
’’ہندوتوا دہشت گردی‘‘ : حقیقت یا سچائی سے فرار؟
مالیگاؤں اور ناندیڑ دھماکوں سے اٹھتے ہوئے سوالات ۔۔!
ضمیر احمد خان، ناندیڑ
حال ہی میں بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا کہ ’’بھگوا دہشت گردی‘‘ یا ’’ہندوتوا دہشت گردی‘‘ جیسی کوئی چیز اس ملک میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک سیاسی سازش تھی جس کا مقصد مخصوص نظریاتی گروہوں کو بدنام کرنا تھا۔ لیکن ان کے اس بیان کے ٹھیک دوسرے دن 2008 کے مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں تمام ملزمین کی باعزت بریت اور اس سے جڑے شواہد ایک سنگین سوال کھڑا کرتے ہیں کہ کیا واقعی ملک میں ’’بھگوا دہشت گردی‘‘ نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے یا یہ صرف اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا سیاسی بیان ہے جو سچائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے؟
مالیگاؤں بم دھماکہ (2008): ایک نظیر
مالیگاؤں کے بھکو چوک میں 2008 میں ہونے والے بم دھماکے میں 6 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے تھے۔ ابتدائی تفتیش مہاراشٹر اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے نے کی جنہوں نے ٹھوس شواہد جمع کیے تھے جن میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت، دیانند پانڈے اور دیگر ہندوتوا سے وابستہ افراد کے ملوث ہونے کے ثبوت شامل تھے۔خاص طورپر وہ موٹر سائیکل جس پر بم نصب کیا گیا تھا وہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے نام پر تھی۔ حالانکہ بعد میں اس نے اس گاڑی سے لا تعلقی ظاہر کرتے ہوئے خود کو دھماکہ سے الگ کرنے کا موقف اپنایا۔ یہاں یہ بھی ایک نکتہ قابل غور ہے کہ یعقوب میمن جسے دہشت گردی کے معاملے میں پھانسی کی سزا سنائی گئی، اس کی بیوی کے نام پر بھی ایک گاڑی تھی، عدالت نے اسی کی بنیاد پر اس کی بیوی کو بھی سزا سنائی تھی۔ مالیگاؤں بم دھماکہ معاملے میں اگر اسی اصول کے مطابق فیصلہ دیا جاتا تو سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے خلاف یہ ایک ٹھوس ثبوت تھا۔ اسی طرح تفتیش کے دوران سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی فون پر کی گئی گفتگو کی ریکارڈنگ بھی اے ٹی ایس کے ہاتھ لگی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ بم دھماکہ میں اتنے کم لوگ کیوں مرے۔ اس حساب سے اس دھماکہ میں پچاس سے سو لوگ ہلاک ہونے چاہیے تھے۔ اور ہوتا بھی ویسا ہی لیکن خوش قسمتی سے اس دن شب قدر تھی تراویح کی نماز کے بعد دعا دیر تک ہوتی رہی اور لوگ مسجدوں میں دعا میں مصروف تھے اگر معمول کی طرح تراویح ہوتی تو لوگ تراویح پڑھ کر مسجد سے نکل آتے اور بھکو چوک میں بھیڑ جمع رہتی لیکن اس دن شب قدر ہونے کی وجہ سے لوگ دھماکہ کی جگہ بہت کم تعداد میں تھے اور اسی وجہ سے ہلاکتیں کم ہوئیں۔
ایمان دار اور فرض شناس پولیس افسر ہیمنت کرکرے کی 26/11 ممبئی حملے میں ہلاکت کے بعد تفتیش کا رخ ہی بدل دیا گیا۔ کیس این آئی اے کے سپرد ہوا اور پھر شواہد کو کمزور کیا گیا، گواہوں کو بدلا گیا اور آخرکار عدالت نے ناکافی شواہد کی بنیاد پر تمام ملزمین کو بری کردیا۔
ناندیڑ بم دھماکہ (2006): ایک نظر انداز کردہ حقیقت
