!ہندوستان میں رائج طبقاتی نظام ،بی ایس پی اور دلت سیاست کا مستقبل

مایاوتی کی ناعاقبت اندیشی سے انڈیا اتحاد کو بھاری نقصان

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

نظریات سے کنارہ کشی وقتی طور پر فائدہ مند مگر خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑے گا
ہندوستان کی سیاست قدیم عرصہ سے ذات پات اور اونچ نیچ پر مبنی رہی ہے۔ساتھ ہی علم کے سرچشمہ پر برہمن قابض رہا۔ضروریات زندگی فراہم کرنا کچھ لوگوں کے لیے مختص کردیا گیا تو کچھ لوگوں کو جنگ و جدال میں مصروف کر دیا گیا۔ نتیجہ میں ایک زمانے میں راجہ اور رجواڑے جو ہوا کرتے تھے وہ بھی اپنے اپنے علاقے کی طاقتور ذات سے وابستہ ہوتے تھے۔ اور یہی معاملہ آزاد ہندوستان میں بھی جاری رہا۔ پھر جو لوگ کسی زمانے میں راجے مہا راجے ہوا کرتے تھے، جب ملک آزاد ہوا تو وہی جمہوریت کے نمائندے بن گئے۔ اگرچہ یہ آزاد ہندوستان میں حاکم تو نہیں رہے لیکن جمہور کے نمائندے ہونے کے ساتھ ساتھ کبھی تانا شاہی تو کبھی آمریت میں مبتلا رہے، اور اس پر ملک کے عوام نے بھی کوئی مزاحمت نہیں کی۔ اس کا ایک حقیقی پس منظر یہ ہے کہ اگرچہ آزاد ملک آزاد ہوا تھا لیکن ملک کے کا ذہن ابھی بھی اسی طبقاتی نظام سے وابستہ تھا جہاں صدیوں وہ مختلف قسم کی غلامیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔یعنی یہ عمل ان کے لیے کوئی غیر فطری نہیں تھا کہ جس سے وہ مانوس نہ ہوں۔البتہ اس نظام کے خلاف ایک آواز اٹھی جو بہت مضبوط تھی کیونکہ آواز اٹھانے والا نہ صرف ایک ذہین شخص تھا بلکہ علمی اور نظریاتی اعتبار سے بھی اس نظام کے خلاف تھا۔ وہ نام تھا بھیم راؤ امبیڈکر کا۔
بھیم راؤ امبیڈکر کی ولادت 14 اپریل 1891 کو موجودہ امبیڈکر نگر ( پرانا نام مہو واقع مدھیہ پردیش) میں ہوئی ۔وہ ایک بھارتی قانون داں، سیاسی رہنما، فلسفی، تاریخ داں، ماہر اقتصادیات، مصلح بدھ مت اور آزاد بھارت کے پہلے وزیر قانون ہونے کے ساتھ ساتھ بھارتی دستور کے اہم مصنف بھی تھے۔ ساتھ ہی وہ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کی اعلیٰ ترین جامعات کے فارغ التحصیل بھی تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہندوستان واپس آکر ریاست بڑودہ کے سکریٹری دفاع مقرر ہوئے۔ مگر نواب بڑودہ کی کوشش کے باوجود کسی نے انہیں کرایے پر گھر دیا اور نہ کسی نے دفتر میں پانی پلایا۔ نائب قاصد بھی متعلقہ فائل دور سے سکریٹری دفاع کی طرف پھینک دیتا کیونکہ ذات پات کو ماننے والے قاصد کا مان ڈاکٹر امبیڈکر کو چھونے یا دیکھنے سے بھرشٹ ہوتا تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر امبیڈکر نے وکالت شروع کی اور ساری عمر ایک ہی مقدمہ لڑنے میں زندگی صرف کر دی اور وہ تھا اچھوتوں کا مقدمہ۔
بھارتی سیاست میں دلتوں کی حصہ داری :
ہندوستان کی آزادی جہاں ایک جانب تمام اہل ملک کے لیے آزادی کا ذریعہ بنی وہیں دوسری جانب ہندوستانی معاشرہ اور اس میں موجود چھوت چھات پر مبنی نظام اور متعلقہ نظام سے وابستہ گروہوں کے لیے بھی فکری، نظریاتی اور عملی آزادی اور ملکی سیاست میں حصہ داری کا ذریعہ بن گئی۔ اگرچہ اس کا آغاز ڈاکٹر امبیڈکر کے ذریعہ سے ہوگیا تھا لیکن بھارت کے آئین ساز ڈاکٹر امبیڈکر نے 27 ستمبر 1951 کو نہرو کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ اس طرح وہ عملی سیاست سے دور ہوگئے لیکن اس کے بعد ان کا ایک اور جانشین مشہور ہوا جس کا نام کانشی رام ہے۔ کانشی رام کی ولادت 15 مارچ 1934 پنجاب کے ضلع روپڑ کے ایک گاؤں میں ایک غریب خاندان میں ہو ئی۔ہندوستان کی سیاسی بساط پر کانشی رام نے ایک دلت سیاسی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی بھی تھے نیز، دلت سیاست کے سب سے بڑے علم بردار بھی بنے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں جدید ہندوستان میں ڈاکٹر امبیڈکر کے بعد دلت سماج کا سب سے بڑا رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ 1970کی دہائی میں کانشی رام نے دلت سیاست کا آغاز کیا۔ سالوں کی محنت کے بعد بہوجن سماج پارٹی کی تشکیل عمل میں آئی اور اسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا۔ اپنے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے خود کبھی کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔ اگرچہ کانشی رام ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ بہوجن سماج پارٹی کا واحد مقصد اقتدار حاصل کرنا ہے لیکن وہ ذات پات پرمبنی ہندوستانی معاشرے میں ہمیشہ دلتوں کے حقوق اور سماجی برابری کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ کانشی رام کی قیادت میں بی ایس پی نے 1999 کے پارلیمانی انتخابات میں 14 سیٹیں حاصل کیں۔ اور 1995 میں ان کی سیاسی شاگردہ مایاوتی ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کی وزیر اعلی بنیں۔ کانشی رام ایک ماہر سیاست داں تھے اور دلتوں میں ان کا خاصا اثر تھا۔ وہ ایک بار اتر پردیش اور ایک بار پنجاب سے رکن پارلیمنٹ بھی منتخب ہوئے۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔ فالج، ذیا بیطس اور اعصابی دیاؤ کے باعث 9 اکتوبر 2006 میں ان کا دیہانت ہوا۔
مایاوتی کا دل بدل نظریہ :
مایاوتی 15جنوری 1956کو ایک دلت خاندان میں پیدا ہوئیں۔ محکمہ ٹیلی کمیونیکیشن کے ملازم پربھو داس کی بیٹی مایاوتی بچپن میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بننا چاہتی تھیں۔ انہوں نے دلی اور میرٹھ کی یونیورسیٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور اسکول ٹیچر کی نوکری اختیار کرلی۔ 1984 میں دلتوں اور پسماندہ ذاتوں کی ترقی کے نام پر بہوجن سماج پارٹی کا جب قیام عمل میں آیا تو مایاوتی نے اسکول کی ملازمت ترک کر کے سیاست میں قدم رکھا۔ بی ایس پی کے بانی کانشی رام نے مایاوتی کی صلاحیت کو قریب سے سمجھا اور انہیں اپنی پارٹی میں شامل کرلیا اور یہی فیصلہ بی ایس پی کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوا۔ مایاوتی پہلی بار 1980 کے عام انتخاب میں بجنور لوک سبھا سیٹ سے منتخب ہوئیں۔اس کے بعد اکبر پور حلقے سے لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئیں۔ 3 جون 1995کو مایاوتی نے پہلی مرتبہ وزیر اعلی کا عہدہ سنبھالا۔ وہ ہندوستان کی تاریخ میں کسی ریاست کی وزیر اعلی بننے والی پہلی دلت خاتون تھیں۔ اس کے بعد 21 مارچ 1997، 3مئی 2002اور 13مئی 2007 سے 15 مارچ 2012تک بالترتیب دوسری،تیسری اور چوتھی مرتبہ اتر پردیش کی وزیر اعلی رہیں۔ اس دوران بی ایس پی نے دو مرتبہ حکومت سازی کے لیے بی جے پی سے اتحاد کیا۔ مایاوتی کا سیاسی سفر متنازعہ رہا ہے۔ ان کے خلاف بد عنوانی کے کئی مقدمات پولیس میں درج ہیں۔ ان مقدمات میں ناجائز طریقے سے بڑی دولت حاصل کرنے کا معاملہ بھی شامل ہے۔ مایاوتی کے سیاسی سفر پر نظر ڈالنے سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اپنے حلقہ اثر کو بڑھانے اور اقتدار کے حصول کے لیے انہیں اپنے سیاسی نظریات بدلنے میں کبھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔ برخلاف اس کے 1984 میں بی ایس پی کی تشکیل کے بعد پارٹی نے دلت ووٹوں پر اپنا تسلط قائم کرتے ہوئے ’بہوجن ہتائے‘ کی بات کی تھی۔ اس وقت یہ نعرہ بھی بہت مشہور تھا کہ ’جو بہوجن کی بات کرے گا، وہ دیش پر راج کرے گا‘ ، لیکن جلد ہی کڑوے سیاسی تجربات نے مایاوتی کو سمجھا دیا کہ صرف ایک طبقہ کے ووٹ سے اقتدارحاصل نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا ستمبر 2021 میں ترشول ہاتھ میں لے کر مایاوتی کے سامنے ’روشن خیال کانفرنس‘ میں جے شری رام کے نعرے لگے۔ یہ اسی پارٹی کی کانفرنس تھی جس نے کبھی بی جے پی کو روکنے کے لیے ’ملے ملائم کانشی رام، ہوا میں اڑ گئے جے شری رام‘ کے نعرے لگوائے تھے اور مایاوتی وہاں بھی موجود تھیں۔ 2024 کے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی اور اس کی لیڈر مایاوتی کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ سیاسی نظریات بدلنے اور سیاسی بساط پر اپنے ہم خیال سیاسی اتحادیوں سے دوری بنائے رکھنے کی رہی ہے۔ آج یہ سوالات بھی مختلف دلت رہنماؤں ہی کی جانب سے اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا یہ وہی بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایاوتی ہیں جن کی بڑھتی ہوئی عمر اور جسمانی کمزوریوں کے ساتھ اپنے خاتمہ کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے؟
لوک سبھا الیکشن 2024 اور بی ایس پی کا منفی کردار:
لوک سبھا الیکشن 2024 میں دو اتحاد، این ڈی اے اور انڈیا الائنس میں سے کسی بھی اتحاد میں مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی شریک نہیں ہوئی۔اور طے کیا کہ وہ خود اپنی بنیاد پر خصوصاً اتر پردیش میں 80 میں سے 79 سیٹوں پر انتخابات لڑے گی۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ذلت و رسوائی سے دوچار ہوتے ہوئے 79میں سے 69 امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں اور ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا اور پارٹی کو شکست فاش ہوئی۔ یہاں تک کہ پارٹی کو کئی سیٹوں پر نوٹا کے مقابلے میں بھی کم ووٹ ملے اور ووٹنگ فیصد بھی کافی نیچے چلا گیا۔ ان میں کانپور سے بی ایس پی کے کلدیپ بھدوریا جنہیں صرف 12,032 ووٹ ملے۔ ان کے علاوہ مرزا پور، رابرٹس گنج، قیصر گنج، جھانسی، بندہ، بہرائچ، ہمیرپور اور کوشامبی میں بھی بی ایس پی امیدواروں کی حالت ابتر رہی، جہاں نوٹا نے ان تمام امیدواروں کو شکست دے دی۔ البتہ اتر پردیش کی کئی ایسی سیٹیں ہیں جہاں بہوجن سماج پارٹی نے بی جے پی کو کامیابی دلانے میں مدد کی۔ بی ایس پی کے ہری شنکر نے 1,55,053 ووٹ حاصل کرکے بھدوہی لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کو جتانے میں مدد کی۔ اکبر پور سے بی ایس پی کے امیدوار کو 73,140 ووٹ کے نتیجہ میں بی جے پی کے دیویندر سنگھ بھولے نے الیکشن جیتا۔