ہندتوا اور نیو لبرل سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا گٹھ جوڑ معیشت کے لیے تباہ کن

احتساب کی کمی۔ ملک میں عدم مساوات کا راج۔ نوکریاں ختم ہو رہی ہیں

نوراللہ جاوید، کولکاتا

دیہی علاقوں میں بے روزگاری کے مہیب سایے۔کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کا تحفظ حکومت کی ترجیح!
اپنی دوسری مدت حکومت کے پارلیمنٹ کے آخری سیشن میں وزیر اعظم مودی نے بااعتماد لہجے میں دعویٰ کیا تھا کہ بھارت جلد ہی دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ بڑی اکثریت کے ساتھ تیسری مدت کے لیے حکومت میں واپس آئیں گے اور بھارت کو ایک مضبوط معیشت بنانے کے لیے بڑے فیصلے کریں گے۔
انتخابی مہم کے دوران انہوں نے یہ باور کرانے کی بار بار کوشش کی کہ انتخابی مہم محض ایک رسم رہ گئی ہے، کیونکہ نہ صرف ان کی واپسی طے ہے بلکہ پہلے سے زیادہ سیٹوں اور مضبوطی کے ساتھ اقتدار میں آئیں گے۔ علاوہ ازیں، انتخابی مہم کے دوران اپنے میڈیا دوستوں کے ذریعے بار بار یہ تاثر دیتے رہے کہ تیسری مدت کے پہلے سو دنوں کے لیے انہوں نے ایکشن پلان تیار کیا ہے۔
17 مارچ کو مودی حکومت کے تیسری مدت کے پہلے سو دن مکمل ہوگئے۔ مگر ان سو دنوں میں مودی حکومت نہ تو کوئی ایکشن میں نظر آئی اور نہ ہی کوئی بڑے فیصلے کرتی ہوئی دکھائی دی۔ بلکہ جو فیصلے کیے گئے ان میں انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ‘براڈکاسٹ بل’، ‘جائیداد کے لین دین پر انڈیکسیشن فائدے کا خاتمہ’، ‘سرکاری عہدوں کے لیے لیٹرل ہائرنگ’ اور وقف ترمیمی بل وہ بلس ہیں جہاں مودی حکومت کو قدم پیچھے ہٹانا پڑا۔
متنوع جمہوریت میں مذاکرات، سمجھوتہ اور اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش، غور و فکر، مشاورت اور اسٹیک ہولڈروں کی شراکت لازمی اصول ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا مودی نے جمہوری اصولوں کی پاس داری کے خاطر مذکورہ بالا فیصلوں کو واپس لیا ہے یا پھر سیاسی اور اتحادی حکومت کی مجبوری کی خاطر؟
دراصل مودی حکومت گزشتہ دس برسوں میں جو بلاشرکت غیر اکثریت کے ساتھ اقتدار میں تھی، مذاکرات، سمجھوتہ اور اتفاق رائے کو خاطر میں نہیں لائی بلکہ عددی قوت کے ذریعے جمہوریت کو کچل دیا۔ اپوزیشن کے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان کے دور میں پرسنل لا جیسے محض عائلی قوانین میں بھی اسٹیک ہولڈروں کی تشویش اور خدشات پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ غیر جمہوری اقدامات کو مودی کی طاقت کے طور پر پیش کیا گیا، لہٰذا گزشتہ دس سالوں میں مودی ایک ایسے رہنما بن کر ابھرے جنہیں کوئی بھی چیلنج نہیں کرسکتا تھا۔
لیکن 4 جون کو پارلیمانی انتخابات کے نتائج نے تمام تصورات، دعوے اور غیر متزلزل اعتماد کو مکمل طور پر زمین بوس کر دیا۔ 74 سالہ نریندر مودی اب وہ لیڈر نہیں رہے جنہیں کوئی چیلنج نہیں کر سکتا اور نہ کوئی شکست دے سکتا ہے۔ اگرچہ مودی تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے مگر وہ اپنا وقار کھو چکے ہیں۔
امید تھی کہ بی جے پی اور مودی احتسابی عمل سے گزریں گے اور گزشتہ دس سالوں کی کوتاہیوں کا تدارک کریں گے۔ مگر طویل مدت تک اقتدار میں رہنے کی وجہ سے دائیں بازو کی جماعتیں، بی جے پی اور مودی احتسابی عمل سے گزرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ چناں چہ 4 جون کے نتائج آنے کے بعد بیشتر تجزیہ نگاروں نے امید ظاہر کی تھی کہ نفرت اور اقلیت دشمن اور غریب مخالف اقدامات کا سلسلہ رک جائے گا جبکہ مودی کے فیصلوں میں مشاورت، شراکت اور شمولیت کا اظہار ہوگا۔