6 اپریل 2006 کو ناندیڑ کے پاٹ بندھارے نگر میں ایک زوردار دھماکہ ہوا جس میں دو افراد نریش راج کونڈوار اور ہمانشو پانسے جو کہ مبینہ طور پر آر ایس ایس، بجرنگ دل اور وی ایچ پی سے وابستہ تھے، ہلاک ہوئے۔ تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ یہ پٹاخہ دھماکہ نہیں بلکہ بم سازی کے دوران ہونے والا دھماکہ تھا۔ مقام واردات سے زندہ بم بھی برآمد ہوئے، جنہیں بعد میں بم اسکواڈ نے ناکارہ بنایا۔یقیناً ناندیڑ بم دھماکہ (2006) ایک ایسا واقعہ ہے جسے برسوں سے دبانے کی کوشش کی گئی حالانکہ اس کے شواہد کئی اہم اور خطرناک حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس دھماکے میں جو چیزیں سامنے آئیں وہ صرف ایک حادثہ یا تکنیکی خرابی نہیں بلکہ ایک منظم سازش، تربیت یافتہ گروہ، فرقہ وارانہ ذہنیت اور ممکنہ طور پر کئی بم دھماکوں کا نیٹ ورک تھا۔ ذیل میں ناندیڑ بم دھماکہ کی تفصیلات کو مزید وضاحت سے بیان کیا گیا ہے تاکہ اس واقعے کی سنگینی اور سیاسی چشم پوشی کو مکمل طور پر سمجھا جا سکے
ناندیڑ بم دھماکہ (6 اپریل 2006): واقعے کی تفصیل اور تفتیشی حقائق
یہ دھماکہ مہاراشٹر کے شہر ناندیڑ کے پاٹ بندھارے نگر علاقہ میں رات تقریباً ڈیڑھ بجے ہوا۔ دھماکہ ایک دو منزلہ رہائشی عمارت کے اندر ہوا جو پی ڈبلیو ڈی کے ریٹائرڈ ایگز کیٹیو انجینئر لکشمن گنڈیا راج کونڈوار کی ملکیت تھی۔ لکشمن گنڈیاراج کونڈوار آر ایس ایس کے مقامی صدر تھے۔ ابتدائی طور پر حادثہ قرار دینے کی کوشش مقامی پولیس اور حکومتی حکام نے شروع میں اسے ’’پٹاخہ دھماکہ‘‘ یا ’’حادثاتی گیس سلنڈر‘‘ کا دھماکہ قرار دیا تاکہ معاملہ دبایا جا سکے۔ اس کے لیے دھماکہ والے مکان میں باضابطہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے کی مالیت پر مشتمل پٹاخوں کا ذخیرہ بھی رکھا گیا تاکہ ایف آئی آر میں درج کی گئی کہانی کو سچ ثابت کیا جاسکے لیکن ان لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ اتنے بڑے دھماکہ کے بعد بھی وہ پٹاخے محفوظ کیسے رہ گئے ان میں دھماکہ کیوں نہیں ہوا؟ لیکن بعد کی تفتیش میں جو شواہد سامنے آئے، انہوں نے اس دعوے کو مکمل طور پر جھٹلا دیا۔ اس دھماکہ میں مالک مکان لکشمن گونڈیاراج کونڈوار کا بیٹا نریش راج کونڈوار اور اس کاایک ساتھی ہمانشو پانسے ہلاک ہوگئے تھے ان دونوں کا تعلق آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ سے تھا جبکہ دیگر چار افراد ماروتی کیشو واگ، یوگیش دیشپانڈے، گروراج توپتیوار اور راہول پانڈے شدید زخمی ہوئے تھے۔ یہ چاروں بھی سنگھ پریوار سے منسلک تھے۔ ان میں سے کچھ افراد کو جھلسنے کی حالت میں ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں سے ان کے بیانات حاصل کیے گئے۔ تفتیش کے دوران جس مکان میں دھماکہ ہوا وہاں سے متعدد قابلِ اعتراض اور دہشت گرد سرگرمیوں سے متعلق اشیاء برآمد ہوئیں، جن میں ایک عدد زندہ پائپ بم جو بعد میں بم ڈسپوزل اسکواڈ نے شہر سے دور جنگل میں لے جاکر ناکارہ بنا دیا۔ اس وقت کے آئی جی سوریہ پرتاب گپتا نے دھماکے دوسرے دن پریس کانفرنس لے کر میڈیا کو یہ بیان دیا تھا کہ دھماکہ پٹاخہ نہیں بلکہ بم کا تھا اور مہلکوکین اور زخمیوں کے جسم سے بم کے اجزا ملے ہیں۔ اور ان تمام لوگوں کا تعلق بجرنگ دل سے تھا۔ پٹاخے کا دھماکہ بتانے سے متعلق درج کی گئی ایف آئی آر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ملزمین نے انہیں دھماکہ کی سازش پر پردہ ڈالنے کے لیے گمراہ کن بیان دیا تھا جس کی وجہ سے ایف آئی آر میں پٹاخہ کا دھماکہ لکھا گیا تھا لیکن بعد میں اس میں ترمیم کی گئی تھی۔ تفتیش کے دوران پولیس کو دیسی ساخت کے دھماکہ خیز مواد کے اجزاء، نقشے اور خاکے جن میں مہاراشٹر کے مختلف مسلم علاقوں کی نشان دہی کی گئی تھی، مساجد، مدرسوں اور مسلم بستیوں کے اسکیچ اور فوٹوگراف، نقلی ڈاڑھی و ٹوپی (مسلمانوں کا روپ دھارنے کے لیے) موبائل فونز اور سم کارڈز جو مشکوک تھے، بم بنانے کے لیے تکنیکی لٹریچر۔ یہ تمام شواہد اس بات کا پتہ دیتے تھے کہ یہاں ایک منظم بم سازی کا یونٹ کام کر رہا تھا جو خاص مقصد کے لیے تربیت حاصل کر رہا تھا۔ زخمی ملزمین نے بیان دیا تھا کہ وہ بم بنا رہے تھے تاکہ انہیں مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر استعمال کیا جا سکے۔ ان کا مقصد ان دھماکوں کا الزام مسلم تنظیموں پر ڈال کر فساد کی فضا تیار کرنا تھا۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ پربھنی اور جالنہ کی بعض مساجد میں پہلے ہونے والے بم دھماکوں کے تار بھی انہی سے جڑے ہوئے تھے۔ مہاراشٹر کی انسداد دہشت گردی اسکواڈ (ATS) نے تفتیش کی تو ان سبھی باتوں کی تصدیق ہوئی۔ اے ٹی ایس نے ناندیڑ بم دھماکہ کو ایک سازش قرار دیا جس کا مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنا اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا تھا۔ تفتیش کے دوران ملزمین کا نارکو انالسس ٹیسٹ بھی کروایا گیا جس میں انہوں نے برملا اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ بم دھماکوں کی سازش میں ملوث تھے اور انہیں بم بنانے کی باضابطہ ٹریننگ دی گئی تھی۔ہر ایک دھماکہ کے بعد انہیں چالیس سے ساٹھ ہزار روپے معاوضہ دیا جاتا تھا۔بم سازی کے لیے درکار دھماکہ خیز مواد فراہم کیا جاتا تھا اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت پیدا کی گئی تھی۔ وہ لوگ حب الوطنی کا کام سمجھ کر دھماکوں کی سازشیں کر رہے تھے۔ ان تمام ثبوتوں کی بنیاد پر 16 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ بعد میں کچھ عرصہ کے بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ناندیڑ میں بم سازی کے دوران ہونے والا دھماکہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب میں ہوا جو اصل میں جمعہ کے دن دوپہر ڈیڑھ بجے اورنگ آباد کی کسی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والا تھا لیکن مجرموں نے ٹائمر میں غلطی سے پی ایم کے بجائے اے ایم سیٹ کر دیا جس کی وجہ سے دھماکہ دن میں ڈیڑھ بجے ہونے کے بجائے رات میں ڈیڑھ بجے ہی ہوگیا جس میں دو لوگ ہلاک ہوگئے اور دیگر تین زخمی ہوئے تھے۔ اس کے بعد جب کیس سی بی آئی کو منتقل کیا گیا تو اس نے تفتیش کا رخ ہی بدل دیا۔ سی بی آئی نے کئی اہم گواہ عدالت میں پیش ہی نہیں کیے۔ ضبط شدہ مواد کو کم اہمیت دی گئی یا غائب کر دیا گیا۔ دھماکے کے مقصد کو ’’حادثہ‘‘ قرار دیا گیا۔ ابتدائی ایف آئی آر میں ’’پٹاخہ‘‘ دھماکہ ہونے کا دعویٰ دہرا کر کیس کو کمزور کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت نے شواہد کی ’’کمی‘‘ کو بنیاد بناتے ہوئے ناندیڑ سیشن کورڈ نے 4 جنوری 2025 کو اپنے فیصلے میں تمام ملزمین کو بری کر دیا۔
یشونت شندے کے سنسنی خیز انکشاف کے بعد اس کیس میں نیا موڑ آیا۔ آر ایس ایس کے سابق مبلغ یشونت شندے نے ناندیڑ عدالت میں حلف نامہ داخل کیا کہ وہ ناندیڑ دھماکے کے تمام ملزمین کو ذاتی طور پر جانتا ہے کیونکہ وہ اس وقت آر ایس ایس کے لیے کام کرتا تھا۔چند وجوہات کی بنیاد پر سنگھ پریوار سے اس نے اپنا تعلق منقطع کر لیا تھا اور ساری حقیقت سامنے لانے کی نیت سے عدالت میں پیش ہوا۔ اس نے کہا کہ وہ جانتا ہے کہ سنگھ پریوار کس طرح ملک میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گرد سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ اگر اسے گواہی کی اجازت دی جائے تو وہ ساری حقیقت عوام کے سامنے رکھ سکتا ہے۔