ہندوستانی تہذیب کو خود کشی کی طرف دھکیلنے والے ملک کے دشمن ہیں

کسی خوف اور مایوسی کے بغیر حالات کو بدلنے کا عزم کریں: جناب سید سعادت اللہ حسینی امیرجماعت اسلامی ہند

احمدآباد : (دعوت نیوز ڈیسک)

گجرات میں ملی تنظیموں کا ’امن و انصاف مہم‘ کے تحت پہلا پروگرام ۔برادران وطن سے خوش گوار تعلقات اور ’ماڈل بستیاں‘ بنانے پر زور
مولانا محمود مدنی،جناب محمد سلیم پٹی والا، مولانا شمشاد رحمانی مولانا اصغر امام سلفی اور دیگر کے خطابات
امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے ٹیگور ہال، احمد آباد میں منعقدہ خطاب عام میں کہا کہ ’’تہذیبیں مرتی نہیں ہیں بلکہ تہذیبیں خودکشی کرتی ہیں۔ جو لوگ بھارت کی تہذیب کو خودکشی کی طرف دھکیل رہے ہیں وہی دراصل ملک کے دشمن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی خوف اور مایوسی کے بغیر پورے اعتماد کے ساتھ موجودہ حالات کو بدلنے کا عزم کرنا چاہیے۔ مختلف قوموں کے درمیان روابط اور قریبی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں کی جانی چاہئیں۔ اس کے لیے بزرگوں کے ساتھ نوجوانوں اور خواتین کو بھی آگے آنا چاہیے۔ اندھیروں کا گہرا ہونا صبح کے قریب ہونےکی نشانی ہے، امن، سلامتی، مساوات اور انصاف کا سورج بہت جلد طلوع ہوگا۔‘‘ امیر جماعت اسلامی ہند ’امن اور انصاف مہم‘ کے تحت منعقدہ جسلہ سے صدارتی خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے امّت کے اندر خیر امت ہونے کا شعور بیدار کرنے، برادران وطن سے بے لوث، گہرے تعلقات قائم کرنے، اپنی بستیوں کو اسلام کا نمونہ بنانے اور عوام کی بے لوث خدمت کرنے کا عملی پروگرام پیش کیا۔ حال ہی میں جماعت اسلامی ہند، جمعیۃ علماء ہند، جمعیت اہل حدیث، امارت شریعہ بہار و اڑیسہ اور ملی کونسل نے مشترکہ طور پر ملک کے پانچ بڑے شہروں میں امن و انصاف مہم کے عنوان سے مختلف پروگرامس کے اہتمام کا فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ اس سلسلے کا پہلا پروگرام 30 جولائی کو احمدآباد میں منعقد کیا گیا جس کی میزبانی اور انتظام جماعت اسلامی ہند گجرات کے سپرد تھی۔ اس پروگرام میں ایک ہزار سے زائد مرد و خواتین نے شرکت کی جن میں ڈھائی سو سے زائد برادران وطن شامل تھے۔ تقریب کے مہمان خصوصی جمعیۃ علماء ہند کے صدر جناب محمود اسد مدنی نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ مسلمانوں سے پاک ہندوستان بنانے کا خواب دیکھنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جنگ کسی برادری یا مذہبی گروہ سے نہیں بلکہ اس نظریے سے ہے جو ہندوستانی آئین کو پس پشت ڈالنا چاہتا ہے۔ آج جس طرح کی نفرت پھیلائی جا رہی ہے اس سے مسلمانوں سے زیادہ دیگر قوموں کو اور پورے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’رات گہری اور لمبی ہے۔ لیکن طلوع آفتاب قریب ہے۔‘‘خطاب عام کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ اس کے بعد امیر حلقہ گجرات جماعت اسلامی ہند ڈاکٹر محمد سلیم پٹی والا نے استقبالیہ کلمات کے ذریعہ مہمانوں اور حاضرین کا استقبال کیا۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر جناب ملک معتصم خان نے اپنے کلیدی خطاب میں مہم کے مقاصد، ضرورت اور مستقبل کے خاکے پر روشنی ڈالی۔ مہمان خصوصی آدیواسی لیڈر اشوک چودھری نے کہا کہ آج کا بحران ایک عالمگیر ثقافتی اقدار کا بحران ہے۔ ہمارا آئین سیاسی مساوات کی بات کرتا ہے لیکن معاشی مساوات کی بات نہیں کرتا۔ غیر متشدد معاشرے کی تشکیل کے لیے دولت کی مساوی اور منصفانہ تقسیم ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ منی پور کی مثال دراصل ایک زمینی لڑائی ہے جو سیاسی مقاصد کے لیے لڑی جا رہی ہے۔خطاب عام کے ایک اور مہمان مقرر امارت شریعہ بہار کے جناب شمشاد رحمانی نے دعائے ابراہیم اور سیرت حضرت محمد (ﷺ) کے حوالوں سے واضح کیا کہ کسی بھی معاشرے کے لیے بھوک اور پیاس جیسی جسمانی ضروریات سے بڑی بنیادی ضرورت سلامتی، امن اور انصاف ہوتی ہے۔ انہوں نے اسلام میں امن و سلامتی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ بعد ازاں جمعیت اہل حدیث کے صدر مولانا اصغر امام مہدی سلفی نے امن و انصاف مہم کی ستائش کی اور مختلف برادریوں اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ہم آہنگی پر زور دیا۔ انہوں نے حاضرین سے اپیل کی کہ وہ امن کے قیام کے لیے ظالم کے خلاف دلیرانہ انداز میں کھڑے ہوں اور اسے ظلم سے باز رکھیں۔سینئر گاندھیائی مفکر جناب کمار پرشانت نے کہا کہ انصاف کے قیام کے بغیر امن کا قیام نا ممکن ہے۔ گاندھی کے نظریے کا حامل ہندوستان اور ان کے قاتل نظریہ کے ہندوستان کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1948ء میں گاندھی کو گولی نہیں ماری گئی تھی بلکہ وہ ہندوستانی خواب تھا جس کو گولی ماری گئی تھی، جس میں تمام ہندوستانیوں کے ہندوستان کا تصور تھا۔ 2024ء ایک بار پھر جامع ہندوستان بنانے کا ایک موقع ہے جس کا ہمیں بھرپور فائدہ اٹھانے اور جمہوری اقدار کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ خطاب عام میں موجود مختلف مذاہب کے رہنماؤں نے ’امن اور انصاف مہم‘ کےانعقاد پر منتظمین کو مبارکباد پیش کی اور اپنے مختصر پیغام اور دعائیہ کلمات سے نوازا۔ مذہبی برادریوں جیسے سوامی نارائن فرقہ، گائتری پریوار، برہما کماری، پارسی سماج، عیسائی پرسٹ، مسلم خاتون رہنما، بدھ بھنتے، یہودی ربی اور سکھ مذہب جیسے مذہبی رہنماؤں نے ایک زبان ہو کر مہم میں تعاون کرنے کا عزم کیا۔ سماجی کارکن عارفہ پروین صاحبہ نے منی پور کی وحشیانہ اور شرمناک سانحہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے گجرات میں ایسے کئی شرمناک واقعات ہو چکے ہیں، اگر اس وقت اس کو روکا گیا ہوتا تو آج منی پور کا واقعہ پیش نہ آتا۔ ایڈووکیٹ سہیل ترمذی، ایڈیٹر روزنامہ گجرات ٹوڈے نے مہم کی کامیابی کا یقین دلایا اور اس میں میڈیا کے کردار پر زور دیا۔ آخر میں جمعیۃ علماء ہند گجرات کے سکریٹری جناب نثار احمد انصاری کے شکریہ کے ساتھ خطاب عام کا اختتام عمل میں آیا۔ مہم کے کنوینر جناب اقبال مرزا نے پروگرام کی نظامت کی۔ اسی دن بعد نماز مغرب میمن ہال جوہاپورہ میں معززین شہر کے ساتھ ایک نشست رکھی گئی جس میں تقریباً دو سو افراد شریک رہے۔ جماعت اسلامی ہند گجرات کے امیر حلقہ جناب محمد سلیم پٹی والا نے افتتاحی کلمات پیش کیے۔ جماعت اسلامی کے رکن مرکزی مجلس شورٰی جناب مجتبی فاروق، پروفیسر نثار انصاری، مفتی رضوان صاحب، مولانا شمشاد رحمانی اور مولانا اصغر امام سلفی نے اس نشست سے خطاب کیا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اگست تا 19 اگست 2023