ہندتوا نوازوں کی نفرت کا جواب محبت اور انسانیت نوازی سے۔۔۔

مہاکمبھ میں بھگدڑ: مسلمانوں کی جانب سے ہندوعقیدت مندوں کا ہر ممکن تعاون

0

شہاب فضل، لکھنؤ

اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ؛ ہندوؤں کے لیے ٹھیرنے، کھانے پینے اور اشیائے ضروریہ کا بہترین بندوبست
تیرتھ استھان کا سیاسی استعمال، ہندو راشٹر کے نام نہاد آئین کا شوشہ ۔زہریلی اور نفرت انگیز تقریروں پرعدلیہ کی خاموشی، چہ معنی دارد؟
سنگم کے شہر پریاگ راج میں جاری مہاکمبھ میں مونی اماوسیہ کے موقع پر ہندو عقیدت مندوں کی زبردست بھیڑ اور بھگدڑ کے بعد شہر کی سڑکیں اور گلیاں عقیدت مندوں سے بھر گئی تھیں اور لوگ پریشان تھے۔ اس سے پہلے کے دنوں میں مسلمانوں کو انتباہ دیا گیا تھا کہ وہ کمبھ سے دور رہیں۔ بہرحال بحران کے وقت میں مسلمانوں نے ہندو عقیدت مندوں کی بھرپور مدد کی، ان کے لیے مسجدوں، مذہبی مقامات اور اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے اور ان کے ٹھیرنے، کھانے پینے اور اشیائے ضروریہ کا بندوبست کیا جس کی ہر طرف ستائش کی جارہی ہے۔
مونی اماوسیہ پر ۲۸ اور ۲۹ جنوری کی درمیانی شب میں سنگم پرآستھا کی ڈبکی لگانے والوں سے پورا پریاگ راج بھرا تھا۔ اس وقت مہاکمبھ میں بھگدڑ سے شہر میں آنے جانے والوں کی بھیڑ بڑھ گئی۔ ایسی حالت میں مسلمانوں نے فراخ دلی اور بھائی چارے کا ثبوت دیا۔
مسلمانوں نے ہندتوا نواز سیاست دانوں کے نفرت انگیز بیانات اور کمبھ میں ان کے داخلے پر پابندی اور کاروبار کے مواقع سے دور رکھنے کے اعلانات کے بعد بھی اپنا دل کشادہ رکھا اور انسانیت نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندو عقیدتمندوں کے لیے کھانے پینے اور ٹھیرنے کا بندوبست کیا۔ سوشل میڈیا اور کچھ چینلوں پر ایسے ویڈیو اور خبریں نشر کی گئی ہیں جو مسلمانوں کی مدد اور ان کی انسانیت نوازی کو نمایاں کرتی ہیں۔ مہاکمبھ سے مسلمانوں کو علانیہ طور پر دور رکھے جانے اور ان کے لیے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سمیت دیگر افراد کی جانب سے ناپسندیدہ باتیں کہی جانے کے باوجود پریاگ راج کے مسلمانوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا اور مہاکمبھ میلہ علاقہ سے تقریباً دس کلومیٹر دور خلدآباد، سبزی منڈی مسجد، بڑا تعزیہ امام باڑہ، ہمت گنج درگاہ اور چوک مسجد میں لوگوں کے ٹھیرنے کا انتظام کیا۔ مسلمانوں نے مہاکمبھ جانے والوں یا وہاں سے واپس آنے والوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کیا۔ نخاس کہنہ، روشن باغ، رانی منڈی اور شاہ گنج جیسے مسلم علاقوں میں لوگوں نے ہندو عقیدت مندوں کو اپنے گھروں میں ٹھیرایا۔
بھگدڑ کے بعد ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے لوگوں کو اسٹیشن جانے سے روک دیا گیا تھا۔ شہر کے جانسن گنج چوراہے پر لوگ رکے ہوئے تھے، چنانچہ لوگ سڑکوں اور چوراہوں پر ڈیرہ ڈالنے پر مجبور ہوئے۔ ایسے وقت میں مسلمانوں نے ان کی مدد کی۔ جس سے جو بن پڑا اس نے کیا۔ اپنے گھروں میں بھی غسل خانہ اور بیت الخلا تک استعمال کرنے کی اجازت انہیں دی اور آرام کرنے کے لیے کمبل اور رضائی وغیرہ کا بندوبست کیا۔