گزشتہ سو دنوں میں ایک بار پھر ملک نفرت انگیزی کی راہ پر گامزن نظر آتا ہے۔ شدت کے ساتھ دائیں بازو کی جماعتیں خاص طور پر بی جے پی کے رہنما مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور مودی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مشہور کالم نویس اور دانش ور پرتاپ بھانو مہتا کا کہنا ہے کہ "وزیر اعظم مکمل طور پر فنکشنل ہونے کا احساس دے رہے ہیں، اپنی شکست کی وجوہات کی تشخیص کرنے سے قاصر ہیں اور ایک نیا راستہ ترتیب دینے سے بھی قاصر ہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بیک فٹ پر ہیں، صرف اس لیے نہیں کہ اپوزیشن مضبوط ہے بلکہ اس لیے بھی کہ ان میں پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔
لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے ایودھیا کی سیاسی افادیت ختم کر دی ہے۔ نریندر مودی جو خود کو ترقیاتی اور فلاحی کاموں کا ایک اہم چہرہ پیش کرتے ہیں، ان کے لیے خوش کن نعرے اور اعلانات تو ہیں مگر وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ بی جے پی کی بنیادی حمایت جارحانہ ہندتوا پالیسی کی وجہ سے ہے۔ اس کے بغیر بھارت کی سیاست میں اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہے۔
اسی لیے بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات میں جھٹکے کے تدارک کے لیے ہندتوا کے اپنے بنیادی ایجنڈے کی رفتار بڑھانے کے لیے کاشی اور متھرا کی طرف رخ کرتے ہوئے ملک بھر میں اقلیتوں کے مذہبی مقامات، بالخصوص مساجد کو متنازع بنانے اور ان کے خلاف محاذ آرائی کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اسی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
اس وقت پوری توجہ ہندتوا قوم پرست ایجنڈے کو بڑھانے پر مرکوز ہے۔ یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے بڑا چیلنج ہے اور یہ چیلنج اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب کہ بیگانگی اور عدم تحفظ کے احساسات پہلے ہی گہرے ہیں۔ لیکن یہ حالات صرف ملک کی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے خطرناک نہیں ہیں بلکہ ملک کی معیشت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔ چناں چہ ترقی کے تمام تر دعووں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے اور معاشی عدم مساوات خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ مگر ان ناکامیوں کو جارحانہ ہندتوا کی آڑ میں غیر اہم بنا دیا گیا ہے۔
ہندتوا کی اصطلاح کا استعمال سب سے پہلے ہندو نظریات کے ماہر وی ڈی ساورکر نے 1920 کی دہائی میں کیا تھا۔ لیکن 1980 کی دہائی کے آخری مرحلے میں بی جے پی نے جوش و خروش کے ساتھ اسے اپنا لیا اور پھر اس اصطلاح کو عوامی پذیرائی ملی۔ اگرچہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہندتوا کے نظریے میں ملک کے تمام طبقات کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت ہے مگر بنیادی طور پر یہ نظریہ مسلمانوں کو ملک سے باہر کرنے میں یقین رکھتا ہے۔ ہندوؤں کو مراعات دیتا ہے اور ہندو تسلط کا ہدف رکھتا ہے (یہ ہندو مت کے ایک خاص طبقے پر مبنی ہے جو اس مذہب کے اندر بھی عقائد کی وسیع تکثیریت کو تسلیم نہیں کرتا)۔
ہندتوا کے حامی سیاسی طور پر ’ہندتوا راشٹر‘ کے قیام کا عزم رکھتے ہیں، ایک ایسی ریاست جہاں ہندوؤں کی حکومت ہو، دوسری مذاہب کے ماننے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور انہیں شہری کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ انہیں ہندو راشٹر میں رہنے کے لیے ہندتوا کی بالادستی کو قبول کرنا ہوگا اور اپنی تہذیب و ثقافت کو ترک کرکے ہندتوا کی ثقافت میں ضم ہونا ہوگا۔ یہ ایک ایسا وژن ہے جو جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ سے تشدد کی مختلف شکلیں سامنے آ رہی ہیں، مجرموں کو استثنیٰ حاصل ہے اور ’’دوسروں‘‘ کے طور پر سمجھے جانے والوں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔
جتنے بھی نظریاتی و فکری ادارے ہیں، ان کے اپنے معاشی تصورات ہوتے ہیں، کیونکہ معاشیات زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگر کسی فکری ادارے کے پاس معاشی تصور نہیں ہے تو وہ عام لوگوں سے خود کو جوڑ نہیں پائے گا۔ چناں چہ اسلام جب اپنے پیروکاروں سے مکمل طور پر داخل ہونے کا مطالبہ کرتا ہے تو زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح معاشیات میں بھی وہ بھرپور رہنمائی کرتا ہے۔ جب کہ اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام میں معیشت ہی اصل بنیاد ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہندتوا میں معاشیات جیسی کوئی چیز ہے؟ ہندتوا کے اصل وکیل ساورکر کی تحریروں میں کوئی بھی واضح معاشی وژن یا ماڈل نہیں ملتا۔ سنگھ پریوار کا ’سودیشی جاگرن منچ‘ کے نام سے ایک ادارہ ہے جو معاشی اصلاحات کا دم بھرنے کا دعویٰ کرتا ہے مگر اس کا معاشی تصور جارحانہ قوم پرستی سے وابستہ ہے۔ ہندتوا کے سماجی و ثقافتی ایجنڈے معیشت کو منفی انداز میں متاثر کرتے ہیں۔ اس منچ کے ذریعے نوآبادیاتی معاشی نظام کے مقابلے سودیشی کی پرزور وکالت کی جاتی ہے۔
چناں چہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں عالمی سطح پر نیو لبرل سرمایہ دارانہ نظام ابھر کر سامنے آیا۔ نیو لبرل سرمایہ دارانہ نظام بازار اور سرمائے کی حکم رانی کو کسی بھی سماجی اصول سے اوپر رکھتا ہے، جس سے لوگوں کو دوسرے معیارات کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے۔ 90 کی دہائی میں ہی بھارت میں معاشی اصلاحات کے نام پر نیو لبرل سرمایہ دارانہ نظام کو متعارف کرایا گیا، تو اس وقت ہندتوا حامیوں، بالخصوص سودیشی جاگرن منچ نے اس کی شدید مخالفت کی۔ مگر پہلی مرتبہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی اقتدار میں آئی تو اس نظام کو اپنایا۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی قیادت والی حکومت غیر معذرت انداز میں ہندو اکثریت اور ہندو قوم پرست کا دعویٰ کرتی ہے۔ سودیشی کے پرچم بردار ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی نیو لبرل عالمگیریت کو گلے لگانے میں مصروف ہیں۔ سودیشی جاگرن منچ جیسے ادارے اس پر آواز بلند کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ ہندتوا نظریے کے فکر و عمل کا تضاد ہے۔ دعویٰ کچھ اور ہے اور عمل کچھ اور۔
یہ قابل غور بات ہے کہ ہندتوا کے نظریہ ساز شاذ و نادر دولت کی مساویانہ تقسیم، معاشی عدم مساوات کے خاتمے، سماجی انصاف، اور غریبوں کی فلاح و بہبود جیسے ایشوز پر بات کرتے ہیں۔ بلکہ ان ایشوز کو ہندو قوم پرستی اور قومی فخر کے احساسات کے تلے دبانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ اسی قومی فخر کے احساس کو زندہ رکھنے کے لیے وزیر اعظم مودی نے 2025 تک $5 ٹریلین جی ڈی پی تک پہنچنے کے ہدف کا اعلان کیا۔ بھارت کی معیشت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ موجودہ معاشی رفتار میں اس طرح کے اہداف کسی بھی صورت میں قابل حصول نہیں ہیں۔
اس کے باوجود، ہندتوا کی پالیسیوں کے تناظر میں یہ بات واضح ہے کہ معاشی مسائل ایک غیر اہم موضوع کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ دیگر اہم مسائل سے ہٹائی جا سکے۔ اس طرح ہندتوا کے حامی اپنی سیاسی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے معاشی انصاف، خود مختاری اور سماجی مساوات جیسے بنیادی مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں جس سے نہ صرف معاشرتی تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ملک کی معیشت بھی متاثر ہوتی ہے۔
"نو لبرل معاشیات” عام طور پر لبرلائزیشن، پرائیویٹائزیشن اور منڈیوں کی ڈی ریگولیشن پر مبنی معاشی پالیسیوں کے تحت کام کرتی ہے مگر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ ریاست اپنے اختیارات سے دست بردار ہو جاتی ہے۔ بلکہ نولبرل معیشت میں ریاست مختلف مواقع پر بڑے سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایک طرف آزاد مارکیٹ کے حامی ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف بڑے سرمایہ داروں کے مفادات کے لیے حکومتی مداخلت میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جاتی۔ یہی صورت حال بھارت کی حکومتوں میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
