ہندوتوا گروہوں کی جارحانہ قوم پرستی بھارتی ثقافت کے لیے خطرہ
سماجی ہم آہنگی پر منفی اثرات مرتب: مولانا عبدالحمید نعمانی
انوارالحق بیگ
80فیصد عوام ہندوتوا کی حامی نہیں سچائی عام کرنے کے لیے جھوٹے بیانیے بے نقاب کریں: محمد سلیم انجینئر
’’جہاں ہندو دھرم ایک مذہب ہے وہیں ہندوتوا ایک سیاسی نظریہ ہے جو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کا استعمال کرتا ہے اور اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی اور نفرت کو ہوا ملتی ہے۔ ‘‘ ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر نے کیا۔ دراصل پچھلے دنوں جماعت اسلامی ہند کے مرکز نئی دلی میں ’’جارحانہ قوم پرستی کا حملہ: تدارک اور حل‘‘ کے موضوع پر ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوتوا کو اکثر ہندو دھرم کے ساتھ خلط ملط کر دیا جاتا ہے تاکہ مذہبی اور فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکایا جا سکے۔
اس پروگرام میں ممتاز عالم مولانا عبدالحمید نعمانی نے جارحانہ قوم پرستی پر سخت تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ سماجی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے اور ہندوستان کی جامع ثقافتی اساس کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے۔
اتر پردیش کے سنبھل میں جامع مسجد پر حالیہ مندر کے دعوے کی مثال دیتے ہوئے مولانا نعمانی نے کہا کہ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ بابرنامہ میں ہری ہر مندر کی تخریب کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ جامع مسجد تعمیر کی جا سکے تو بابرنامہ کے مختلف زبانوں میں دستیاب تمام ایڈیشنز کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس دعوے کو ایک عظیم جھوٹ قرار دیتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ یہ دعویٰ کسی بھی ایڈیشن میں موجود نہیں ہے۔
انہوں نے خود عربی ایڈیشن جو 711 صفحات پر مشتمل ہے اور فارسی ایڈیشن کا جائزہ لیا۔ انگریزی ایڈیشن جو کہ اور بھی بڑا ہے 986 صفحات پر مشتمل ہے۔ انہوں نے نشان دہی کی کہ ایسی تحریفات صرف حاشیہ نویسی یا فٹ نوٹس میں ملتی ہیں نہ کہ متن میں۔ انہوں نے ان جھوٹے دعووں کو مسترد کرنے اور حقیقت پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
مسلمانوں یا مخصوص برادریوں کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت سے بھرے حالیہ نفرت انگیز خطابات اور میڈیا مباحثوں پر تنقید کرتے ہوئے مولانا نعمانی نے زور دیا کہ علی اور بجرنگ بلی جیسی شخصیات ہندوستان کی ثقافتی اور روایتی اساس کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اردو، علی یا میاں مارکیٹ جیسے ثقافتی عناصر کو مسترد کرنا جبکہ صرف بجریگ بلی یا ہنومان مارکیٹ جیسے عناصر کو قبول کرنا ہندوستان کی وسیع وراثت کو مسترد کرنے کے مترادف ہے جس میں رام، کرشن اور دیگر معزز شخصیات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسی محدود سوچ کا رام، ہنومان یا کسی اور کی تعلیمات اور اقدار میں کوئی مقام نہیں ہے۔
مولانا نعمانی نے کہا کہ ان خیالات کو چیلنج کرنا ضروری ہے اور ملک کی اساطیر اور معزز شخصیات کی گہری سمجھ بوجھ کے ساتھ ایک جامع اور درست نقطہ نظر پیش کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ منفی قوم پرستی کو ہمیشہ اپنے وجود کے لیے کسی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ ہم تمام برادریوں کے لیے سمجھ، احترام اور جگہ پیدا کریں۔
مولانا نے جارحانہ قوم پرستی کے خطرات اور اس کے سماجی ہم آہنگی پر منفی اثرات کو واضح کرتے ہوئے جامع دلائل پیش کیے۔انہوں نے بعض دائیں بازو کے گروپوں جیسے ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس کی کمیونٹی پر مبنی قوم پرستی کے عروج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ساورکر، گولوالکر اور دیگر آر ایس ایس رہنما ہندوتوا کو فروغ دینے پر زور دیتے ہیں جو کہ ایک سیاسی نظریہ ہے جو دراصل برہمنیت پر مبنی اور جو فرقہ وارانہ اور کمیونٹی مرکزیت پر مبنی تشریح کو فروغ دیتا ہے۔