حکومت کی جانب سے 29 جنوری کو پورے دن بھگدڑ کی خبروں کو چھپانے کی کوشش کی گئی اور دیر شام میں یہ بتایا گیا کہ تیس افراد کی موت ہوئی ہے اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ متعدد افراد ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ انتظامیہ کی توجہ اموات کو چھپانے، ٹی وی سے مناظر کو غائب رکھنے اور میڈیا مینجمنٹ پر تھی۔ صحافیوں کو ہسپتالوں سے دھکیل کر باہر نکالا گیا۔ لوگوں کو فوری راحت نہیں مل سکی اور وہ بے یارو مدگار تھے۔ چنانچہ جو کام کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سرکاری اہلکار نہیں کرپائے وہ پریاگ کے مسلمانوں نے کیا اور پریشاں حال لوگوں کی مدد کی۔
اسی موقع پر جیوتش مٹھ کے شنکراچاریہ اویمکتیشورانند سرسوتی نے اپنے بیان میں کہاکہ اتنا بڑا حادثہ ہوگیا مگر سرکار نے اسے چھپانے کی کوشش کی۔ ان کے بقول حکومت سارا دن اسے چھپائے رہی اور شام کو بتایا کہ اتنے لوگوں کی موت ہوئی۔ شنکراچاریہ کا بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں وہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ پر برملا ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں۔
ٹی وی چینل بھارت سماچار، فور پی ایم، این ڈی ٹی وی، للن ٹاپ اور ٹی وی ۹ بھارت ورش نے پریاگ راج میں مسلمانوں کے ذریعہ ہندو عقیدت مندوں کی مدد پر مبنی خبریں دکھائیں اور انتظامیہ کی لاپروائیوں کو بھی اجاگر کیا۔ سوشل میڈیا پر تو ایسی خبروں کی بھرمار ہے اور مسلمانوں کی مدد کو کافی سراہا بھی گیا ہے۔
نیوز ویب سائٹ انڈیا ٹومورو کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں نے نہ صرف عقیدت مندوں کے لیے لنگر کا اہتمام کیا بلکہ انہیں طبی مدد بھی فراہم کی۔ پریاگ راج کی ایک مقامی معالج ڈاکٹر ناز فاطمہ اپنی کلینک پر عقیدت مندوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کررہی ہیں۔
ہندی اخبار دینک بھاسکر کے مطابق شہر کے دس سے زائد علاقوں میں مسلمانوں نے ہندو عقیدت مندوں کے لیے بھنڈارا لگایا ہے یعنی ان کے لیے مفت کھانے کا بندوبست کیا ہے۔ مسلمانوں نے کہا کہ وہ مذہب اسلام کی تعلیم کے مطابق ضرورتمندوں کی مدد کررہے ہیں۔ انڈیا ٹومارو نے خلدآباد کے ایک باشندے افسر محمود کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ’’پہلے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو مہاکمبھ میں نہیں داخل ہونا چاہیے، لیکن آخرکار میلہ خود مسلم علاقوں میں آگیا‘‘۔ سِول لائنس علاقہ کے محمد اعظم نے کہا ’’رات میں ہری مسجد کے سامنے کھانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اس رات (۲۹ جنوری کی شب) لوگ سردی سے پریشان تھے۔ جتنا ہوسکا کمبل اور رضائی کا بندوبست کیا گیا۔ ہم یہی چاہتے تھے کہ انہیں کوئی پریشانی نہ ہو۔ رات میں ان کے لیے کھانے کا بھی انتظام کیا گیا۔‘‘
مقامی مسلم تنظیموں، سماجی کارکنوں اور عام شہریوں نے اس پہل میں سرگرمی دکھائی جس سے عقیدت مندوں کو راحت ملی۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے تاثرات میں کہا کہ پریاگ راج کے مسلمانوں (اور سکھوں) نے گنگا جمنی تہذیب کی مثال پیش کرتے ہوئے پورے ملک کو صحیح راستہ دکھایا ہے کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں متحد رہنا چاہیے اور ان لوگوں کے ناپاک فرقہ وارانہ پروپیگنڈے سے دور رہنا چاہیے جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
نام نہاد اکھنڈ ہندو راشٹر کا پہلا آئین!