2019 میں مودی حکومت نے روزگار میں اضافہ اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں کٹوتی کا اعلان کیا۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو سالانہ 145,000 کروڑ روپے کے نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ حکومت کی دلیل تھی کہ ٹیکس میں کٹوتی سے کارپوریٹ گھرانوں کو بچت ہوگی، نجی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا اور ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ لیکن اس کٹوتی سے کارپوریٹ گھرانوں کو 8.7 لاکھ کروڑ روپے کا اضافی فائدہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں کتنی نوکریاں پیدا ہوئیں۔
یہاں سوال اخلاقیات کا بھی ہے کہ جی ایس ٹی وصول یابی میں کسان، غریب طبقہ، نوجوان، متوسط طبقے اور ایمان دار ٹیکس دہندگان کی حصہ داری سب سے زیادہ ہے، مگر اسی طبقے کو بنیادی حقوق حاصل کرنے میں جدوجہد اور کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی کا سامنا ہے۔ ذاتی انکم ٹیکس کی وصولی کارپوریٹ ٹیکس کی وصولی سے زیادہ ہے۔ یہاں بھی یہی سوال یہ ہے کہ اس طبقے کے لیے مرکزی حکومت کیا کر رہی ہے؟ ایک طرف دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حکومت غربت کے خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے، جبکہ دوسری طرف 810 ملین افراد کو پانچ سال کے لیے پانچ کلو گرام مفت اناج فراہم کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال مودی حکومت کے اندرونی تضاد کی عکاسی کرتی ہے۔
معاشی اعتبار سے مودی حکومت کی ناکامی کی فہرست کافی طویل ہے۔ ’’میک ان انڈیا‘‘ کی ناکامی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ 2014 میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد چین میں تیار کردہ شیر کے مجسمے کی نمائش کی گئی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ بھارت مینوفیکچرنگ میں چین سے آگے نکل جائے گا اور ملک کی جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کی حصہ داری 25 فیصد تک بڑھانا اولین ہدف ہے۔ مگر دس سالہ حکومت کے بعد بھی مینوفیکچرنگ کی حصہ داری جمود کا شکار ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ معیشت کی ضروری ہوتا ہے کہ زراعت کی حصہ داری کم ہو اور صنعت اور مینوفیکچرنگ کی حصہ داری زیادہ ہو کیوں کہ صنعت اور مینوفیکچرنگ ہی بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد ابتدائی دہائیوں کے بعد ہندوستان عام طور پر اپنے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بڑھانے میں زیادہ کامیاب نہیں رہا ہے۔ جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ 1950 کی دہائی میں تقریباً 8-9 فیصد سے بڑھ کر 1980 کی دہائی میں تقریباً 14-16 فیصد ہو گیا۔ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ 1991 میں متعارف کرائی گئی اصلاحات کی وجہ سے مینوفیکچرنگ میں بڑے پیمانے پر توسیع کا باعث بنیں گی مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ اگرچہ 2000 کی دہائی میں کچھ تبدیلی آئی تھی جب حصہ تقریباً 16-17 تک چلا گیا تھا، لیکن کوویڈ کے سالوں میں کمی کے ساتھ یہ کم و بیش جمود کا شکار ہے۔ روزگار میں حصہ 11-12کے قریب بھی کم ہے۔ حکومتوں نے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مختلف پالیسیاں آزمائی ہیں لیکن زیادہ تر ناکام اور ٹکڑے ٹکڑے ہی رہی ہیں۔
چناں چہ اقتصادی ترقی کے دعووں کے باوجود بھارت کی تقریباً نصف آبادی اب بھی نسبتاً زرعی شعبے میں ملازمت کرتی ہے۔ آکسفورڈ اکنامکس کے مطابق 2018-2019 میں بے روزگاروں کی شرح 42.5 فیصد سے بڑھ کر 2022-23 میں 45.8 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ بے روزگاری کا بھوت کس قدر بھیانک ہو چکا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہریانہ میں جھاڑو دینے کی پوسٹ کے لیے 6000 پوسٹ گریجویٹ، تقریباً 40,000 گریجویٹ اور 12ویں پاس 2.1 لاکھ امیدواروں نے درخواست دی ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے ہمارے نوجوان روس اور اسرائیل جیسے جنگ زدہ ملک کا رخ کر رہے ہیں، جہاں ان کی زندگی کا کوئی بھروسا نہیں ہے۔
لوک سبھا انتخابات کے دوران ایک نیوز چینل کو انٹرویو کے دوران ایک صحافی نے وزیر اعظم مودی کی توجہ بھارت میں معاشی عدم مساوات کی طرف مبذول کرائی گئی تو انہوں نے بے ساختہ کہہ دیا کہ کیا سبھوں کو غریب بنا دیں؟ ظاہر ہے کہ یہ مودی کی سرمایہ دارانہ ذہنیت اور سوچ کا مظہر ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں عدم مساوات خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ عالمی عدم مساوات لیب کے مطابق بھارت میں آمدنی کی عدم مساوات برطانوی دور حکومت سے بھی بدتر ہے۔ 5 سال سے کم عمر کے 30 فیصد سے زائد بچوں کی نشوونما غذائی قلت کی وجہ سے نامکمل رہ گئی ہے۔ انڈیا ریٹنگز کے مطابق تقریباً 16 ملین افراد ملازمتوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ عالمی عدم مساوات ڈیٹا بیس (WID) کی رپورٹ کے مطابق 2022-23 تک آمدنی اور دولت میں نمایاں فرق ہوگیا ہے۔ ایک فیصد افراد کے پاس بھارت کی دولت سب سے زیادہ ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ جنوبی افریقہ، برازیل اور امریکہ سے بھی زیادہ ہے۔ حالیہ اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر کے منافع میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے، یہ اس وقت ہوا جب بھارت کے بیشتر افراد کی معیشت کو شدید دھچکا لگ رہا تھا۔
مودی حکومت کی معاشی پالیسی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس نے شماریاتی نظام کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا ہے۔ جب کہ شماریاتی نظام کسی بھی ملک کی معیشت کو جانچنے اور پرکھنے اور لائحہ عمل مرتب کرنے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ شماریات کے ذریعے حکومت کو جواب دہ بنایا جا سکتا ہے۔ قومی شماریاتی کمیشن جو آزاد ادارے کے طور پر کام کرتا تھا مگر اب وہ سیاسی آقاؤں کے تابع ہو چکا ہے۔ سنٹرل اسٹیٹسٹیکل آرگنائزیشن، جو ڈیٹا اکٹھا کرنے اور تجزیہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا تھا، اس ادارے کو پیشہ ور ماہرین معاشیات اور شماریات دان چلاتے ہیں، لیکن اب سرکاری اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کرنے کی سیاسی کوششوں کی وجہ سے اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ مودی حکومت نے پچھلی حکومت سے بہتر پیش کرنے کے لیے جی ڈی پی کی پیمائش کے معیار کو تبدیل کر دیا ہے۔ مودی حکومت کے اپنے سابق چیف اکنامک ایڈوائزر اروند سبرامنیم نے پینل ریگریشنز کا استعمال کرتے ہوئے الگ الگ ڈیٹا کی بنیاد پر تخمینہ لگایا جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ طریقہ کار میں تبدیلی نے جی ڈی پی کی نمو کو نمایاں حد سے زیادہ بڑھایا ہے۔ نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او) جو سنٹرل اسٹیٹسٹیکل آفس کے اندر ایک ادارہ ہے جو بڑے پیمانے پر سروے کرتا ہے، کے اعداد و شمار چھ دہائیوں سے زائد عرصے سے ہندوستان کے روزگار، غربت اور معیار زندگی کے تخمینوں میں ریڑھ کی ہڈی کی بنیاد تھے۔ انہیں ختم کر دیا گیا۔