مولانا نعمانی نے واضح کیا کہ ہندو دھرم ایک مذہب کے طور پر اپنی جامع روایات اور دنیاوی نقطہ نظر کے ساتھ کسی بھی برادری کے خلاف نفرت کی تعلیم نہیں دیتا، بشمول مسلمانوں کے، لیکن ہندتوا کے پیروکار جو دوسروں کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑتے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کو مسترد کرتے ہیں اور مسلمانوں کے کردار اور وجود کو نظرانداز کرتے ہیں، وہ حقیقی ہندو نہیں بلکہ ہندتوادی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ ہندو دھرم، ہندوستانی ثقافت، اساطیر یا رام، کرشن اور پرشورام جیسی معزز شخصیات کی وراثت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔
مولانا نعمانی نے کہا کہ پیغمبر حضرت محمد ﷺ کو ہندوستان کی روایت میں ایک آخری رشی اور پیغمبر کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ لوگوں کے، پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے بارے میں تصور کو مزید درست کیا جا سکتا ہے، کیونکہ مستند تاریخی ریکارڈز، روایات اور ذرائع موجود ہیں جو ایک زیادہ درست فہم کو سہارا دیتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ ہندوستان کی قدیم تحریروں جیسے ۱۸ پرانوں، رامائن اور مہابھارت میں مسلمانوں یا اسلام کی مخالفت نہیں ملتی۔ بلکہ ان میں سے بہت سی تعلیمات پیغمبر حضرت محمد ﷺ اور اسلام کے پیش کردہ اصولوں کی حمایت کرتی ہیں لیکن ہندتوا وادی ان خیالات کو مسترد کرتے ہیں۔
مولانا نعمانی نے کہا کہ ہندو دھرم بذات خود اسلام یا کسی اور مذہب کے ساتھ تصادم کی تعلیم نہیں دیتا۔ انہوں نے رام دھاری سنگھ دنکر جیسے مصنفین کا حوالہ دیا جنہوں نے اپنی کتابوں میں اسلام کو ہندوستان کی ثقافت کا ایک لازمی حصہ تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذہبی رواداری اور قبولیت ہمیشہ ہندوستانی سوچ کا حصہ رہی ہے۔
انہوں نے مثالوں کے ذریعے سمجھایا کہ ہندو اساطیر اور متون میں مختلف نظریات اور برادریوں کے لیے احترام اور تنوع کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ پرشورام کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا نعمانی نے کہا کہ انہوں نے اپنے تیر کمان کو راون کو دینے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے خیال میں راون کے راج میں مختلف برادریوں اور نظریات کے لیے جگہ نہیں تھی۔
مولانا نعمانی نے تاریخی اور ثقافتی حوالوں کے ذریعے یہ واضح کیا کہ حقیقی ہندوستانی روایت ہمیشہ کھلے پن اور تنوع کو قبول کرنے کی خصوصیت رکھتی ہے۔ انہوں نے منشی پریم چند اور رابندر ناتھ ٹیگور جیسے ادبی شخصیات کے اقوال کا حوالہ دیا جنہوں نے پہلے ہی جارحانہ قوم پرستی کے خطرات سے خبردار کیا تھا۔
مولانا نعمانی نے کہا کہ جب قوم پرستی نفرت اور اخراج کی قوت بن جائے جو مخصوص گروہوں کو ان کے مذہب، نسل یا عقائد کی بنیاد پر نشانہ بناتی ہے تو یہ سماجی ہم آہنگی اور امن کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی جارحانہ قوم پرستی جو ہندوتوا جیسی خطرناک نظریات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے قوم کو تقسیم کرتی ہے اور ہندوستان کے جامع روح کو نقصان پہنچاتی ہے۔
انہوں نے گولوالکر کی ۱۹۳۹ میں لکھی گئی کتاب "اور نیشن ہُڈ” پر بھی تنقید کی جو ان کے بقول ایک تقسیم کرنے والے نظریے کو فروغ دیتی ہے اور اسے ہٹلر کے یہودیوں کے خلاف رویے سے تشبیہ دی۔