بھگدڑ کے سانحہ سے قبل مہاکمبھ میں منعقدہ دھرم سنسد جس میں ہندتوا نواز سادھو سنت شامل ہوئے ، اس میں نام نہاد اکھنڈ ہندو راشٹر کا پہلا آئین تیار ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔ ملک میں ہندتوا نوازی کی لہر کے دوران بھارت جمہوریہ کے آئین کو کھلے عام چیلنج کرتے ہوئے اب یہ دیدہ دلیری کے ساتھ عوامی سطح پر کہا جارہا ہے کہ بھارت کو اکھنڈ ہندو راشٹر بنانے کے لیے اس کا اپنا مخصوص آئین ہونا چاہیے ۔ ہندی اخبار امر اجالا میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اس آئین کو شمالی اور جنوبی ہند کے ۲۵ ‘ماہرین’ نے تیار کیا ہے اور ہندوؤں کے چاروں پیٹھ کے شنکراچاریہ کی منظوری کے بعد اسے مرکزی حکومت کو بھی بھیجا جائے گا۔ ۵۰۱ صفحات پر مشتمل ہندو راشٹریہ کے آئین کو رام راجیہ، شری کرشن کے راجیہ، منوسمرتی اور چانکیہ کے ارتھ شاستر کو بنیاد بناکر تیار کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اخبار نے سوامی آنند سوروپ مہاراج نامی شخص کے حوالے سے بتایا ہے کہ سال ۲۰۳۵ تک ہندو راشٹر کا اعلان کیے جانے کا ہدف ہے۔
آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سکریٹری شاہنواز عالم نے بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے متبادل آئین پیش کیے جانے کی خبر پر کہا کہ سپریم کورٹ کا اس خبر کا ازخود نوٹس لینا چاہیے ۔ ایسا نہ ہونا افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ یا تو عدلیہ کا ایک حصہ بھارت کے آئین کو بدلنے کی کوششوں کی تائید کرتا ہے یا اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنے میں خود کو نا اہل محسوس کرتا ہے، جب کہ بھارت کے آئین کو بدلنے کی بات کرنا ملک سے بغاوت کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس معاملہ میں ۱۲۴ اے کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے، اس میں تین سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا کی گنجائش ہے۔ لیکن عدلیہ اس پر کوئی کارروائی نہیں کررہی ہے جس سے ایسے لوگوں کے حوصلے بلند ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی حیرت انگیز ہے کہ سرکاری رقم سے مہاکمبھ منعقد ہورہا ہے اور وہاں پر کوئی تنظیم حکومت کو ہی چیلنج کررہی ہے۔ اس پر حکومت کی خاموشی سے ایسا لگتا ہے کہ اس ‘جرم’ میں وہ بھی شامل ہے جو آئین کی بالادستی کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
مہاکمبھ میں ہندتوا نواز سناتن دھرم سنسد میں ایک سناتن بورڈ کے قیام اور وقف بورڈ کے خاتمہ کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ دھرم سنسد میں جگت گرو راگھواچاریہ مہراج اور دیوکی نندن ٹھاکر نے سناتن بورڈ کا خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں ہندو کلچر اور روایت کو کمتر کرنے کے لیے سازشیں کی جارہی ہیں۔ ہندو سماج اب جاگ گیا ہے اور سناتن بورڈ کے قیام کے لیے تحریک چلانے کا وقت آگیا ہے۔ سناتن دھرم سنسد میں مبینہ ‘‘کرشن جنم استھان’’ کا معاملہ بھی چھایا رہا اور اس بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
