی مذموم حرکتوں کی وجہ سے بعض مقامات پر خطرناک فرقہ وارانہ فسادات بھی پھوٹ پڑے ہیں بلکہ فرقہ وارانہ فسادات کا یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کی صورت حال خود آر ایس ایس کے کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024