اس کے بعد ناندیڑ بم دھماکہ میں ماسٹر کی حیثیت سے پروفیسر روی دیو اور ملند پراندے نے کردار ادا کیا ہے جو کہ آر ایس ایس کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان دونوں کو بچانے کے لیے ہی ناندیڑ بم دھماکہ کے ملزمین کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کسی بھی معاملے میں جانچ ایجنسیوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اگر کوئی گواہی کے لیے آگے آ رہا ہے تو اس کو موقع دیا جاتا ہے اور اس کی بات سنی جاتی ہے لیکن ناندیڑ بم دھماکہ معاملے میں سی بی آئی نے یشونت شندے کو گواہی کا موقع دینے کے بجائے اس کی مخالفت کی اور عدالت سے کہا کہ پندرہ سال بعد اس طرح سے گواہی دینے کے لیے آگے آنا صحیح نہیں ہے اس کی وجہ سے سی بی آئی کی جانب سے اب تک کی گئی تفتیش متاثر ہوگی اس لیے گواہی کے لیے تاخیر کا بہانہ بنا کر اس کی درخواست مسترد کر دی۔ سی بی آئی کا یہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ملزمین کو سزا دلانے کا کوئی ارادہ ہی نہیں رکھتی تھی اگر وہ ملزمین کو سزا دلانے میں دلچسپی رکھتی تو یشونت شندے کی گواہی کی کبھی مخالفت نہیں کرتی کیونکہ یشونت شندے کی گواہی کی مخالفت اگر ملزمین کے وکیلوں کی جانب سے کی جاتی تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے دفاع میں ان لوگوں نے عدالت سے گواہی کی درخواست کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن یہاں تو جانچ ایجنسی ہی خود سرکاری وکیل کے ذریعے یشونت شندے کو گواہی دینے سے روک رہی تھی۔ اگر جانچ ایجنسیوں کا رویہ یہ رہے گا تو ہندوتوا دہشت گردوں کو کیسے سزا ملے گی اور کیسے یہ بات جھوٹ ثابت ہوگی کہ ہندوستان میں ’’بھگوا دہشت گردی‘‘ یا ’’ہندوتوا دہشت گردی ‘‘نام کی کوئی چیز نہیں ہے؟ یشونت شندے نے بھی ہار نہیں مانی بلکہ اس نے ناندیڑ کی عدالت کے فیصلے کو ممبئی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ وہاں بھی اس کی درخوست مسترد ہونے پر اس نے اب سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے کہ اسے سرکاری گواہ (Approver) بنایا جائے، اور معاملہ اب بھی عدالت میں زیر غور ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت اس معاملے میں کیا فیصلہ دیتی ہے۔ حالانکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کا ہی ایک فیصلہ ہے جس میں اگر کوئی گواہ طویل عرصے کے بعد بھی سامنے آئے تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی۔ اگر سپریم کورٹ میں یشونت شندے کی درخواست قبول ہوتی تو ناندیڑ بم دھماکہ معاملہ کا رخ بدل سکتا ہے اور حقیقت سامنے لا کر مجرمین کو سزا دلائی جا سکتی ہے۔
ناندیڑ بم دھماکہ: ’’ہندوتوا دہشت گردی‘‘ کی سب سے مضبوط مثال
ناندیڑ بم دھماکہ ایک accidental exposure تھا – یعنی ایک ایسا حادثہ جس نے پردے کے پیچھے چھپے ایک پورے نیٹ ورک کو بے نقاب کر دیا۔ زندہ بم، ہدف بنائے گئے اسلامی مقامات، جعلی بھیس، سازش کے خاکے اور پھر جانب دارانہ تفتیش… یہ سب صرف ایک دھماکہ کی کہانی نہیں بلکہ ہندوستان کے سیکولر آئین کے خلاف کی جانے والی ایک منظم سازش کا حصہ تھے۔ دیگر کیسز: جالنہ، پورنا، پربھنی بم دھماکے: ناندیڑ بم دھماکہ میں ملوث ملزمان ناندیڑ سے قریب کے دیگر اضلاع میں اس سے پہلے ہونے والے تین دھماکوں میں بھی ملوث تھے۔ یہ دھماکہ کے تھے مسجد محمد پربھنی نومبر 2003، مسجد قادریہ جالنہ اگست 2004 اور مسجد معراج العلوم مدرسہ پورنا اگست 2004۔ ان دھماکوں میں بھی انہی ملزمین کا ہاتھ تھا۔ ابتدائی تفتیش میں ہندوتوا تنظیموں کے افراد کے نام آئے لیکن پھر بھی جانچ ایجنسیوں نے سست روی سے کام لیتے ہوئے مقدمات کو کمزور کیا اور ملزمین کو مقامی عدالتوں سے بری کرایا گیا۔ ناندیڑ بم دھماکہ کے بعد پورنا، پربھنی، جالنہ اور مالیگاؤں سمیت ملک بھر کے بم دھماکوں کی کڑی سے کڑی جڑنے لگی تھی اور اس میں بھگوا تنظیموں کے افراد کے ملوث ہونے کی بات سامنے آئی تھی۔اس معاملے میں راکیش دھاوڑے کی بھی گرفتار عمل میں لائی گئی۔ جانچ ایجنسیوں نے پورنا، پربھنی اور جالنہ دھماکوں کی اگر صحیح رخ پر تفتیش کی ہوتی اور ملزمین کے خلاف عدالت میں ٹھوس ثبوت پیش کیے ہوتے تو انہیں سزا دلائی جا سکتی تھی لیکن انہوں نے جانب دارانہ انداز میں تفتیش کی اور ملزمین کو باعزت بری ہونے کا موقع دیا جس کی وجہ سے وہ عدالت میں باعزت بری ہوئے۔
امیت شاہ کے بیان کی حقیقت!
اب سوال یہ ہے کہ جب بار بار ہندوتوا سے وابستہ افراد کے خلاف بم دھماکوں کے ٹھوس شواہد سامنے آتے ہیں، جب تفتیشی افسران جیسے ہیمنت کرکرے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ثبوت جمع کرتے ہیں، جب زندہ بم اور سرکاری گواہ موجود ہوتے ہیں پھر بھی مجرمین بری ہوتے ہیں تو کیا یہ سب محض اتفاق ہے؟ امیت شاہ کا یہ بیان کہ ’’بھگوا دہشت گردی ایک جھوٹ ہے‘‘ حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسر اقتدار نظریاتی نظام کی سرپرستی میں ایک سنگین حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ملک میں قانون کی حکم رانی اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب ہر قسم کی دہشت گردی کو، چاہے وہ کسی مذہب یا نظریے سے منسلک ہو یکساں نظر سے دیکھا جائے۔ ایک طرف مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد الزامات لگا کر سخت کارروائی کی جاتی ہے تو دوسری طرف ٹھوس شواہد کے باوجود ہندوتوا تنظیموں سے وابستہ افراد کو عدالتوں سے کلین چٹ دے دی جاتی ہے۔ اگر ملک کو واقعی دہشت گردی سے پاک کرنا ہے تو انصاف کا ترازو برابر رکھنا ہوگا۔ امیت شاہ جیسے با اختیار وزیروں کو زمینی سچائی کا ادراک کرتے ہوئے حقیقت پسندی سے بات کرنی چاہیے، نہ کہ سیاسی بیانات کے ذریعے حقائق کو دبانے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اور جب وزیر داخلہ امیت شاہ یہ کہتے ہیں کہ ’’بھگوا دہشت گردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے‘‘ تو یہ ان سب شواہد اور سچائیوں کی توہین ہے جو ہیمنت کرکرے جیسے ایمان دار افسروں نے اپنی جان کی قیمت پر جمع کیں اور یشونت شندے جیسے با ضمیر لوگوں نے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے سامنے لائیں۔
***
ناندیڑ بم دھماکہ کیس میں اس وقت نیا موڑ آیا جب آر ایس ایس کے سابق کارکن اور مبلغ یشونت شندے نے عدالت میں حلف نامہ داخل کر کے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس کیس کے تمام ملزمین کو ذاتی طور پر جانتا ہے اور سنگھ پریوار کے دہشت گرد منصوبوں کا عینی شاہد ہے۔ اس نے خود عدالت سے درخواست کی کہ اسے سرکاری گواہ (Approver) بنایا جائے تاکہ وہ پوری سازش اور منصوبہ بندی کی حقیقت سامنے لا سکے۔ مگر حیرت انگیز طور پر ملزمین کے وکلاء کے بجائے خود سی بی آئی نے اس کی مخالفت کی۔ اگر یشونت شندے کی گواہی کو موقع دیا جاتا تو کیس کا رخ بدل سکتا تھا اور دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کو بے نقاب کر کے انصاف دلایا جا سکتا تھا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 جولائی تا 16 اگست 2025