امروہہ لوک سبھا سے بی ایس پی کے مجاہد حسین کو اتنے ووٹ تو مل گئے کہ عزت بچ گئی لیکن یہاں بی جے پی کے کنور سنگھ تنور الیکشن جیت گئے اور کانگریس امیدوار دانش علی الیکشن ہار گئے۔ بی جے پی کے کملیش پاسوان نے بانس گاؤں لوک سبھا سیٹ سے الیکشن جیتا، اس کی وجہ بھی پی ایس پی امیدوار تھے جنہوں نے 64,750 ووٹ حاصل کرکے کانگریس امیدوار کے خواب چکنا چور کردیے۔ بجنور لوک سبھا سیٹ پر راشٹریہ لوک دل کے امیدوار چندن چوہان نے ایس پی کے امیدوار دیپک کو 37,508 ووٹوں سے شکست دی، لیکن اس جیت میں سب سے بڑا رول بی ایس پی ہی کا رہا۔ اس سیٹ پر بی ایس پی کے امیدوار چودھری وجیندر سنگھ کو2,18,986 ووٹ ملے۔دیوریا لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کے ششانک منی ترپاٹھی نے جیت درج کی ۔ انہوں نے 50,4541 ووٹ حاصل کیے جبکہ کانگریس امیدوار اکھلیش پرتاپ سنگھ کو اس سیٹ پر شکست کا فرق صرف 34,842 ووٹ کارہا۔ یہاں بھی بی ایس پی امیدوار نے 45,564 ووٹ لے کر کانگریس کا کھیل خراب کر دیا۔اسی طرح فرخ آباد لوک سبھا سیٹ پر بی ایس پی کی امیدوار کرانتی پانڈے سماج وادی پارٹی کا کھیل خراب کرنے میں کامیاب رہیں اور بی جے پی کا کنول کھلا دیا۔ یہاں پر جیت کا فرق صرف 2,678 ووٹوں کا تھا، جب کہ بی ایس پی کی امیدوار کرانتی پانڈے نے 45,390 ووٹ حاصل کیں۔ فتح پور لوک سبھا سیٹ پر بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار نے 1,20,539 ووٹ حاصل کیے اور بی جے پی کے راجکمار چاہر کو جیتنے میں مدد کی۔ ہردوئی لوک سبھا سیٹ پر بی ایس پی کے امیدوار نے زبردست مقابلہ کیا، امیدوار بھیم راؤ امبیڈکر نے 1,22,629 ووٹ حاصل کیے۔ اس وجہ سے سماج وادی پارٹی کی امیدوار اوشا ورما الیکشن ہار گئیں اور بی جے پی کے جے پرکاش راوت 27,856 ووٹوں سے الیکشن جیت گئے۔ میرٹھ لوک سبھا سیٹ پر بی ایس پی کے امیدوار نے 870 2,25, ووٹ حاصل کیے اور یہاں سے بھی بی جے پی امیدوار ارون گوول جیت گئے۔ اپنا دل مرزا پور لوک سبھا سیٹ جیت گیا کیونکہ بی ایس پی کے امیدوار نے 14,446 ووٹ حاصل کیے۔انہوں نے نہ صرف پارٹی کی عزت بچائی بلکہ سماج وادی پارٹی کے امیدوار کو ہرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔پھول پور لوک سبھا سیٹ پر ایک بار پھر کنول کھل گیا، لیکن اس پھول کو کھلانے میں بی ایس پی کے ہاتھی نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے جیت ہار کے فرق کو صرف 4,332 ووٹوں سے بدل دیا۔یہاں بی ایس پی امیدوار جگناتھ پال نے 82,586 ووٹ حاصل کرکے پارٹی کی عزت برقرار رکھی۔ بی جے پی کے ارون کمار ساگر شاہجہاں پور لوک سبھا سیٹ جیتنے میں کامیاب رہے، لیکن اس کی وجہ بھی بی ایس پی کے امیدوار ہی تھے۔ بی ایس پی امیدوار نے 91,710 ووٹ حاصل کیے جس کی وجہ سے ایس پی امیدوار 55,379 ووٹوں سے الیکشن ہار گئے۔اناؤ لوک سبھا سیٹ پر بھی بی ایس پی کے امیدوار اشوک پانڈے نے 72,527 ووٹ حاصل کیے اور پارٹی کی عزت بچائی لیکن اس سیٹ پر بی جے پی اور ایس پی امیدواروں کے درمیان جیت کا فرق صرف 35,818 ووٹوں کا تھا۔ بی ایس پی کی مدد سے بی جے پی کے ساکشی مہاراج ایک بار پھر الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے۔
دلت سیاست اور سماج وادی پارٹی کی سیندھ:
