ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں پر مظالم کے خلاف امریکہ کی تشویش
ڈس انفو لیب کے ذریعہ امریکہ میں مقیم کئی بھارتیوں کو گھیرنے کی سازش
اسد مرزا
سوشل میڈیا،بی جے پی کی انتخابی مہم کا اہم ذریعہ بن گیا۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی مہمات
امریکہ کے ایک آزاد ادارے یو ایس سی آئی آر ایف نے گزشتہ سال اکتوبر میں عالمی سطح پر مختلف ممالک میں مذہبی آزادی اور قانون کی بالادستی سے متعلق اپنی رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ میں جن ملکوں کے کردار پر خاص تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، ان میں بھارت بھی شامل تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں، لیکن ملک بدستور مذہبی فرقہ واریت کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہے۔ کارکنوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے گروپوں نے حالیہ مہینوں میں ملک بھر میں اقلیتوں پر مذہبی ظلم و ستم میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔جب کہ مودی اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ بھارت میں کوئی مذہبی امتیاز ہوا ہے، بہت سی غیر منافع بخش اور تحقیقی تنظیمیں ان بیانات کی تردید کرتی ہیں۔گزشتہ دسمبر میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے بھارت میں مذہبی آزادی پر اپنی تشویش کا اعادہ کیا اور مذہبی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
یو ایس سی آئی آر ایف کی فرینک وولف فہرست ان افراد کا ایک عوامی ڈیٹابیس ہے جنہیں حراست میں لیا گیا ہے، جس کی بنیاد ان کے مذہب یا عقیدے کی آزادی کا پر امن استعمال ہے، اور اس میں بھارت میں قید متعدد مذاہب کے کم از کم 37 افراد شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا، "یو ایس سی آئی آر ایف بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان مقدمات کا جائزہ لے اور ضمیر کے تمام قیدیوں اور اپنے مذہب یا عقیدے کا پرامن اظہار کرنے پر حراست میں لیے گئے افراد کو رہا کرے۔”
مذہبی اقلیتیں بدستور خطرے میں
مودی کے 2014 میں پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد سے، انہوں نے عدم برداشت اور امتیازی قوانین منظور کیے ہیں، جن میں بنیادی طور پر اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 2019 میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد، مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا ہے، جس نے اس خطے کو اس کے آئین، علیحدہ پرچم اور آزادی کے ساتھ نیم خود مختار ہونے کی اجازت دی۔ دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کو چھوڑ کر اپنے قوانین بنائے۔اس نے امتیازی نیا شہریت ایکٹ بھی منظور کیا، جسے سی اے اے (شہریت ترمیمی ایکٹ) کہا جاتا ہے، جس نے غیر مسلم اقلیتی برادریوں جیسے بدھ، عیسائی، ہندو، جین، پارسی اور سکھوں کو ہندوستانی شہریت دی جو پڑوسی ممالک بنگلہ دیش، افغانستان سے نکلے تھے۔
2021 میں، مودی حکومت نے تبدیلی مذہب کے خلاف ایک اور سخت قانون منظور کیا تھا۔ ہندوستان کی 28 ریاستوں میں سے تقریباً بارہ نے ،جہاں پر حکم راں جماعت یا اس کے اتحادی برسر اقتدار ہیں، نے مختلف حالات میں مذہب کی تبدیلی کو جرم قرار دیتے ہوئے قانون پاس کیا۔ ریاستیں مذہبی تبدیلی میں حصہ لینے والے افراد کو جرمانے اور قید کے ساتھ سزا دینے کی اہل بن گئی ہیں۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے طور پر دیکھے جانے والے قوانین انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں جو کہ ’’کسی فرد کے مختلف مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے یا غیر مذہبی ہونے کے حق کا تحفظ کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کا آرٹیکل 18 ( UDHR) کہتا ہے کہ ہر کسی کو مذہب یا عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہے، بشمول اپنے مذہبی عقائد کو تبدیل کرنے کی آزادی یا اپنی پسند کا کوئی مذہب یا عقیدہ اپنانے کی آزادی وغیرہ۔ امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق جو گزشتہ مارچ میں بھارت کے تبدیلی مذہب مخالف قوانین کے حوالے سے شائع ہوئی تھی، اس میں کہا گیا کہ "بھارت کی ریاستی سطح پر تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین کی ایک تیزی سے ابھری لہر ایک ایسی خصوصیت ہے جس کے تحت مختلف دفعات ہیں جیسے کہ نام نہاد ‘لو جہاد’ کو روکنا ہے، جو بین المذاہب شادیوں کے تناظر میں ہونے والی تبدیلیوں کے لیے ایک توہین آمیز اصطلاح ہے”
یو ایس سی آئی آر ایف نے دسمبر کے وسط میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف بین الاقوامی جبر پر خطرے کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان بھی جاری کیا: ’’بیرون ملک سرگرم کارکنوں، صحافیوں اور وکلاء کو خاموش کرنے کی بھارتی حکومت کی حالیہ کوششیں مذہبی آزادی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔‘‘
سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں
دوسری جانب بھارتی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں میں مقیم اپنے ان سیاسی مخالفین کے خلاف جارحانہ کارروائیاں بھی کر رہا ہے جو کہ بھارتی حکومت کے بقول بھارت کی سالمیت کے خلاف کام کر رہے ہیں۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں ان واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یو ایس سی آئی آر ایف نے بھی ان مہمات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسی طرح USCIRF کمشنر اسٹیفن شنیک نے کہا ’’کینیڈا میں سکھ کارکن ہردیپ سنگھ ننجر کے قتل اور امریکہ میں گروپتونت سنگھ پنون کو قتل کرنے کی سازش میں بھارتی حکومت کا مبینہ ملوث ہونا انتہائی پریشان کن ہے اور مذہبی اقلیتوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو خاموش کرنے کی بھارت کی کوششوں میں شدید اضافہ کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘
امریکہ اور کینیڈا دونوں نے بھارت پر سکھوں کے باشندوں کے خلاف قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ حالیہ تنازعہ کا مرکز ہردیپ سنگھ نِجر ہے – وہ کینیڈین سکھ رہنما جس کے قتل کی وجہ سے بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی جھڑپ ہوئی۔ نجار خالصتانی تحریک کے حامی تھے جو پنجاب کی ریاست سے نکلے ہوئے سکھوں کے لیے الگ وطن بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
بی جے پی کی سوشل میڈیا مہم
واشنگٹن پوسٹ کی ایک دوسری تجزیاتی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ مودی حکومت اپنی سوشل میڈیا مہمات کے ذریعے غلط معلومات پھیلانے کے لیے بدنام ہے۔ 500 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ، WhatsApp کا سب سے اہم اڈہ بھارت ہے،جو اسے غلط اور غیر تصدیق شدہ معلومات کے لیے افزائش کا ذریعہ بناتا ہے۔اگرچہ بی جے پی کی واٹس ایپ مشینری کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہیں، لیکن یہ اچھی طرح سے دستاویزی بات ہے کہ یہ اس کی ڈیجیٹل مہم کا ایک لازمی حصہ ہے، جو اکثر نفرت کو بھڑکانے کے پروپیگنڈے سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کے اہلکار ’’سوشل میڈیا کے جنگجو‘‘ کی طرح کام کرتے ہیں۔ جنوبی بھارت کے شہر منگلورو میں بی جے پی کے سوشل میڈیا سربراہ، 59 سالہ اجیت کمار الال نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا،’’ہر بی جے پی رضاکار جس کے پاس موبائل ہے وہ سوشل میڈیا کا جنگجو ہے۔‘‘ منگلورو، جنوبی ریاست کرناٹک میں واقع ہے اور حالیہ عرصہ میں آسام کے بعد اسے ’’ہندوتو لیب‘‘ کی دوسری تجربہ گاہ قرار دیا جارہا ہے۔