سوال صرف نیو لبرل سرمایہ دارانہ معاشی نظام اور ہندتوا کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ہونے والی تباہی اور بربادی کا نہیں ہے، بلکہ جارحانہ ہندتوا براہ راست ملک کی معیشت پر تباہ کن اثرات ڈال رہی ہے۔ حال ہی میں وزیر اعظم مودی نے گائے کے ایک بچھڑے کو چومتے ہوئے تصویر پوسٹ کرتے ہوئے گائے کے مقدس ہونے کے نظریے کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی مگر گائے کے مقدس ہونے کے نظریے نے کتنے لوگوں کی جانیں لی ہیں اس کو انہوں نے فراموش کردیا۔ اسی گائے کے نام پر گو رکھشک کے نام پر غنڈوں کی ایک فوج کھڑی کر دی گئی اور یہ غنڈے معاشی تباہی میں اپنا بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان غنڈوں نے نہ صرف مویشیوں کے تاجروں (جن میں اکثر مسلمان یا پس ماندہ ذات سے تعلق رکھتے ہیں) کی روزی روٹی (اور بعض صورتوں میں زندگیوں) پر حملہ کیا ہے، بلکہ اس نے ملک میں پھلتی پھولتی بیف ایکسپورٹ انڈسٹری اور چمڑے کی صنعت کو بھی تباہ کر دیا، جس سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا تھا۔ دودھ دینے کے لیے کارآمد نہ ہونے کے بعد گائے کو غیر اقتصادی بنا دیا گیا جس کی وجہ سے کسان صرف اپنے طور پر چارے کے لیے گایوں کو چھوڑ رہے ہیں۔ لاوارث مویشی خود کاشتکاری کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ ریاستی حکومتیں گئو شالہ کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں، لیکن یہی گئو شالے بدعنوانی اور کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ان گئو شالوں میں گایوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ قومی فخر کے نام پر تعلیمی نظام اور صحت کے نظام دونوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ قومی فخر کے نام پر قدیم بھارت میں سائنسی علم کے دعووں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ گائے کے پیشاب کو تمام بیماریوں کا علاج بتا کر کورونا جیسے عالمی وبا میں پوری دنیا میں مذاق کا موضوع بنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ، ہندتوا کی سرگرمیوں کی وجہ سے ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات نے بھی بھارت کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ نفرت انگیز حالات میں دنیا کی کوئی معیشت ترقی نہیں کرتی ہے۔ معاشی ترقی کے لیے امن و امان ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت سے ہر سال ہزاروں افراد نقل مکانی کر رہے ہیں، بالخصوص کروڑ پتی ملک چھوڑ رہے ہیں۔ سماجی و معاشرتی عدم تحفظ کے احساسات اور خوف و اندیشے کے سائے میں نیو لبرل ازم اچھی طرح سے کام کرتا ہے۔ دولت کی لوٹ مار آسانی سے کی جاتی ہے اور چونکہ سماج و معاشرہ عدم تحفظ کے شکار ہیں اس لیے آسانی سے معاشیات کے سوال کو جذباتی باتوں سے موڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ اس کے خلاف احتجاج کرنے کی جرأت کرتے ہیں انہیں آسانی سے دہشت گرد اور ملک دشمن کا لیبل لگایا جا سکتا ہے اور مختلف قوانین کے تحت بند کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ میڈیا پر کارپوریٹ گھرانوں کا قبضہ ہو چکا ہے، اس لیے معاشی تباہی اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی خبریں عوام کی نگاہوں سے اوجھل ہو چکی ہیں اور ملک تباہی کے دلدل میں پھنستا جا رہا ہے۔

 

***

 مودی حکومت کی معاشی پالیسی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس نے شماریاتی نظام کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا ہے۔ جب کہ شماریاتی نظام کسی بھی ملک کی معیشت کو جانچنے اور پرکھنے اور لائحہ عمل مرتب کرنے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ شماریات کے ذریعے حکومت کو جواب دہ بنایا جا سکتا ہے۔ قومی شماریاتی کمیشن جو آزاد ادارے کے طور پر کام کرتا تھا مگر اب وہ سیاسی آقاؤں کے تابع ہو چکا ہے۔ سنٹرل اسٹیٹسٹیکل آرگنائزیشن جو ڈیٹا اکٹھا کرنے اور تجزیہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا تھا، اس ادارے کو پیشہ ور ماہرین معاشیات اور شماریات داں چلاتے ہیں، لیکن اب سرکاری اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کرنے کی سیاسی کوششوں کی وجہ سے اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024