لوک سبھا الیکشن 2024 اتر پردیش کے حوالے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بی ایس پی کے سینئر و موثر لیڈروں نے مایاوتی کے مقابلے ایس پی سربراہ اکھلیش یادو کو بہتر لیڈر مانتے ہوئے نیز مایاوتی کے طرز عمل سے خفا ہوکر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی۔ یہی وجہ ہے کہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں جہاں سپا محض 47 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی تھی۔ 2022 میں اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں سپا کو 111 سیٹیں حاصل ہوئیں بر خلاف اس کے بی ایس پی کو محض ایک ہی اسمبلی سیٹ پر اکتفاء کرنا پڑا۔ ساتھ ہی 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں ایس پی نے پی ڈی اے فارمولے کے تحت جب اپنی تیاری شروع کی تو بی جے پی نے اس فارمولے کا خوب مذاق اڑایا لیکن جب نتائج سامنے آئے تو سب حیران رہ گئے۔ ایس پی نے بی ایس پی سے وابستہ درجنوں باغی لیڈروں کو میدان میں اتارا۔ ایٹہ سیٹ سے دویش شاکیہ، اٹاوہ سے جتیندر دوہرے، جالون سے نارائن داس اہیروار، امبیڈکر نگر سے لال جی ورما، شراوستی سے رام شرومنی ورما، بستی سے رام پرساد چودھری، موہن لال گنج سے آر کے چودھری، کوشامبی سے پشپیندر سروج، آنولہ سے نیرج موریہ، جونپور سے بابو سنگھ کشواہا، باندہ سے کرشنا دیوی، بلیا سے سناتن پانڈے اور رابرٹس گنج سے چھوٹے لال کھروار کو جیت حاصل ہوئی۔ایس پی جنرل سکریٹری رام گوپال یادو کا دعوی ہے کہ پارٹی صدر اکھلیش یادو نے پی ڈی اے فارمولے کے تحت پارلیمانی الیکشن میں جو عوامی حمایت حاصل کی ہے وہ حقیقت میں قابل تعریف ہے۔ اس کا بڑا فائدہ سماج وادی پارٹی کو 2027 کے یوپی اسمبلی انتخابات میں ہوگا لیکن اگر دلت سیاست اور اس کے مقبول عام ہوتے لیڈر چندر شیکھر پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ جس طرح چندر شیکھر نے نگینہ (محفوظ) سیٹ پر 1,50,000 سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی ہے وہ دلت سیاست میں واضح تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے جس سے ڈاکٹر امیڈکر، کانشی رام اور مایاوتی کے بعد ایک نئے دور کے دلت لیڈر کے ابھرنے کے اشارے مل رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ 2027 میں انڈیا اتحاد چندر شیکھر کو شامل کرتا ہے یا نہیں اور شامل کرنے یا نہ کرنے کے نتیجہ میں اسمبلی انتخابات اور اس کے نتائج کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔لیکن نظریات پر مبنی پارٹیوں کو یہ بات ہمیشہ یا درکھنا چاہیے کہ نظریات سے کنارہ کشی وقتی طور پر کچھ فوائد پہنچا دیں لیکن اندرون کا کھوکھلا پن ان کو گھن کی طرح اندر ہی اندر ختم کر دے گا۔ یہاں تک کہ عوام بظاہر ان کا وجود محسوس کرتےہیں لیکن یہ نظریات سے کنارہ کشی ہی ہے کہ وہ ان کی موجودگی کے باوجود ان کو ختم کر چکا ہوتا ہے اور ان کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔

 

***

 نظریات پر مبنی پارٹیوں کو یہ بات ہمیشہ یا درکھنا چاہیے کہ نظریات سے کنارہ کشی وقتی طور پر کچھ فوائد پہنچا دیں لیکن اندرون کا کھوکھلا پن ان کو گھن کی طرح اندر ہی اندر ختم کر دے گا۔ یہاں تک کہ عوام بظاہر ان کا وجود محسوس کرتےہیں لیکن یہ نظریات سے کنارہ کشی ہی ہے کہ وہ ان کی موجودگی کے باوجود ان کو ختم کر چکا ہوتا ہے اور ان کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جون تا 22 جون 2024