بی جے پی کے کئی گروپوں نے حالیہ مہینوں میں اپنے قومی سوشل میڈیا ورکشاپس کا انعقاد کیا جب کہ ہندو نواز پارٹی 2024 کے عام انتخابات سے قبل اپنی سوشل میڈیا حکمت عملی کو تیار کرتی نظر آرہی ہے۔
اندرون و بیرون ملک بی جے پی کی شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے کئی مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک مہم "Disinfo Lab” ہے جو کہ نفسیاتی خبروں کے ذریعے غیر تصدیق شدہ خبروں کی تحقیقات کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور منظم طریقے سے امریکہ میں مودی حکومت کے ناقدین کو نشانہ بنا رہی ہے۔اپریل میں، ڈس انفولیب نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں نیویارک میں مقیم ہندوس فار ہیومن رائٹس کی بانی سنیتا وشوناتھ پر تنقید کی گئی، جو کہ مودی کی ہندوتو پالیسیوں پر تنقید کرنے والے انسانی حقوق کے گروپ سے وابستہ ہیں۔رپورٹ میں وشوناتھ کو امریکی جارج سوروس کی اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشنز سے منسلک کیا گیا ہے جو کہ اس نے خواتین اور مہاجرین کی مدد کے لیے شروع کی گئی غیر منافع بخش تنظیم کے لیے فنڈنگ مہیا کرانے کے لیے قائم کی تھی۔ڈس انفولیب نے اس بات پر بھی زور دیا کہ واشنگٹن سے تعلق رکھنے والی بھارتی نژاد امریکی ڈیموکریٹ نمائندہ پرامیلا جے پال جو مودی پر تنقید کرتی ہیں، انہوں نے اس "گٹھ جوڑ” کے ذریعے فنڈز حاصل کیےہیں۔
یاد رہے کہ ڈس انفولیب مہم ان بھارتی امریکی کارکنوں کے خلاف چلائی گئی ہے جنہوں نے مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے لیے مودی حکومت پر تنقید کی تھی۔ یو ایس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کے ممبران، ایک دو طرفہ تنظیم جس نے محکمہ خارجہ کو سفارش کی تھی کہ بھارت کو "ایک ملک” تفویض کیا جائے۔ خاص طور پر اس بات پر تشویش ہے کہ مودی کی حکومت میں ملک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی ایک متعلقہ تحقیقات میں، فیس بک انڈیا کو اس وقت ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑا جب اسے پتہ چلا کہ بھارتی فوج کشمیر میں جعلی اکاؤنٹس کا استعمال کر کے خفیہ آپریشن کر رہی ہے۔ کچھ ملازمین نے کارروائیوں کو بند کرنے پر زور دیا، لیکن کچھ ایگزیکٹیوز نے اس عمل کو روک دیا لیکن فیس بک نے بعد میں اسے عام کیے بغیر آپریشن کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا۔
مجموعی طور پر بھارت میں فی الوقت مختلف سیاسی جماعتیں انفارمیشن وار مشینری بن چکی ہیں، جو کہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے تفرقہ انگیز اور پولرائزنگ نظریہ پھیلا رہی ہیں۔ جعلی خبروں کے ذریعے جس پیمانے پر لوگوں کی رائے کو ڈھالا جا رہا ہے اس سے ان کی سیاسی پیمائش کا پتہ چلتا ہے، اور اس مہم میں بی جے پی سب سے آگے ہے۔ کیونکہ وہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی مہمات کے علاوہ مذہبی تقریبات کو اپنے سیاسی فائدہ کے لیے استعمال کرنے کا فن بخوبی جانتی ہے اس فہرست میں آج ہمارے سامنے ایودھیا میں رام مندر میں ہونے والا پروگرام ہے، جسے وہ کس طرح اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے، مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے یہ اس کا سب سے تازہ نمونہ ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
***
***
‘‘امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے ہندوستان میں مذہبی آزادی پر اپنی تشویش کا اعادہ کیا اور مذہبی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ساتھ ہی یو ایس سی آئی آر ایف نے امریکی محکمہ خارجہ سے سفارش کی ہے کہ ہندوستان کو ‘‘ایک خاص تشویش’’ کا ملک قرار دیا جائے۔’’
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 3 فروری 2024