مولانا نعمانی نے زور دے کر کہا کہ ہندوتوا کا ورژن ہندو دھرم کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ ایک محدود اور اخراج پر مبنی تشریح ہے جو جامعیت کے بنیادی روح کو مسترد کرتی ہے۔ انہوں نے مثبت اور منفی قوم پرستی کے درمیان فرق پر روشنی ڈالی، یہ بتاتے ہوئے کہ اپنے ملک یا برادری سے محبت خود میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن جب یہ محبت اخراج، نفرت اور دیگر برادریوں کے حاشیے پر دھکیلنے کے آلے میں بدل جائے تو یہ نقصان دہ ہو جاتی ہے۔
انہوں نے مولانا آزاد، مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسے مفکرین کی مثالیں پیش کیں تاکہ ہندوستان کے متنوع سماجی ڈھانچے میں قوم پرستی کے پیچیدہ پہلوؤں کو اجاگر کیا جا سکے۔ مولانا نعمانی نے کہا کہ مثبت قوم پرستی غلط نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مولانا مودودی نے بھی بعد میں اس نقطہ نظر کی حمایت کی اور یہ بات ایک انٹرویو میں کہی جو کہ ’جنگ‘ اخبار میں شائع ہوئی تھی جس کا حوالہ انہوں نے اپنی کتاب میں دیا ہے۔
مولانا نعمانی نے زور دیا کہ موجودہ حالات میں قوم پرستی بحث کے مرکز میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں، اسلام، مساجد، مقبروں یا ان سے وابستہ کسی بھی مقامات کو مٹانے کی کوششیں، چاہے آثار قدیمہ ہو یا مذہبی تاریخ، ہندوستانی روایت اور اقدار کے بالکل خلاف ہیں۔
مولانا نعمانی نے عوامی مقامات اور تاریخی بیانیوں سے مسلم اور اسلامی حوالوں کو ختم کرنے کی منظم کوششوں پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوششیں ہندوستان کی روایات اور فلسفیانہ نقطہ نظر کے بالکل برعکس ہیں۔
انہوں نے خاص طور پر تاریخی متون کو دوبارہ لکھنے یا سیاسی مقاصد کے لیے ان میں تحریف کرنے کی کوششوں پر تنقید کی اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے کام کا حوالہ دیا جس نے مذہبی متون میں کئی تحریفات کو بے نقاب کیا۔ مولانا نعمانی نے کہا کہ کوئی بھی تاریخی متن بعد کی تشریحات سے مکمل طور پر محفوظ نہیں رہا۔
انہوں نے دلت دانش وروں اور مفکرین کے علمی کردار کو اجاگر کیا جنہیں ان کی اہم علمی خدمات کے باوجود اکثر نظر انداز کیا گیا۔ مولانا نعمانی نے کہا کہ یہ نظر انداز کرنا اسی جارحانہ قوم پرستی کا حصہ ہے جو بیانیوں پر قابو پانا اور مختلف آوازوں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
مولانا نعمانی نے زور دیا کہ جارحانہ قوم پرستی کو مسترد کرنے کا مطلب قوم پرستی کو مکمل طور پر رد کرنا نہیں ہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی ہند کے صدر سید سعادت اللہ حسینی کی کتاب ’ہندتوا: انتہا پسندی‘ کا حوالہ دیا، جس میں ہندوتوا کے نظریے کا متبادل پیش کرنے کی بات کی گئی ہے۔ مولانا نعمانی نے کہا کہ کسی نظریے کو رد کرنے سے ایک خلا پیدا ہوتا ہے اور یہ خلا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے پُر کریں۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ الجھن یا کم تر ہونے کے احساس کا شکار نہ ہوں بلکہ اعتماد کے ساتھ مثبت اصولوں پر مبنی متبادل پیش کریں۔
آخر میں مولانا نعمانی نے کہا کہ مسلمان مختلف معاملات میں متبادل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، چاہے وہ قوم پرستی ہو، خدا کا تصور، انصاف، آخرت، یا برادری کے تعلقات ہوں۔ انہوں نے تحقیقی کام اور درست اور مستند بیانیہ پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ جھوٹے بیانیوں کو مستند تاریخی شواہد کے ساتھ چیلنج کیا جا سکے۔
مولانا نعمانی نے رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی ملک، قوم یا برادری سے محبت جائز ہے جب تک کہ اس میں ناانصافی یا ظلم شامل نہ ہو۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ جارحانہ اور منفی قوم پرستی، جو کسی مخصوص برادری کے غلبے کے تصور پر مبنی ہے طویل مدت تک پائیدار نہیں ہے۔
نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر نے اپنے صدارتی خطاب میں ہندتوا کو ایک فرقہ وارانہ تحریک قرار دیا جو سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ہے اور مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے مذہب پر عمل کرنا کوئی مسئلہ نہیں، لیکن دوسروں کے خلاف نفرت پھیلانا خطرناک ہے۔
ہندتوا اور فسطائیت کے تقابلی جائزے
پروفیسر سلیم نے ہندوتوا کا موازنہ فسطائی تحریکوں سے کیا اور کہا کہ یہ جھوٹ، پروپیگنڈے اور مصنوعی دشمن پیدا کرنے پر انحصار کرتی ہیں جس سے سماج عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ ان جھوٹے بیانیوں کو بے نقاب کریں اور سماجی نفرت کے خلاف سچائی کو فروغ دیں۔
پروفیسر سلیم نے ہندوستانی معاشرے میں رشتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ قوم پرستی کے حوالے سے غلط فہمیاں دور کی جا سکیں اور یہ جھوٹ بے نقاب ہو سکے کہ ہندوتوا کے انتشار پسند نظریے کو 80 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ حقیقت میں صرف 10-15 فیصد عوام ہی اس نظریے کے حامی ہو سکتے ہیں جبکہ دیگر مختلف ذرائع سے گم راہ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی نشان دہی کی کہ انتخابات میں ان گروہوں کو ملنے والے ووٹ عام طور پر 31 سے 40 فیصد کے درمیان ہوتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی حمایت کا دائرہ وسیع اور متنوع ہے اور تمام ووٹرز ان کے نظریے کے حامی نہیں ہیں۔
ہندوتوا کے نظریے اور نفرت کے خلاف جدوجہد
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر نے اس بات پر زور دیا کہ جدوجہد بنیادی طور پر ہندوتوا کے نظریے اور نفرت کے اس ماحول کے خلاف ہونی چاہیے جس کو یہ پروان چڑھاتا ہے۔ انہوں نے ہندو برادری کے ساتھ مل کر اس نظریہ نفرت کو چیلنج کرنے اور ہندوستانی معاشرے کو قائل کرنے کے لیے ان کی غلط فہمیاں دور کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ ان گروہوں کے نفرت انگیز نظریات نہ صرف سیکولرازم کے اصولوں کے خلاف ہیں بلکہ ہندو مت، اس کی ثقافت اور روایات کے بھی منافی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کی بنیاد سیکولرازم پر رکھی گئی ہے، جہاں تمام مذاہب برابر ہیں اور لوگوں پر زبردستی مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کو اس حقیقت سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کا کردار اور فسطائیت کا خطرہ
پروفیسر سلیم نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمان صرف ایک کمیونٹی یا مذہبی و نسلی گروہ نہیں ہیں جو صرف اپنے مفادات اور حقوق کے تحفظ پر مرکوز ہوں بلکہ وہ ملک کے ذمہ دار شہری ہیں اور ملک کی حفاظت کرنا ان کا فرض ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ مسلمان اس وقت بنیادی ہدف ہیں لیکن اصل خطرہ فسطائیت کے عروج میں ہے، جو ہندوستان کو خطرناک راستے پر لے جا سکتا ہے۔
انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ اس خطرے کو سمجھیں اور نازی جرمنی کے ہٹلر کے دور سے مماثلتیں پیش کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ایسا راستہ ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ سوچیں کہ کیا وہ واقعی ملک کو اس طرح کے نتائج کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔
نفرت کے خلاف اصلاح اور امت کا فریضہ
پروفیسر سلیم نے زور دیا کہ ایک ذمہ دار امت کے طور پر مسلمان تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے پیدا کی گئی جماعت ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ قوم کے ہر فرد کی بھلائی چاہیں، خواہ وہ دنیاوی معاملات ہوں یا اخروی۔ انہوں نے نفرت کے مرض کو ختم کرنے اور نفرت پھیلانے والوں کی بھی اصلاح کی کوشش کرنے کی اہمیت پر زور دیا، تاکہ ملک کے اتحاد اور ہم آہنگی کا تحفظ کیا جا سکے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025