تیرتھ استھان کا سیاسی استعمال
کمبھ ایک تیرتھ استھان ہے جس کا مقصد ہندو دھرم کے مطابق نیکی کمانا اور اپنے پاپ دھلنا ہے۔ ایسے مقام پر جہاں عوام اپنی آستھا اور عقیدت کے باعث آتے ہیں اس کا استعمال نفرت انگیز ایجنڈے کے لیے کرنا کہاں تک درست ہے؟ سناتن دھرم سنسد کہیں اور بھی کی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کمبھ کے وقت پر ہی یہ دھرم سنسد کرنے، لگاتار جھوٹی باتیں کرنے اور نفرت انگیز تقریروں کے پیچھے سیاسی منشا کارفرما ہے۔ اگر یہ سنت مہنت کوئی سناتن بورڈ بنانا ہی چاہتے ہیں تو کیا حکومت نے انہیں ایسا کرنے سے روک رکھا ہے؟ آخر وہ اپنے عمل میں حکومت کو کیوں شامل کرنا چاہتے ہیں؟
سناتن دھرم سنسد کی تقریروں کو بعض چینلوں پر لائیو دکھایا گیا جس میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا گیا۔ کیا یہ کمبھ کا سیاسی استعمال نہیں ہے؟ پریاگ میں اسنان کرنے کے لیے آنے والے لوگوں کے سامنے مسلم مخالف باتیں کرنے کی اجازت کون سا شاستر دیتا ہے؟ یہ کیسے سنت مہنت ہیں جو ہندو دھرم گرنتھوں کی ہی مخالفت کررہے ہیں؟ کسی طبقہ کے خلاف نفرت انگیز مہم چاہے وہ کمبھ میں ہو یا الیکشن میں ہو یا چاہے وہ عام زندگی میں ہو، قانون کے اعتبار سے قابل مؤاخذہ جرم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومتی ادارے آنکھیں موندے بیٹھے ہیں اور قانون شکنی کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے۔
وی آئی پی سنگم اور صحافیوں پر کنٹرول
مہاکمبھ میں اس دفعہ موٹی رقم کے عوض وی آئی پی سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ سیکٹر ۲۵ میں ٹینٹ سٹی میں ۸۰ فائیو اسٹار ٹینٹ نصب کیے گئے ہیں اور سبھی بُک ہیں۔ فی کس یومیہ بیس ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ روپے یا اس سے زائد میں وی آئی پی کاٹیج، پرائیویٹ کشتی، باتھ ٹب، ہیلی کاپٹر کے سفر سمیت دیگر فائیو اسٹار سہولیات مل رہی ہیں، جہاں بھیڑ بھاڑ اور بدنظمی نہیں ہے۔
دوسری طرف عام عقیدت مندوں کے مہاکمبھ علاقہ میں مچی بھگدڑ کے بعد ہسپتالوں اور پوسٹ مارٹم ہاؤس سے صحافیوں کو دور رکھنے کی پوری کوشش ہورہی ہے۔ ایک طرف وی آئی پی کمبھ، دوسری طرف عوامی کمبھ، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
مہاکمبھ میں کارپوریٹ مارکیٹنگ اور اندھی مذہبی منافرت کا مرکب دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ انتہا پسندی اور تیرتھ استھان کا سیاسی استعمال ملک کو خطرناک راہ پر لے جارہا ہے۔ وسیع پیمانے پر عوام الناس کے ذہنوں کو آلودہ کیا جارہا ہے، جس کا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینا چاہیے ۔

 

***

 سنگم کے ساحل پر گنگا جمنی تہذیب کا نظارہ
مہاکمبھ میں بھگدڑ کے موقع پر مسلمانوں کی بےمثال انسانیت نوازی
در بدر بھٹکتے ہوئے عقیدت مندوں کے لیے مسلمانوں کے گھر ،مساجد،تعلیمی ادارے اور امام باڑے، پناہ گاہوں میں تبدیل
عطا بنارسی
الٰہ آباد کا نام اگرچہ پریاگ راج میں تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن وہاں کے لوگ اب بھی الٰہ آبادی ہی ہیں ۔الٰہ آباد کے سنگم میں تین دریائیں ملتی ہیں اور اس کے ساحل پر آباد ہندو مسلم گنگا جمنی تہذیب کے علم بردار ہیں ۔اس کی مثال مہا کمبھ کے دوران ایک بار پھر دیکھنے کو ملی۔ مونی اماواسیہ کے موقع پر 28-29 جنوری کی درمیانی رات کو کمبھ میلے میں بھگدڑ مچ جانے کے بعد حالات پریشان کن ہو گئے،ہزاروں کی تعداد میں ہندو عقیدت مند شہر میں در بدر بھٹکنے لگے،سردی کی رات میں بھوکے پیاسے گلیوں میں سڑکوں پر آشیانہ تلاش کرتی بھیڑ کے لیے مسلمان مسیحا بن کرسامنے آئے۔مقامی مسلمانوں نے ان در بدر بھٹکتے عقیدت مندوں کے لیے اپنے گھر،مسجد ،درگاہ ، امام باڑوں اور کالجوں کے دروازے کھول دیے۔بھوکے پیاسوں کو کھانا اور پانی دیا،سردی سے کانپتے بزرگوں اور خواتین کو لحاف دیا،بیماروں کے دوائیوں کا انتظام کیا، سب سے زیادہ ٹوائلٹ اور قضائے حاجت کے لیے پریشان خواتین اور بچوں کے لیے انتظام کیا۔ کمبھ میں آنے والے پریشان حال عقیدت مندوں کی خدمت کے ذریعہ مسلمانوں نے نہ صرف اسلام کے بھائی چارہ اور اخوت و ہمدردی کا پیغام دیا ہے بلکہ یہ ان شدت پسندوں اور نفرتی گینگ کے منہ پر زور دار طمانچہ بھی لگایا جو کمبھ میلے میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی کی وکالت کر رہے تھے اور مسلمانوں کے ’ہمارے انگنے میں تمہارا کیا کام ہے کا نعرہ دے کر نفرت پھیلا رہے تھے۔‘
بھگدڑ کے موقع پر مسلمانوں نے تقریباً 25سے 26ہزار عقیدت مندوں کو جانسن گنج روڈ اور 10 سے زیادہ دیگر علاقوں میں پناہ دی۔ اس کے علاوہ لوگوں کے لیے خوراک، ادویات اور کمبلوں کا انتظام کیا ،متعدد ڈاکٹروں نے اپنے کلینک کو بیماروں کے لیے امدادی مرکز میں تبدیل کر دیا۔
ہندو عقیدت مندوں کو خلد آباد سبزی منڈی مسجد، بڑا تعزیہ امام باڑہ، ہمت گنج درگاہ اور چوک مسجد سمیت کئی مقامات پر ٹھیرایا گیا تھا۔ یہ ا قدام اس بات کا ثبوت ہے کہ الٰہ آباد میں ہندو مسلم بھائی چارہ اب بھی مضبوط ہے۔نام اگرچہ پریاگ راج ہو گیا ہے لیکن حقیقی معنوں میں لوگ ابھی بھی الٰہ آبادی ہی ہیں۔
مسلمانوں نے خاص طور پر پریشان حال عقیدت مندوں کے لیے لنگر کا اہتمام کیا، جہاں ہندو عقیدت مندوں کو کھانا اور گرم چائے فراہم کی گئی۔ سردی سے بچاؤ کے لیے 2500 سے زائد کمبل تقسیم کیے گئے۔ یہی نہیں مسلم نوجوا نوں نے عقیدت مندوں کو بحفاظت ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹینڈ تک پہنچانے میں بھی مدد کی تاکہ وہ آسانی سے اپنی منزل تک جا سکیں۔
خیال رہے کہ الٰہ آباد کے مسلمانوں نے ہمیشہ کمبھ میلے کو ایک بڑی سماجی اور مذہبی تقریب کے طور پر دیکھا ہے۔ اس تقریب سے نہ صرف انہیں روزگار ملتا تھا بلکہ انہیں عقیدت مندوں کی خدمت کا موقع بھی ملتا تھا۔ الٰہ آبادی ہونے کا فخر اس تقریب سے جڑا ہوا تھا لیکن اس بار صورت حال مختلف تھی۔ کچھ بنیاد پرست سنتوں نے کمبھ میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا، اس طرح مقامی مسلمان تاجروں اور مزدوروں کو کمبھ سے الگ تھلگ کر دیا گیا۔ بہت سے مسلمان دکانداروں کو دکان لگانے سے روکا گیا اور کچھ کو دھمکیاں بھی ملیں۔ انتظامیہ کی طرف سے بھی اس معاملے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی اور کمبھ میلہ سے مسلمانوں کو یکسر خارج کر دیا گیا۔
تاہم، مونی اماوسیہ کے دن بھگدڑ کے واقعے کے بعد، مسلمانوں نے ان شدت پسندوں کے احکامات کو نظر انداز کیا اور مجبور عقیدت مندوں کی مدد کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ مقامی مسلم نوجوانوں نے زخمی عقیدت مندوں کو گھروں میں پناہ دی، جب کہ مسلمان ڈاکٹروں نے اپنے کلینک زخمیوں کے علاج کے لیے وقف کر دیے۔چوک اور خلد آباد مسجد میں واقع جامع مسجد میں بھی ہندو عقیدت مندوں کے لیے کھانے اور رہائش کا انتظام کیا گیا۔کلہن ٹولہ واقع یادگار حسینی انٹر کالج میں بڑی تعداد میں ہندو عقیدت مند پناہ لیے ہوئے ہیں۔روشن باغ پارک میں موجود بھوکے پیاسے عقیدت مندوں میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کی گئیں ۔شہر میں جگہ جگہ مسلمانوں نے کھلے لنگر کا اہتمام کر کے کھانا تقسیم کیا۔ہندو عقیدت مندوں نے مسلمانوں کے ذریعہ کی جانے والی ان بے لوث خدمات کی بہت تعریف بھی کی ۔
اس بار اتر پردیش کے متعصب انتظامیہ نےکمبھ میلے کا اہتمام اس طرح کیا تھا کہ جس کے نتیجے میں مسلم اکثریتی علاقوں سے عقیدت مندوں کی آمد و رفت تقریباً نہیں کے برابر ہو گئی تھی۔اس کے پیچھے متعصب اتر پردیش انتظامیہ کا مقصد تھا یہ کہ مسلم تاجروں اور دکانداروں کو کمبھ میلہ کا کوئی اقتصادی فائدہ نہ مل پائے۔ اٹالہ، نوراللہ روڈ اور دیگر مسلم اکثریتی علاقوں سے گزرنے والی سڑکیں بند کر دی گئیں تھیں، جس سے مقامی مسلمان کارکنوں جیسے کہ رکشا چلانے والوں، مزدوروں، پلمبروں اور دیگر تاجروں کو معاشی نقصان پہنچانے کی کوشش تھی۔یہ کھلے طور پر الٰہ آباد کے مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ تھا۔
کمبھ میں مسلمانوں کے خدمت خلق نے ثابت کر دیا کہ اسلام خدمت خلق کے دوران ، کسی بھی آفت یا بحران میں مذہب نہیں دیکھتا، انسانیت سب نفرتوں پر مقدم ہوتی ہے۔ الٰہ آباد کے مسلمانوں نے جس طرح نفرت کو مسترد کیا اور ہزاروں ہندو عقیدت مندوں کی مدد کی، وہ ملک میں باہمی بھائی چارے کی روشن مثال ہی نہیں ہے بلکہ اتر پردیش کی متعصب انتظامیہ اور کمبھ کے بہانے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ بھی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025